مردان میری جان
میرے ڈھول سانورے
پہ خیر راغلے، پہ خیر راغلے
مردان خوش دِل، خوش حال و خوش جمال لوگوں کا شہر ہے۔ آپ چاہے کتنے تھکے ماندے، پریشان حال اور دل گرفتہ ہوں، مردان کے ماتھے کا جھومر اوور ہیڈ پر لگا اشتہار ’’مسکرائیے…… آپ مردان میں ہیں!‘‘ایک بار تو آپ کو مسکرانے پر مجبور کر دیتا تھا۔ بندہ سوچتا ہے کہ اس شہرِ بے مثال کے لوگوں نے یہ کیسی فراوانی الفت کی پابندی لگا رکھی ہے کہ مسکراؤ، چاہے جس حال میں بھی ہو!
تیری زندگی میں یوں تو کئ درد آئیں گے
مسکرائے جا
اگر مسکرائے گا تو دردبھاگ جائیں گے
مسکرائے جا
مسکرانے کی پابندی والا ایسا بورڈ شاید ہی آپ کو پاکستان کے کسی اور حصے میں ملے۔ جو ’’ہر کلہ راشے‘‘ کہتا آپ کو مسکرانے کو کَہ رہا ہو۔
مردان زندہ دل لوگوں کا شہر ہے۔ میری ذاتی زندگی کے ڈھیر سارے واقعات اور ڈھیر ساری حسیں یادیں اس شہر سے جڑے ہوئے ہیں۔ کاٹلنگ، طورو، رستم اور تخت بھائی اس کے بڑے شہر ہیں۔
راولپنڈی کے اڈّا پیر ودھائی سے سوات اور چترال کی جانب سفر کرنے کے لیے سب سے پہلے جا کر مردان کی ویگن تلاش کرنا پڑتی تھی۔ مردان نام کے معاملے میں ملتان کے نام کا ہم وزن ہونے کے ناتے ایک خاص کشش اور اپنائیت سی لگتی ہے۔ جب کہ اپنی فطرت میں یہ دونوں شہر اک دوجے کا اُلٹ ہیں۔ ملتان گرد، گرمی، گداگر اور گورستان کی وجہ سے مشہور ہے، تو مردان میں اس کا تقریباً اُلٹ ہے۔ گرمی تو ہوتی ہے، مگر شاید تھوڑی فرینڈلی سی کہ جس میں ملتان والی کاٹ اور تندی و تلخی نہیں ہوتی۔ پہلے والی بات نہیں رہی، مگر پھر بھی ملتان میں گرد کے ہیولے اُٹھتے رہتے ہیں۔ کوئی ایک بس یا کوئی ایک ویگن شوں کرکے آپ کے پاس سے گزرتی ہے، تو آپ کا سارا بدن مٹی و مٹی ہو جاتا ہے۔ گھر سے نکلتے وقت تن بدن کو ڈھانپتا سوٹ نیا سوٹ رہنے کی ڈگری کھو بیٹھتا ہے۔ زلفِ ایاز کے خم دریدہ دریدہ ہو کر کسی بڈھی مائی کا چٹا چاٹا بن جاتے ہیں۔ آپ اپنی اس حالتِ ناتواں سے بے زار اِدھر اُدھر جھانک کر دیکھنے میں مصروف ہوتے ہیں کہ شکر ہے، مجھے اس حالت میں کسی نے دیکھا ہے کہ نہیں۔ عین اسی لمحے کوئی گداگر آپ کے نزدیک آکر آپ کے کانوں میں رس گھولتا ہے کہ ’’دے جا سخیا راہے مولا۔ تیرا اللہ بوٹا لاوے گا!‘‘
بوٹے کا نام سنتے ہی آپ کے اندر اس بوٹے کی روح سرایت کرجاتی ہے، جو گالاں کڈھتا ہے۔ مردان میں گورستان تو ہیں، مگر شاید ان میں ملتان والی وسعت نہیں۔ ملتان قدم قدم پہ تاریخی آثار کا حامل شہر ہے۔ یہاں کا چپہ چپہ قدیم ترین ادوار سے تعلق رکھتا ہے۔ ملتان قلعہ کہنہ قاسم باغ اور اس کے ارد گرد کا سارا علاقہ تہہ در تہہ اور پرت در پرت ساری کی ساری تاریخ ہی تاریخ ہے۔ جہاں سو سے زائد تو ان بزرگوں کے مزارات ہی ہیں، جو محکمۂ اوقاف کے انڈر ہیں۔
کہتے ہیں کہ ملتان کا نام یہاں ملہی قبیلے کے لوگوں کی بہتات کی وجہ سے ملہستان سے سکڑتا ہوا ملستھان پھر مولتان اور اب ملتان تک آ پہنچا ہے۔ جب کہ مردان کا نام ایک صوفی بزرگ کے نام نامی پر پڑا، جن کا پورا نام سید مردان شاہ تھا۔
ملتان کے مزارات کے برعکس یہاں زیادہ تر گندھارا تہذیب کے دو ہزار سال پرانے بدھ مت سے ریلیٹڈ آثارِ قدیمہ کی بھرمار ہے۔ تخت بھائی، جمال گڑھی اور شہباز گڑھی میں بدھ مت کے دور کی زمین سے کھود کھود کر نکالی گئی بڑی بڑی نشانیاں ہیں۔ یہ علاقہ صدیوں سے زرخیز ہونے کی وجہ سے مختلف حملہ آوروں کے لیے تختۂ مشق بنا رہا ہے۔ اب بھی یہاں گندم، مکئی، گنا، تمباکو اور پھل فروٹ بڑی مقدار میں پیدا ہوکر اسے اس علاقے کا خوش حال ترین شہر قرار دلواتے ہیں۔ ایک بڑی شوگر مل بھی ہے یہاں پر۔
یہاں کے خربوزے بڑے لذیز ہوتے ہیں۔ مَیں جب جب بھی یہاں گیا، یہاں کے خربوزے خرید کر ضرور کھائے۔ خاص طور پر لکیر دار نسل کے سوادیسٹ خربوزے جو شہد جیسے میٹھے پانی سے لب ریز ہوتے تھے، مگر اَب اُن کی جگہ زیادہ تر بغیر لکیر کے پیلے رنگ والے خربوزے زیادہ نظر آتے ہیں۔ جو میٹھے تو ہوتے ہیں، مگر شاید ان میں لکیر دار خربوزوں والی شیرینی عنقا ہے۔ زیادہ تر یہاں پر مہمند، یوسف زئی اور ہوتی قبائل کے لوگ آباد ہیں۔ مختلف شعبہ ہائے زندگی سے تعلق رکھنے والے بڑے بڑے معروف نام اس شہر سے تعلق رکھتے ہیں۔ ٹیسٹ کرکٹر یونس خاں اور عبدالقادر کا یہ شہر ہے۔ اس کے علاوہ رحیم اللہ یوسف زئی، بیگم نسیم ولی، میر افضل، امیر حیدر خاں ہوتی، محمد عاطف، فضل حق، اعظم خاں ہوتی، روئیداد خاں، علی محمد خاں، علی محمد مہر، گوہر رحمان گہر، سلیم ناصر اور بی بی گل وغیرہ جیسی ذی وقار ہستیاں اس شہرِ مہمان نواز کا حصہ تھیں یا اب بھی ہیں۔
شنکر کے کباب اور بدایونی پیڑے یہاں کی مشہور سوغات ہیں۔ جب کہ ریڈ بلڈ مالٹے اور فالودہ بھی یہاں عام ملتا ہے۔ اس کے یہاں آم کا گاڑھا جوس بھی ملتا ہے۔ جو ڈرائی فروٹس اور مکھن ملائیوں سے بھرپور ہونے کی وجہ سے بڑا صحت بخش اور بڑا سوادی ہوتا ہے۔ جسے ایک دو بار ’’کھانے‘‘ کا اتفاق ہوا تھا۔ ایک دفعہ جب ہم سنہ 2018ء میں یہاں سے گزر کر وادئی کمراٹ جا رہے تھے۔ یہیں کہیں پر ڈاکٹر شاہد اقبال صاحب کے کوئی دوست رہتے ہیں۔ وہاں سے گزرتے وقت ڈاکٹر صاحب نے اُنھیں کال کی۔ وہ خود تو گھر پر نہ تھے، مگر اُن کے بھائی ہمیں ملنے کے لیے آئے تھے۔ وہ خندہ پیشانی سے ملے اور کھانا کھائے بغیر آگے نہ جانے پر بہ ضد تھے، مگر ہمارے انکار کے بعد بات جوس پینے پر طے ہوئی۔ وہ ہمیں ایک جوس شاپ پر لے گئے۔ جوس کیا تھا…… میٹھی کھیر ہی تھی۔ ایسا گاڑھا جوس کم از کم مَیں نے کبھی نہیں پیا۔ جو گاڑھا ہونے کی وجہ سے سٹرا میں سے نہیں گزر سکتا تھا اور اسے ’’کھانے‘‘ کے لیے ہمیں چمچ کا سہارا لینا پڑا۔
عام طور پر ہم مردان میں نہیں رُکا کرتے تھے۔ بورے والا سے چل کر سوات جاتے ہوئے رات مینگورہ شریف میں جب کہ چترال جاتے ہوئے تیمر گرہ رین بسیرا کیا کرتے تھے۔ اُن دنوں پنڈی سے مینگورہ پہنچنے کے لیے ویگن 7 سے 8 گھنٹے کا وقت لے جاتی تھی۔ جب کہ چترال پہنچنے کے لیے سرِ شام بورے والا سے لاہور کے لیے روانہ ہونا پڑتا۔ پھر لاہور کے ریلوے اسٹیشن کے قریب گلیوں میں گھوم پھر کر راولپنڈی اسلام آباد کے لیے کوئی اچھی سواری تلاش کرنا پڑتی۔ صبح سویرے پنڈی اسلام آباد پہنچتے۔ پھر پیر ودھائی کے لاری اڈے پر اگلی بس یا ویگن لے کر مردان جاتے۔ پھر مردان سے تیمرگرہ جانے والی ویگن میں ٹھونس کر عصر اور مغرب کے درمیان جا کر کہیں تیمر گرہ پہنچتے۔ جہاں ڈونگے گراؤنڈ والے وین اڈے پر گرما گرم ہوا کے جھونکے ہمارا استقبال کرتے تھے۔ تیمر گرہ تک پہنچتے پہنچتے تھکاوٹ سے چور ہو کر ہماری بس بس ہوجاتی تھی اور ہم وہیں کسی ہوٹل میں قیام کیا کرتے تھے۔ مردان تک پہنچتے بھی تو شکر دوپہرے، دوپہر بارہ بجے کے بعد جب دوپہر کے کھانے کا وقت ہوتا۔ وہیں کہیں کسی ہوٹل پر جا کر پیٹ پوجا کرتے اور پھر چل سو چل۔
ایک دفعہ مَیں نے وہاں پر ایک صابن کا اشتہاری بورڈ لگا دیکھا تھا، جس کا نام کلاشنکوف سوپ تھا۔ یہاں عام بکنے والا فالودہ کھانے کا بھی موقع ملا، مگر شاید اس کا معیار اتنا بڑھیا نہ تھا جتنا کہ یہاں ہمارے علاقے میں ملتا ہے، یا پھر یہاں کے لوگوں کا ٹیسٹ ہم سے مختلف ہے، جو ٹیسٹ ان لوگوں میں ڈویلپ ہوچکا ہے۔
ایک بار سوات سے واپس آتے ہوئے ریڈ بلڈ مسمی کی پلاسٹک والی چھوٹی سات آٹھ بوریاں اُٹھا لایا، مگر ان میں آدھے مسمی ٹھیک ٹھاک جب کہ آدھے خراب نکلے، جن کا ذائقہ اچھا نہ تھا۔ پھر بھی ہم نے ان میں سے چنگے چنگے لبھ کے کھا لیے تھے، جن سے ہمارا اچھا گزارہ وزارہ ہوگیا تھا۔
گرمیوں کے دنوں میں یہاں پر ایک دوسرے پر پانی پھینکنے کا رواج ہے۔ یہ ان کا رواج تو ہے ہی ساتھ میں یہ ان کی ’’انجوائے منٹ‘‘ بھی ہے۔ خاص طور پر ان دنوں میں یہاں خشک سالی چل رہی ہو اور بارش نہ ہو رہی ہو۔ یہ لوگ ایک دوجے پر پانی پھینکتے ہیں۔ بھیگ جاتے ہیں، مگر مجال ہے جو کوئی اس بات کا غصہ کرے۔ ایک دفعہ ہم سوات سے واپس آ رہے تھے۔ مردان شہر سے گزر رہے تھے۔ سخت گرمی کی وجہ سے تازہ ہوا کی آمد کے لیے ویگن کا سائیڈ والا شیشہ کھلا رکھا ہوا تھا۔ یکا یک کسی شخص نے پانی سے بھری بالٹی ویگن میں بیٹھے لوگوں پر انڈیل ماری۔ ہمارا ایک ساتھی جعفر (مرحوم) اس کی زد میں آ کر بھیگ گیا تھا۔ کچھ اور مقامی لوگ بھی اس پانی گردی کی زَد میں آ کر بھیگ گئے، مگر مجال ہے جو کسی نے اس بات کا برا منایا ہو۔ بلکہ سب ہنسی خوشی ایک دوجے کی طرف دیکھتے اس کے بھیگنے کا لیول چیک کرتے، اک دوجے کو چھیڑتے رہے۔
……………………………………
لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com یا amjadalisahaab@gmail.com پر اِی میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔