سوات موٹر وے، سرتور فقیر اور چرچل پکٹ

Blogger Khalid Hussain Borewala Punjab

اچھی اور صاف ستھری سڑکیں فاصلوں کو سمیٹ کر خوش گوار بنا دیتی ہیں۔ راولپنڈی سے مینگورہ شریف تک جانے کے لیے ویگن پر 7 سے 8 گھنٹے تک کا تھکا دینے والا سفر درکار ہوتا تھا۔ جو اَب سوات موٹر وے بننے سے سمٹ کر 4 گھنٹے تک محیط ہو کر رہ گیا ہے۔ اس دوران میں ملاکنڈ کے پہاڑوں والا حصہ زیادہ صبر آزما ہوتا تھا، جس میں تنگ سڑک پر چل کر سیدھی اور بل کھاتی خطرناک چڑھائیاں چڑھنا پڑتی تھیں۔ جو قدرے مشکل ہونے کے ساتھ خوف ناک بھی تھیں۔ یہ رستہ تھوڑا طویل بھی تھا، جو مردان سے اُلٹے ہاتھ بدھ مت تہذیب کی باقیات لیے ایستادہ کھڑے شہر تخت بھائی سے ہوتا ہوا سخاکوٹ کی طرف چلا جاتا اور پھر بٹ خیلہ کو ٹچ کرتا دریائے سوات کی ساتھ ساتھ چل کر چکدرہ تک آتا تھا۔ سخاکوٹ شہر سے میری ڈھیر ساری یادیں وابستہ ہیں۔ جب واپسی پر ویگن سخاکوٹ رُکتی، تو ہم اُتر کر پاس ہی واقع ایک مارکیٹ چلے جاتے اور پھر یہیں سے چھوٹی موٹی ضرورت کی گھریلو اشیا سستے داموں خرید کر لایا کرتے۔
اسی مردان ملاکنڈ روڈ کے رستے پر بنٹن ٹنل ملاکنڈ خاص بھی آتی ہے، جو 1917ء میں دریائے سوات سے نکالی گئی تھی۔ یہ ٹنل ملاکنڈ کے پہاڑوں کو کاٹ کر بنائی گئی تھی، جسے ملاکنڈ ایجنسی ایری گیشن کے پہلے چیف انجینئر سر جان بنٹن نے بنوایا تھا اور یہ ٹنل اُسی کے نام سے منسوب ہے۔
یہ ٹنل ایک بڑی نہر کی شکل میں امان درہ ہیڈ ورکس سے دریائے سوات کے پانی کے بہاو کو نیچے درگئی جبن (جبنڑ) تک پہنچاتی ہے۔ جس سے ملاکنڈ، مردان، چارسدہ، صوابی اور نوشہرہ تک کے علاقوں کو سیراب کیا جاتا ہے۔ ضلع مردان کی ہریالی میں اس بنٹن ٹنل سے گزر کر آنے والے پانی کا بھی بڑا ہاتھ ہے۔ مگر سوات موٹر وے بننے سے چکدرہ تک کا سفر زیادہ تر لوگ سوات موٹر وے پر کرنے کو ترجیح دیتے ہیں، جس کا سفر نسبتاً آسان ہونے کے ساتھ ساتھ بہت رومانٹک بھی ہے۔ سڑک کے دونوں اطراف تا حدِ نظر دور تک پھیلے لش گرین کھیتوں کے اُس پار چھوٹی چھوٹی طلسماتی پہاڑیاں اُگتی ہیں، جو انسانی آنکھ کو ہیپناٹائز کرکے اسی ایک نقطے پر مرکوز کیے باندھ رکھنے کی کوشش کرتی ہیں، مگر پھر ایک کے بعد ایک منظر اور ایک چھوٹی سی اُگتی ہوئی سولہ سالہ دل کش و دل نشیں ٹین ایجر پہاڑی انسانی بصارت کو اپنی طرف متوجہ کرلیتی ہے۔ چلتے چلاتے یہ سلسلہ ملاکنڈ کی پہاڑیوں تک جا پہنچتا ہے، جس کی خطرناکی کو سوات موٹر وے ٹنلز نے ختم کر کے الٹا اسے مزید چار چاند لگا دیے ہیں۔ ظلم کوٹ اور ہتھیانو ڈھیرئی کی جاذبِ نظر اور اندر سے روشنیوں کے پھوارے چھوڑتی خوب صورت ٹنلز نے اس راستے کو مزید دل چسپ اور دل کش بنا کر اسے اور دل نشیں رنگوں سے سجا دیا ہے۔
سوات موٹر وے ٹنلز میں داخل ہوئے، تو ارشاد انجم کہنے لگا کہ ’’قابو ہو کے بہہ جاؤ!‘‘ان ٹنلز کی دل کشی کو دیکھ کر میرا یہاں چانگر (چیخ) مارنے کو دل کر رہا ہے۔ چانگر کا شور ایک بازگشت کی صورت میں چیختا چلاتا ہوا جب ساتھ ساتھ سفر کرتا دور تک جاتا ہے، تو اسے سننے اور برداشت کرنے کا الگ ہی مزا ہوتا ہے۔ چیخ اور چانگر میں فرق یہ ہے کہ چیخ ماری جاتی ہے جب کہ چانگر بدو بدی نکل جاتی ہے۔ ویسے بھی چیخ تھوڑی سی مہذب مہذب سی ہوتی ہے۔ کیوں کہ وہ اُردو اسپیکنگ ہونے کے ناتے مہذب رہنا پسند کرتی ہے۔ جب کہ چانگر پنجابی بولی بولتی تکلف برطرف رکھ کے سرِبازار ناچتی کھل ڈل کے نکل جاتی ہے۔ جس طرح پنجابی میں گالی نکالنے کا ایک وکھرا ہی سواد ہوتا ہے، بعینہٖ پنجابی میں چانگر مارنے کا بھی ایک الگ سا مزا ہے۔
کہنے لگا کہ مَیں جب جب بھی وادئی ہنزہ میں قراقرم ہائی وے پر بنی ٹنلز میں سے گزرتا ہوں، مَیں وہاں پر جا کر چانگر ضرور مارتا ہوں۔ کیوں کہ کسی بھی ٹنل سے گزرتے ہوئے چانگر نہ مارنے کی صورت میں میرے پیٹ میں گیس کا گولہ سا بن جاتا ہے اور پھر یہ گیس کا گولا میرے سر کو چڑھ جاتا ہے، جسے کوکا کولا بھی ٹھیک نہیں کرسکتا ہے۔ ویسے بھی سیانے کہتے ہیں کہ چانگر اور گیس کا گولا روکنا انسانی صحت کے لیے انتہائی مضر ہے۔ لہٰذا مَیں اَب یہاں پر اپنی چانگر روک کر اپنی صحت تو خراب نہیں کرسکتا ہوں نا……!
مزید فرمانے لگا کہ چھینک اور چانگر انسانی صحت کے لیے نہایت ضروری اور فائدہ مند ہوتے ہیں۔ ان کے مارنے سے انسانی جسم کا اَنگ اَنگ کھل جاتا ہے۔ یہاں تک کہ قبض جیسے گھٹن زدہ مرض سے بھی اس کی جان خلاصی ہوجاتی ہے۔
ٹنلز کے سحر سے نکلتے نکلتے بندہ چکدرہ کے تاریخی شہر پہنچ جاتا ہے۔ جو لوئر دیر کی تحصیل ادین زئی کا صدرمقام ہے۔ جہاں پر تین اہم مقامات ہیں جو کسی بھی ٹورسٹ کو اپنی تاریخی اہمیت کے بل بوتے پر اپنی طرف متوجہ کرتے ہیں، جن کے نام ’’چرچل پکٹ‘‘، دریائے سوات پر بنا آہنی پل اور چکدرہ کا تاریخی قلعہ ہیں۔
یہ سارا علاقہ صدیوں پہلے گندھارا تہذیب کا ایک اہم حصہ تھا۔ مردان سے لے کر سوات اور دیر تک کے سارے علاقے میں گندھارا تہذیب کی نشانیاں جا بہ جا بکھری ہوئی ملتی ہیں۔ دریائے سوات اپنی تمام تر تندی اور ہیبت ناکی کا لبادہ اُتار کر یہاں سے شانت اور چوڑا ہو کر بہتا ہوا گزرتا ہے۔ یہیں سے اسے نسبتاً آسانی سے پار کیا جا سکتا تھا۔ یہ علاقہ جرنیلی سڑک پر واقع ہے، جو افغانستان کو برصغیر پاک و ہند میں شامل مردان، صوابی، چارسدہ کے زرخیز شہروں سمیت نیچے آکر دریائے سندھ کے پار سارے پاکستان کے مختلف شہروں سے ملاتی ہے۔ اس کی اہمیت کے پیشِ نظر مغل دور میں شہنشاہ اکبر نے 1586ء میں یہاں پر ایک قلعہ تعمیر کروایا تھا۔ انگریز دور میں سنہ 1895ء کی جنگِ ملاکنڈ میں فتح کے بعد یہ انگریز سامراج کے قبضہ میں چلا گیا۔ پھر اسے نئے سرے سے تعمیر کیا گیا، جو 1896ء میں اپنے پایۂ تکمیل تک پہنچا تھا۔
یہ قلعہ دریائے سوات سے ذرا پرے تھوڑا اوپر جا کر پشاور چترال روڈ کے کنارے جرنیلی سڑک پر بنایا گیا۔ چرچل پکٹ کے مقام پر قدیم ہندو شاہی قلعہ کی دیواریں تھیں، جنھیں جدید تعمیر کے وقت ختم کر دیا گیا تھا۔ افغانستان سے ہندوستان آمد کا یہ راستہ ازمنہ قدیم سے لے کر آج تک مستعمل ہے۔ اسی اہمیت کے پیشِ نظر مغل شہنشاہ اکبر اعظم نے یہاں قلعہ تعمیر کروایا تھا۔ انگریز قبضے کے فقط دو سال بعد یہاں پر سرتور فقیر کی سربراہی میں ایک بڑی جنگ لڑی گئی تھی۔ سرتور فقیر ایک مقامی بزرگ اور مذہبی پیشوا تھا، جسے انگریز ’’میڈ ملا‘‘ کَہ کر پکارتے تھے۔اُس کی آواز پر لبیک کہتے ہوئے ہزاروں مقامی لوگ جنگ لڑنے کے لیے آمادہ ہوگئے، مگر انگریزوں کے جدید ہتھیاروں کے سامنے اُن کی ایک نہ چلی۔ تلواروں، توڑے دار بندوقوں اور رسی دار گوپھنوں کا جدید میکسم توپوں سے کوئی مقابلہ نہ تھا۔ نتیجتاً دو ہزار مقامی افراد کی شہادت کے بھاری نقصان کے بعد انھیں پسپا ہو کر لوٹنا پڑا۔
دراصل چکدرہ تا چترال تک باقاعدہ سڑک نہ ہوا کرتی تھی۔ پشاور سے لے کر چترال تک جرنیلی روڈ کی تعمیرِ نو انگریز سامراج نے چترال پر اپنا قبضہ برقرار رکھنے کے لیے کی تھی۔ اس کی تعمیر سے مقامی لوگ اتنے ناراض ہوئے کہ فقط دو سال بعد ہی انھیں ایک بڑی جنگ کا سامنا کرنا پڑا۔ یہی وہ جنگ تھی جس میں سابق برطانوی وزیرِاعظم چرچل نے بھی شرکت کی تھی اور اسی کے نام پر چکدرہ پل کے قریب پہاڑی پر چرچل پکٹ نام کی ایک یادگار بھی ہے اور یہیں پر چرچل کا مورچہ بھی تھا۔
……………………………………
لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com یا amjadalisahaab@gmail.com پر اِی میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے