بعد میں ہونے والی پیش رفت سے یہ واضح ہوگیا کہ مجھے ریاستی دارالحکومت سے چکیسر جیسے دور دراز علاقے میں کیوں بھیجا گیا تھا؟ اُسی وقت ایک اور انتہائی قابل ڈرافٹس مین کو بھی الپورئی میں تعینات کیا گیا۔ اُس کا نام عبدالرشید تھا۔ اُسے اگلے احکامات تک وہیں رہنے کی ہدایت دی گئی۔
زیرِ تعمیر ہسپتال، سپینو اوبو کے ایک صاحب میاں گل بوستان کو تفویض کیا گیا تھا۔ سپینو اوبو کے ہی ایک صاحب شمشی میاں ان کے ساتھ پارٹنر تھے۔ کام کی پیش رفت نہایت سست تھی۔ مَیں نے ان پر زور دیا کہ وہ اپنی تمام تر کوششیں تیز کر دیں اور والی صاحب کے آنے والے دورے سے پہلے ٹھوس نتائج حاصل کریں، لیکن انھوں جھوٹے بہانے بنائے۔ مَیں نے بہ ہر حال اپنی کوششیں جاری رکھیں۔
والی صاحب نے دورۂ چکیسر سے ایک ہفتہ قبل، الپورئی کا دورہ کیا اور وہاں دیوار کی تعمیر میں کسی کوتاہی کی وجہ سے عبدالرشید کو ملازمت سے برخاست کر دیا۔ حالاں کہ قیاس آرائیاں گردش میں تھیں کہ کیسے والی صاحب کو رشید کے خلاف منفی رپورٹیں دی گئی تھیں۔ الپورئی کے اُس وقت کے حاکم فصیح اللسان نے مجھے فون پر اطلاع دی کہ میرے عزیز کولیگ کے ساتھ کیا ہوا۔ حاکم صاحب نے مجھے یہ بھی بتایا کہ آنے والے اتوار کو والی صاحب چکیسر تشریف لے آنے والے ہیں۔ انھوں نے مذاقاً کہا کہ میں آنے والی صورتِ حال سے نمٹنے کے لیے تیار رہوں۔
مَیں بے چینی سے اگلے اتوار کا انتظار کر رہا تھا اور سوچ رہا تھا کہ میرا کیا بنے گا؟ کام کی پیش رفت بہت سست تھی۔ مَیں ٹیلی فون ایکسچینج کی چھت سے بھی مطمئن نہیں تھا۔ والی صاحب کو سب سے پہلے اسی کا معائنہ کرنا تھا۔ کیوں کہ یہ گراؤنڈ کے آخر میں تھا اور جہاں وہ گارڈ آف آنر کا معائنہ کرنے اور مقامی عمائدین سے ملاقات کرنے والے تھے۔ مقررہ تاریخ سے دو دن پہلے گاؤں میں جوش و خروش کا عالم تھا۔ لڑکوں کو گاؤں کی گلیوں کی صفائی کے لیے لگایا گیا تھا۔ ہر گھر پر جھنڈیاں لٹکی ہوئی تھیں۔ گلی کی دیواروں پر رنگ بہ رنگے کپڑے لٹک رہے تھے۔
مقامی فوجی گارڈ آف آنر کی ریہرسل کر رہے تھے۔ گاؤں میں تین صوبے دار میجر تھے: احمد شاہ، سعد اللہ خان اور سیف الرحمان۔ تینوں بہ ظاہر بہت سنجیدہ اور مصروف نظر آ رہے تھے، مگر در حقیقت کچھ بھی نہیں کر رہے تھے۔ مَیں خوف و رجا کی کیفیت میں خود کو بیمار سا محسوس کر رہا تھا۔ ایک بات کی مجھے اُمید تھی کہ والی صاحب میرے ساتھ ایسا کچھ نہیں کریں گے، جیسا کہ انھوں نے عبدالرشید کے ساتھ کیا تھا۔ اتنا تو مجھے یقین تھا۔
مقررہ تاریخ پر، میں سفید قمیص اور پینٹ میں ملبوس، شیو کر کے سٹیٹ ہائی سکول چکیسر کے بڑے گراؤنڈ میں چلا گیا۔ گراؤنڈ کے چاروں طرف لوگوں کا ہجوم تھا۔ سوات فورس کا چاق و چوبند دستہ ’’گارڈ آف آنر‘‘ پیش کرنے کے لیے مستعد تھا۔ تینوں صوبے دار میجروں نے اس بات پر اتفاق کیا تھا کہ پریڈ صوبے دار میجر احمد شاہ کی کمان میں ہوگی، جو ریاست کے ایک با اثر اور وفادار خان آفرین خان کے بڑے بیٹے تھے۔ وہ خود مقامی جرگے کے ارکان پر مشتمل سول استقبالیہ لائن کے ایک سرے پر کھڑے تھے۔
قاضیوں نے خانوں کے ساتھ کھڑے ہونے کی کوشش کی، لیکن آفرین خان بہت غصے میں آگئے اور حقارت کے ساتھ انھیں ’’پختون زعما‘‘ سے دور کھڑے ہونے کو کہا۔ بے چارے قاضی اس جگہ سے دور، حاکم کے دفتر کے قریب کھڑے ہو گئے۔ حاکم محمد شیرین سولا ہیٹ پہنے سفید لباس میں ملبوس تھے۔ وہ ریاست کے معتبر افسر تھے اور گرم و سرد حالات میں والی کے وفادار رہے تھے۔ (جاری ہے)
……………………………………
لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com یا amjadalisahaab@gmail.com پر اِی میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔