گذشتہ ہفتہ سے چند خبریں ملاحظہ کیجیے، پھربات کرتے ہیں۔
پہلی خبر ہے کہ دبئی نے پاکستانیوں کے لیے ویزا کی اجرا میں سختی شروع کردی۔ علاوہ ازیں اس وقت مختلف الزامات اور جرائم میں جتنے لوگ دبئی میں قید ہیں، اُن میں نصف تعداد پاکستانیوں کی ہے…… یعنی اگر دس ہزار لوگ قید ہیں، تو اُن میں پانچ ہزار پاکستانی ہیں۔
دوسری خبر یہ ہے کہ سعودیہ نے اس سال تقریباً 100 مجرموں کے سر تن سے جدا کیے ہیں۔
قارئین! آپ نے سنا ہوگا کہ سعودی عرب میں منشیات سمیت مختلف جرموں کی سزا ’’سر تن سے جدا‘‘ ہی ہوتی ہے۔ جن 100 لوگوں کے سر قلم کردیے گئے ہیں، اُن میں 21 پاکستانی تھے۔ اس تعداد کے ساتھ مذکورہ سزا کے لیے پاکستان نمبر ون رہا۔
تیسری خبر مغربی دنیا کی ایک تنظیم کے اعداد و شمار پر مبنی ہے، جس میں دنیا بھر سے تارکینِ وطن (کسی بھی وجہ سے اپنا وطن چھوڑنے والے) کی تعداد کا تجزیہ کیا گیا ہے۔ اس تجزیے میں بتایا گیا ہے کہ صرف ایک سال میں سب سے زیادہ پاکستانیوں نے اپنا ملک چھوڑا ہے، تعداد ہے 16 لاکھ۔
10 لاکھ تعداد کے ساتھ بھارت کا دوسرا نمبر ہے۔ بھارت کی آبادی ایک ارب سے زیادہ ہے، وہاں سے دس لاکھ ہندوستانی اپنا ملک چھوڑ چکے ہیں، جب کہ پاکستان کی آبادی 24 کروڑ ہے، جس میں سے 16 لاکھ پاکستانی دیارِ غیر جاچکے ہیں، وہ بھی صرف ایک سال میں۔ اب آپ تناسب خود نکال لیجیے کہ ہمارا اور بھارت کا اس میدان میں کیا مقابلہ ہے؟
چوتھی خبر ضلع بنوں سے ہے۔ گذشتہ ہفتے دہشت گردوں نے پولیس چیک پوسٹ پرحملہ کرکے تقریباً 11 پولیس والوں کو اِغوا کیا، جن کا تاحال کوئی اتا پتا نہیں۔
پانچویں خبر بھی بنوں سے ہے۔ خوارج کے حملے میں فوج اور ایف سی کے 10 سے زیادہ جوان شہید ہوچکے ہیں۔
چھٹی خبر ضلع کرم سے ہے۔ پولیس کانوائے پر پاڑا چنار جانے والے قافلے پر کرم میں حملہ کیا گیا ہے۔ ابھی تک چالیس سے زیادہ پاکستانی جان بہ حق اور درجنوں زخمی ہوچکے ہیں۔
ساتویں خبر اسلام اباد سے ہے۔ ایپکس کمیٹی نے بلوچستان کے مخصوص اضلاع میں عسکری آپریشنوں کی منظوری دی ہوئی ہے، جب کہ بلوچستان میں پے درپے کارروائیوں سے ابھی تک معاملات ٹھیک نہیں ہوئے۔ دیکھتے ہیں کہ اس بار کیا نتیجہ نکلتا ہے؟
قارئین! یہ چند اہم خبریں ہیں۔ وگرنہ داخلی سیاست نے نظام کو کس حد تک ڈگمگایا ہوا ہے، اس کا اندازہ آپ کو محولہ بالا خبروں سے بہ خوبی ہوا ہوگا۔ مہذب دنیا میں ہمارے غیر فطری اعمال ملک کے لیے سبکی کا سامان ہیں۔ سعودیہ میں ہمارے سر قلم ہورہے ہیں۔ دبئی میں ہم مشکوک ہوچکے ہیں اور برطانیہ میں ہمارے غلیظ سیاسی نعروں نے ملک کی ساکھ کو داو پر لگا دیا ہے۔ نہ جانے ہمیں کس کی نظر لگ گئی ہے! شمال اور جنوب میں آگ اور خون کے کھیل میں عوام اور فوج کے جوان شہید ہورہے ہیں۔
بے یقینی کا ایسا ماحول بن چکا ہے کہ نئی نسل بھاگم بھاگ نکل رہی ہے۔ ایک سال میں 16 لاکھ پاکستانیوں کا ملک چھوڑنا کیا ثابت کرتا ہے؟
مایوسی گناہ ہے، کفر ہے۔ سب درست…… مگر حقائق سے چشم پوشی کہاں کی عقل مندی ہے؟ نظر انداز کرنا، آنکھیں بند کرنا مسائل کا حل کبھی نہیں رہا۔ عوامی بداعتمادی کو ختم کرنے کے لیے سیاسی حکومت کو آگے آنا ہوگا۔ لوگوں کو تسلی دینا ہوگی۔ عوامی تائید میسر آجائے، تو ہی دفاع کے ادارے یک سوئی کے ساتھ ملک دشمنوں کے سر کچل سکیں گے۔ لاشیں اُٹھانے سے بہتر ہے کہ لاشیں گرانے والوں کو ہی گرایا جائے۔
بدقسمتی سے سیاسی حکومت نے سب کچھ کسی اور پر چھوڑا ہوا ہے اور جن پر تکیہ کیاجارہا ہے، وہ صرف جراحی کا ہنر جانتے ہیں، زخم پر مرہم رکھنے کا نہیں۔
یک سوئی اگر میسر ہو، تو پاڑا چنار کا مسئلہ حل ہوسکتا ہے، مگر نہ جانے کتنے عرصے سے وہاں عوام کا خون بہہ رہا ہے…… جس سے مسائل مزید گھمبیر ہورہے ہیں۔ یک سوئی اور عمل داری درکار ہے۔
سرکار فقط ’’میڈیائی پراپیگنڈوں‘‘ سے حالات درست نہیں کرسکتی۔
……………………………………
لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com یا amjadalisahaab@gmail.com پر اِی میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔