1964ء کی بات ہے، ہم مختلف سائٹس کا انسپکشن کرتے کرتے میاندم پہنچ گئے۔ وہاں کے ریاستی گیسٹ ہاؤسز میں جو بڑا اور وی آئی پی ریسٹ ہاؤس ہے، وہاں پر ہم نے پڑاو ڈالا۔ ایک درخت کی شاخ سے ذبح شدہ دُنبہ لٹکا کر کچھ ساتھی اس کا کوٹ اُتارنے لگے۔ کچھ مسالہ جات بنانے میں لگ گئے۔ طوطا تکے بنانے کے لیے کوئلہ جلانے میں مصروف ہوگیا۔ مَیں ایک پیپر بیک ناول لے کر ہری گھاس پر بیٹھ کر "CHASE” کے ساتھ قاتل کی تلاش میں نکل گیا۔
قریب کے دوسرے ریسٹ ہاؤس میں امریکی طلبہ کی ایک بڑی تعداد کھیل کود میں مصروف تھی۔ اُن میں ایک "Yul Bryner” ٹائپ کا بچہ بہت شرارتی تھا۔ ایسے میں اُن کے انچارج نے آواز دے کر سب کو اکھٹا کیا اور کہا کہ اب اتوار کی عبادت کا وقت ہے۔ پروٹسٹنٹ اور کیتھولک الگ الگ ہوجاؤ!
یوں دونوں گروہوں نے اپنے طریقے سے عبادت کی۔ ہمارے سامان میں 50 فٹ اور 100 فٹ کے "Taps” تھے۔ وہ گنجا سا لڑکا آیا اور 100 فٹ والا فیتہ یہ کَہ کر اُٹھا لیا کہ یہ ہمارا ہے اور بھاگ کر اپنے گروپ میں گھس گیا۔
ہمارے افسر جناب محمد کریم صاحب نے مجھے آواز دی: ’’تتلی! جاؤ، ان شیطانوں سے اپنا فیتہ واپس لاؤ!‘‘
مَیں بالکل گنگ ہوگیا۔ مَیں نے کہا: ’’سر! میں انگریزی نہیں بول سکتا۔‘‘ کہنے لگے: ’’یہ جو پڑھ رہے ہو، کیا یہ سنسکرت ہے؟‘‘
مَیں نے روہانسی آواز بنا کر کہا: ’’جی! مَیں پڑھ سکتا ہوں، لیکن بول نہیں سکتا۔‘‘
خیر، وہ خود چلے گئے اور اُن کے انسٹرکٹر سے انگریزی میں کہا: "This is ours.” تو اُنھوں نے وہ فیتہ واپس دے دیا۔
یہ بات مجھے یوں یاد آئی کہ دو اہم شخصیات نے دو دن پہلے مجھے فون کیا کہ ’’ڈاکٹر لوکا‘‘ مجھ سے ملنا چاہتے ہیں۔
پھر سب سے محترم جناب ڈاکٹر سلطان روم صاحب کا فون آیا، تو مَیں نے کہا: ’’سر! مَیں تابع دار ہوں۔ موصوف جس وقت آنا چاہیں آسکتے ہیں۔‘‘
کہنے کو تو مَیں نے کَہ دیا، مگر انگریزی میں بات…… ہاہاہا…… مَیں نے دل میں کہا، کچھ دیر کے لیے ٹی وی ڈرامے کے کردار ’’جانو جرمن‘‘ بن جاؤں گا۔
میرے بیٹے ہمایوں نے بتایا کہ ڈاکٹر لوکا رواں دواں پشتو بولتے ہیں۔ بس کچھ ڈھارس بندھ گئی۔موصوف اپنے ڈرائیور کے ساتھ آئے، مگر موٹربائیک پر۔
یارو!ہم اپنی چھوٹی سے بیٹھک میں بیٹھ گئے اور آپ یقین کریں ایک گھنٹے کے دورانیے میں اُنھوں نے پشتو کا ایک لفظ بھی نہیں کہا۔ انگریزی میں وہ سوال پوچھتا رہا اور مَیں انگریزی ہی میں جواب دیتا رہا۔ ایک گھنٹا مسلسل مَیں انگریزی بولتا رہا، بغیر کسی ہچکچاہٹ کے۔ مَیں نے پہلے سے کچھ خاکے اور تصریحات تیار کی تھیں۔ دو ’’فُل سکیپ‘‘ کے کاغذ بھی وہ لے گئے۔ اتنی خوش گوار ماحول میں ہماری یہ ملاقات 4 بجے شام کو ختم ہوگئی۔ ان کا تو پتا نہیں، مگر میرا دل بالکل مطمئن تھا۔
میری فیس بُک وال پر میری ہی ایک پوسٹ پر محترم روخان صاحب نے کمنٹ کیا کہ ’’لوکا ڈیرہ خکلی پختو وائی!‘‘ مَیں نے جواباً کہا:’’بالکل نہ……!‘‘
……………………………………
لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com یا amjadalisahaab@gmail.com پر اِی میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا