اسلام آباد دھرنا: سیاسی بحران اور ریاستی طاقت کا استعمال

Blogger Advocate Naseer Ullah Khan

اسلام آباد دھرنے کے دوران میں شہادتوں کے معاملے پر حکومتی موقف انتہائی کم زور ثابت ہوچکا ہے۔ پہلے یہ کہا گیا کہ 2 شہادتیں ہوئی ہیں۔ پھر دعوا کیا گیا کہ کوئی شہادت نہیں ہوئی۔ اَب کہا جا رہا ہے کہ جو شہادتیں ہوئی ہیں، وہ پی ٹی آئی کے افراد کی ہیں، لیکن کسی اور وقت اور دن کی ہیں۔ اُن میتوں کو پی ٹی آئی کے جھنڈے میں لپیٹ کر پیش کیا جا رہا ہے۔
مزید یہ دعوا کیا جا رہا ہے کہ اسلام آباد میں کوئی زخمی ہوا اور نہ کوئی شہادت ہی ہوئی۔ کس ڈھٹائی کے ساتھ حکومت عینی شواہد کو جھٹلا رہی ہے۔ تہذیب، جمہوریت اور اخلاقی روایات کا ایسا دھڑن تختہ پہلے کبھی دیکھنے کو نہیں ملا۔
یہ سب اُس وقت کہا جا رہا ہے، جب ہزاروں ویڈیوز موجود ہیں، جو اس بات کی تصدیق کرتی ہیں کہ نہ صرف دو یا تین، بل کہ سیکڑوں شہادتیں ہوئی ہیں۔ ہزاروں مظاہرین پر بہ راہِ راست گولیاں چلائی گئی ہیں۔ مَیں سمجھتا ہوں کہ ان شہادتوں اور زخمیوں کا خون ہر روز ریاست کو ظلم اور بربریت کی یاد دلاتا رہے گا۔ اَب روز کوئی نہ کوئی ریاست کی رٹ کو چیلنج کرے گا۔
ہزاروں افراد کو گرفتار کیا گیا ہے۔ حکومت نے یہ سب کچھ ایک منظم منصوبہ بندی کے تحت کیا ہے۔ کیوں کہ دھرنے اور مظاہرے سے پہلے پنجاب میں پی ٹی آئی کے کارکنوں کو جیلوں میں ڈال دیا گیا۔ پورے پنجاب اوراسلام آباد میں جگہ جگہ پولیس، رینجرز اور ایف سی نے ناکے لگا کر اور کنٹینر رکھ کر راستے بند کیے۔ میرا ماننا ہے کہ پی ٹی آئی والے سچ کَہ رہے ہیں، لیکن حکومت اسے جھوٹ قرار دے رہی ہے، جو سراسر ناانصافی اور ظلم کے مترادف ہے۔
حکومت کو سب سے زیادہ نقصان اُس وقت ہوگا جب پی ٹی آئی والے بھی جھوٹ کا سہارا لینا شروع کریں گے، جو کہ کسی صورت نہیں ہونا چاہیے۔ سیاست دراصل اخلاقیات اور سچائی کا نام ہے۔ سیاست اور جھوٹ کا آپس میں کوئی تعلق نہیں، لیکن پاکستان میں سیاست کو جھوٹ کا دوسرا نام بنا دیا گیا ہے، جو لمحۂ فکریہ ہے۔
دھرنے سے پہلے خفیہ اداروں کی رپورٹس کے مطابق لاکھوں لوگ دھرنے کے لیے تیار تھے۔ اسی وجہ سے ایک منصوبہ بنایا گیا کہ اسلام آباد دھرنے کو کس طرح کم زور اور ختم کیا جا سکتا ہے۔ لاکھوں افراد نے اس دھرنے میں حصہ لیا، جو کہ ایک انقلاب تھا۔ وزیرِ اعلا، بشریٰ بی بی اور دیگر اراکینِ اسمبلی جاری فسطائیت سے مجبور ہو کر دھرنے کو چھوڑنے پر آمادہ ہوئے۔ میرا ماننا ہے کہ یہ ایک درست حکمت عملی تھی۔ کیوں کہ اگر یہ دھرنا جاری رہتا، تو ریاست کو مزید سبکی کا سامنا کرنا پڑتا اور ہزاروں کے بہ جائے لاکھوں افراد زخمی اور شہید ہوجاتے۔ یہاں تک کہ پاکستان کے وجود کو بھی خطرہ لاحق ہو سکتا تھا۔
پی ٹی آئی کے اندر جھوٹ بول کر اختلافات کو ہوا دی جا رہی ہے۔ اسلام آباد دھرنا اب ایک سانحے کی صورت اختیار کرچکا ہے۔ جب تک مظلوموں کو انصاف نہیں ملے گا، دھرنے میں شہید ہونے والوں کا خون ریاست کا تعاقب کرتا رہے گا۔
دھرنے کے دن اسلام آباد میں کرفیو نافذ کرنے جیسا سماں طاری کیا گیا۔ ہزاروں زخمیوں کو اسپتال لایا گیا، لیکن اُن سب کا ریکارڈ حکومتی تحویل میں لے کر غائب کر دیا گیا۔ ثبوتوں کے ساتھ چھیڑ چھاڑ کی گئی۔ مظاہرین سے زبردستی اقبالی بیانات لیے گئے۔ رات کے اندھیرے میں حکومت اور اسٹیبلشمنٹ نے نہتے عوام پر ظلم کے پہاڑ توڑ دیے۔ اسپتالوں میں ڈاکٹروں کو دھمکیاں دے کر خاموش کروا دیا گیا اور جو کچھ ریکارڈ ہوا، اُسے منظرِ عام پر لانے کی اجازت نہیں دی گئی۔
یہ سب اقدامات اس بات کا ثبوت ہیں کہ حکومت اپنی ناکامیوں کو چھپانے کے لیے ہر ممکن حربہ استعمال کر رہی ہے، لیکن مظلوموں کی آواز اور شہیدوں کا خون کبھی چھپایا نہیں جاسکتا۔
اسلام آباد ہائی کورٹ کے فیصلے اور دفعہ 144 کے نفاذ کے ذریعے حکومت نے مظاہرین کے خلاف سخت کارروائی کی، جس سے اُن کے آئینی حقوق کی کھلی خلاف ورزی ظاہر ہوتی ہے۔ خیبرپختونخوا اور پنجاب سے آنے والے موٹرویز کو بند کرنا، مظاہرین کو اسلام آباد پہنچنے سے روکنا اور اُن پر الزامات لگانا حکومت کی نیت پر کئی سوالات اٹھاتا ہے۔ مظاہرین کے مطالبات جائز اور آئین کے مطابق ہیں:
٭ تمام سیاسی قیدیوں کی رہائی:۔ یہ بنیادی انسانی حقوق کا مسئلہ ہے۔
٭ مینڈیٹ چوری کے لیے آزاد عدالتی ٹریبونل کا قیام:۔ یہ جمہوریت کی بقا کے لیے ضروری ہے۔
٭ 26ویں آئینی ترمیم کی واپسی:۔ یہ عوامی مفادات کے تحفظ کا معاملہ ہے۔
٭ قانون کی حکم رانی کا نفاذ:۔ ریاست کی بنیاد قانون کی حکم رانی پر ہونی چاہیے۔
ان مطالبات میں کسی بھی قسم کا غیر آئینی یا غیر قانونی پہلو نہیں۔ مظاہرین نہتے تھے اور اُن کے پاس کسی بھی قسم کا غیر قانونی اسلحہ نہیں تھا۔ اس طرح حکومت کی جانب سے خیبر پختونخوا کی صوبائی حکومت پر سرکاری وسائل کے استعمال کا الزام لگایا گیا، لیکن اس کی بارہا تردید کی گئی۔ اگر ایسے الزامات درست بھی ہوں، تو اُن کی تحقیقات کے لیے عدالتیں موجود ہیں، نہ کہ مظاہرین پر طاقت کا استعمال کیا جائے۔
آئینِ پاکستان ہر شہری کو پُرامن احتجاج کا حق دیتا ہے۔ اگر احتجاج، آئین کے تحت جائز ہے، تو کیا حکومت کے اقدامات جبر اور عوامی آواز کو دبانے کی کوشش نہیں؟ کیا اسلام آباد آنے کے لیے اجازت لینا ایک جمہوری ملک میں ضروری ہونا چاہیے؟
میڈیا، جسے غیر جانب دار ہونا چاہیے تھا، حکومت کے بیانیے کو تقویت دینے میں مصروف ہے۔ سنسنی خیز اور گم راہ کن خبریں عوام کو حقیقت سے دور رکھنے کی کوشش ہیں۔ حکم ران طبقہ جھوٹ کو اپنی طاقت کا ہتھیار بنا رہا ہے، جو ایک فسطائی ریاست کی نشانی ہے۔
پی ٹی آئی کو جلسوں اور احتجاج کی اجازت نہ دینا، کارکنان کو جیلوں میں ڈالنا اور راستے بند کرنا حکومتی جبر کی پالیسیوں کی عکاسی کرتا ہے۔ یہ وہی اقدامات ہیں جو آمریت میں دیکھنے کو ملتے ہیں، جہاں عوام کی آزادی چھین لی جاتی ہے اور حکم ران طاقت کے زور پر اپنے بیانیے کو تھوپتے ہیں۔
مظاہرین کے مطالبات پر غور نہ کرنا اور طاقت کے ذریعے اُن کی آواز دبانے کی کوشش کرنا حکومت کی کم زوری کو ظاہر کرتا ہے۔ انصاف، قانون کی حکم رانی اور انسانی حقوق کی بہ حالی کے لیے آواز اُٹھانا کسی بھی جمہوری معاشرے کی بنیاد ہونی چاہیے، اور اسے دبانے کی کوشش نہ صرف آئین کے خلاف ہے، بل کہ اخلاقی طور پر بھی ناقابلِ قبول ہے۔
جمہوریت کا بنیادی اُصول یہی ہے کہ ہر آواز کو سنا جائے، خواہ وہ اختلافی ہو، یا ناقدانہ ہی کیوں نہ ہو۔ تعمیری مکالمہ اور تنقید نہ صرف جمہوری عمل کو مضبوط کرتی ہے، بل کہ قوم کی ترقی کے لیے بھی ضروری ہے۔ مخالف بیانیہ ریاست دشمنی نہیں، بل کہ پالیسیوں میں موجود خامیوں کی نشان دہی کرتا ہے، اور اس پر غور کرنا ہی حقیقی جمہوریت کا تقاضا ہے۔
پاکستانی تاریخ اس بات کی گواہی دیتی ہے کہ یہاں ہر وزیرِاعظم کو اپنے دورِ حکومت کے بعد مشکلات، قید و بند اور صعوبتوں کا سامنا کرنا پڑا۔ سیاست دانوں کو عوامی سطح پر بدنام کیا گیا اور اُن کی ساکھ کو نقصان پہنچایا گیا۔ یہ سوال اپنی جگہ قائم ہے کہ یہ سب کس کے حکم پر ہوتا ہے؟ عوامی نمایندوں کو بے عزت کرنے اور اُن کے سیاسی کیریئر کو ختم کرنے کی مہمات کیوں اور کس مقصد کے تحت چلائی جاتی ہیں؟
نیز اسلام آباد میں مظاہرین پر گولی چلانے کا حکم کس نے دیا؟ یہ ایک بنیادی سوال ہے جو کہ جواب طلب ہے۔ عدلیہ کا سوموٹو لینے سے گریز کرنا عوام کے اعتماد کو مجروح کر رہا ہے۔ اگر عدالتیں عوامی مسائل اور انسانی حقوق کی پامالی پر کارروائی کرنے سے گریزاں ہیں، تو انصاف کا حصول کیسے ممکن ہوگا؟
ملک میں مہنگائی، سیاسی عدم استحکام اور معاشی بحران نے عوام کی زندگی اجیرن کر دی ہے۔ بنیادی سہولیات جیسے تعلیم، صحت، روزگار اور امنِ عامہ کے مسائل دن بہ دن بگڑتے جا رہے ہیں۔ عوام اپنے حقوق کے لیے آواز اٹھاتے ہیں، لیکن اُن کی آواز کو دبانے کے لیے ریاستی طاقت کا استعمال کیا جاتا ہے۔
پاکستان کے اداروں کو اپنے دائرۂ اختیار میں رہ کر کام کرنا ہوگا۔ عدلیہ، جو کسی حد تک عوامی مسائل کے حل کے لیے کھڑی ہوتی تھی، اَب غیر جمہوری طاقتوں کے دباو کا شکار ہوچکی ہے۔ آئین اور قانون کی بالادستی کے اصول محض کتابوں تک محدود ہو کر رہ گئے ہیں، جب کہ عملی طور پر ادارے ایک دوسرے کے معاملات میں مداخلت کرتے ہیں، جس سے انتشار اور ناانصافی پیدا ہو رہی ہے۔ حکومت اور اپوزیشن کو ایک دوسرے کے ساتھ مذاکرات کے ذریعے مسائل حل کرنے کی کوشش کرنی چاہیے۔ ہر ادارے کو اپنی آئینی حدود میں رہ کر کام کرنا چاہیے، تاکہ جمہوریت مضبوط ہو۔ حکومت کو مہنگائی، بے روزگاری اور بنیادی سہولیات کی فراہمی کو اولین ترجیح دینی چاہیے۔ عدلیہ کو عوامی اعتماد بہ حال کرنے کے لیے انسانی حقوق کی پامالی کے واقعات پر سوموٹو لینا چاہیے۔
جمہوریت کی اصل خوب صورتی یہ ہے کہ ہر مخالف آواز کو ترقی کا زینہ سمجھا جائے، نہ کہ اسے دبانے کی کوشش کی جائے۔ جب تک عوام کے مسائل حل نہیں ہوں گے اور انصاف کی فراہمی یقینی نہیں بنے گی، ملک میں حقیقی جمہوریت اور ترقی ممکن نہیں۔
یہ صورتِ حال پاکستان میں جمہوریت، انصاف اور قانون کی بالادستی پر سوالیہ نشان ہے۔ اداروں کو اپنے فرائض دیانت داری سے انجام دینا ہوں گے۔ عوام کے بنیادی حقوق، تعلیم، صحت، روزگار اور امن جیسے مسائل پر توجہ دینا ہوگی۔
اگر ایسا نہ کیا گیا، تو یہ ناانصافی ملک کو مزید بحرانوں میں دھکیل دے گی۔
……………………………………
لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com یا amjadalisahaab@gmail.com پر اِی میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے