سانحۂ پاڑہ چنار اور اندھے مقلدین

Blogger Mehran Khan

مولانا وحید الدین خان اپنی کتاب ’’تعمیرِ انسانیت‘‘ (انسانیت کی تعمیر میں اسلام کا حصہ) میں یہ واقعہ لکھتے ہیں کہ پیغمبرِ اسلام صلی اللہ علیہ وسلم جب مدینہ میں تھے، ایک روز آپ نے دیکھا کہ قریب کے راستے سے ایک جنازہ گزررہا ہے۔ لوگ ایک میت اُٹھائے ہوئے اس کو قبرستان کی طرف لے جارہے تھے۔ اُس وقت آپ بیٹھے ہوئے تھے۔ جنازے کو دیکھ کر آپ اُس کے احترام میں کھڑے ہوگئے۔ آپ کے ساتھی نے کہا کہ اے خدا کے رسول! یہ تو ایک یہودی کا جنازہ تھا (نہ کہ کسی مسلمان کا جنازہ )۔ آپ نے فرمایا: ’’کیا وہ انسان نہ تھا!‘‘ (فتح الباری، بہ شرح صحیح البخاری، 214/3)
یہ تھے ہمارے رحمت للعالمین صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم۔ اور یہ تھی اُن کی نظروں میں انسانی عظمت اور انسانی وقار۔ آپ کے وارثین ہونے کے دعوے دار تو آج ڈھیر سارے ہیں، لیکن بدقسمتی سے اُن میں سے ڈھیر سارے ان غیر ضروری باتوں میں لگے ہوئے ہیں کہ یہ کافر، وہ کافر، فُلاں کافر یا ہمارے سوا سب کافر۔ آج کافر کافر کے اس ورد میں ہم یہ تک بھول گئے کہ ہم مسلمان تو کیا انسان کہلانے کے لائق بھی ہیں؟ بہ قول جلیل حیدر لاشاری
جانے کب کون کسے مار دے کافر کَہ کے
شہر کا شہر مسلمان ہوا پھرتا ہے
مسلمان تو پھول کی طرح خوش بو دیتا ہے، لیکن ہماری خوش بو دینے والی پتیاں بکھر چکی ہیں اور اَب بس کانٹے ہی بچے ہیں، جو دوسرے انسانوں کی تکلیف کا باعث ہیں۔
میں مذہب کی بنیاد پر ہرگز نفرت کا قائل نہیں ہوں۔ البتہ دین کا علمی مطالعہ کیے بغیر نیم ملا، نیم عالم، نیم متقی اور نیم مسلمان سے دورِ حاضر میں خطرہ ضرور محسوس کرتا ہوں۔
ہمارے ہاں مسئلہ یہ ہے کہ ہم انفرادی طور پر کسی قاری یا مولوی سے سنی ہر بات پر تحقیق کرکے علمی پیاس بجھانے کے بہ جائے یقین کرکے اسے اپنے سینے سے لگا لیتے ہیں۔
جہاں تحقیق ہوتی ہے، وہاں دلیل راج کرتی ہے۔ جہاں دلیل راج کرتی ہے، وہاں جذبات کی چنگاری نہیں سلگتی، وہاں رواداری اور برداشت کا دور دورہ ہوتا ہے…… لیکن جہاں صرف جذبات سلگتے ہیں، وہاں صرف اور صرف اندھی تقلید ہوتی ہے۔ اندھی تقلید سے شدید جذبات جڑے ہوتے ہیں اور شدید جذبات سے بڑا کوئی دشمن نہیں۔ جذباتیت کے زیادہ ہونے اور علمی اور شعوری مطالعہ نہ ہونے کی وجہ سے پھر ایک عام سے سوال سے ہماری خود ساختہ تعمیر کردہ دینی عمارت لرزنے لگ جاتی ہے اور ہم سوال کرنے والے سے خطرہ محسوس کرنے لگتے ہیں کہ یہ ہماری علمی سطحیت کا بھانڈا پھوڑ رہا ہے۔ زیادہ تر اسی ڈر کی وجہ سے ہم سوال کرنے والے کے ساتھ ذاتیات پر اُتر آتے ہیں کہ اس نے ہماری انا اور ہمارے جذبات کو ٹھیس پہنچائی ہے۔
یہی اَنا اور یہی جذبات جب اجتماعی صورت اختیار کرتے ہیں، تو مزید خطرناک روپ دھار لیتے ہیں۔
پاڑہ چنار میں ہونے والا یہ ظلم بھی اسی مذہبی سطحیت، جذباتی انتہا پسندی اور فرقہ واریت کا نتیجہ ہے، جس کی آب یاری ریاست نے اپنے مذموم مقاصد کے لیے کی اور اسے بڑھوتری کچھ سطحی اور سرکاری ملاؤں نے دی۔ ضیاء الحق کے دور میں جنم لینے والے شیعہ سنی فساد اور نفرت نے کتنی جانیں لیں، کتنے خاندان اُجاڑے، کتنے گاؤں تباہ کیے؟ اس سے تاریخ پردہ اٹھا چکی ہے۔ آج کل کے یہ تازہ ترین واقعات اُن تاریک صفحات میں نیا اضافہ ہیں۔
وہ عقیدہ جو آپ کے اور آپ کے خدا کا معاملہ ہے، اُس کی وجہ سے آپ کسی انسان کی جان کیسے لے سکتے ہیں؟ وہ عقیدہ جو آپ کی رگوں میں دوڑنے والے خون کی طرح پوشیدہ ہے، اُسے اس طرح نفرت کا باعث آپ کیوں بناتے ہیں؟ وہ عقیدہ جو آپ کا مسئلہ ہے، اُسے آپ کسی دوسرے کے گلے کا طوق کیوں بناتے ہیں؟ وہ عقیدہ جو آپ کو محبت اور انسان دوستی نہ سکھائے، یا تو وہ عقیدہ چھوڑ دو، مسخ کردو یا خود کو بدل کے اُس عقیدے کی بدنامی کا باعث نہ بنو!
ہم رحمت للعالمین صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے وارث ہونے کا دعوا کرکے اپنی انا کو تو تسلی دیتے ہیں، لیکن اُن کے پیار، محبت، انسانیت اور بشر دوستی کی تعلیمات کو پاؤں تلے روند کے خود کو عاشقِ رسول بھی کہلواتے ہیں۔ ہمیں شاید علم نہیں کہ ہماری ’’محنت‘‘ کیا رنگ لائی ہے!
ریاست کو یہ مجرمانہ خاموشی زیب تو نہیں دیتی، لیکن ہم اس کے عادی ہوچکے ہیں۔ ہونا تو یہ چاہیے کہ ریاست باقاعدہ فریق بن کے اس مسئلہ کا حل نکالے اور اپنی ذمے داری پوری کرے۔ ریاست کو چاہیے کہ عرب اور ایران کے درمیان جاری مسلم دنیا کی سرد جنگ میں فریق نہ بنے، بل کہ اپنے شیعہ اور سنی دونوں شہریوں کی حفاظت خود کرے۔ کیوں کہ یہی آئین، قانون اور جمہوریت کا تقاضا ہے۔ خدا کرے کہ ریاست یہ بربادی دیکھ سکے اور اس کی آنکھیں کھل جائیں۔
ہمیں بھی چاہیے کہ اپنے خدا اور رسول پر ایمان رکھیں۔ اپنی مذہبی تشریحات پر عمل کریں، لیکن اس حد تک کبھی نہ جائیں کہ ہم کو اپنا مسلمان ہونا احساسِ برتری میں مبتلا کردے۔
خدارا! انسانوں پر رحم کریں۔ اپنے اختلاف کو اپنی حد تک رکھیں۔ ورنہ ایک وقت آئے گا کہ پھر خون کی بہتی ندی میں سے اپنے اور پرائے، شیعہ اور سنی، کافر اور مسلمان خون کا فرق کرنا مشکل ہو جائے گا۔
 ……………………………………
لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com یا amjadalisahaab@gmail.com پر اِی میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے