دادرستان کا المیہ

Blogger Zubair Torwali

کسی زمانے میں داردی رسوم و ثقافت اور جغرافیائی حدبندیوں کی وجہ سے معروف داردستان جہاں لسانی و نسلی طور پر متنوع رہا ہے، وہی پہ یہ وسطی ایشیا اور جنوبی ایشیا کے بیچ نقلِ مکانی کرنے کی ایک بڑی راہ داری بھی ہوا کرتا تھا۔ اس خطے پر تین بڑے خطوں ایرانی، ہندی اور وسطی ایشیائی نے تبتی کے ساتھ ساتھ اپنے نقوش چھوڑے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ یہاں لسانی تنوع قفقاز کی طرح مختلف اور شان دار ہے۔ ویسے ہندوکش کے پہاڑی سلسلے کو یونانیوں نے "Indicus Caucasus” بھی کہا ہے۔ داردی لوک کہانیوں میں ’’کوہِ قاف‘‘ سے مراد بھی یہی ہندوکش ہے۔
لفظ داردستان اس خطے میں بستی ہوئی کئی غیر داردی قبائل یا قومیتوں پر شاید گراں گزرتا ہے، تاہم جب ہم اس خطے کی ماقبل اسلام ثقافتوں کو دیکھتے ہیں، تو ان میں تھوڑی کمی بیشی کے ساتھ یک سانیت کا عنصر نمایاں ہوجاتا ہے۔ یہ اثرات اب بھی نمایاں ہیں، اگر اس خطے کا از سرِ نو مطالعہ کیا جائے۔ اصطلاح ’’دردستان‘‘ کا خالق عموماً معروف ماہر مشرقیات ڈاکٹر لیٹنر کو مانا جاتا ہے جس نے اس کو "Dardistan” لکھا، تاہم اُن سے پہلے لفظ داردستان (’’د‘‘ کے بعد ’’ا‘‘) کے اضافے کے ساتھ چودھویں صدی میں سنگ محمد بدخشی نے اپنی کتاب ’’تاریخِ بدخشان‘‘ میں بدخشان سے پار مشرق کی طرف پورے علاقے کے لیے استعمال کیا تھا۔
انگریزی لفظ "Colonization” کا اُردو ترجمہ عموماً ’’نوآبادیت‘‘ کیا جاتا ہے، جو کہ میرے نزدیک اس عمل کی پوری طرح معنوی گرفت نہیں کرسکتا اور اس کے نو آبادکاری یعنی مادی مظاہر و عوامل سے زیادہ تعلق رکھتا ہے۔ تاہم کوئی متبادل لفظ نہ ہونے کی وجہ سے نوآبادیت اور نوآبادیاتی اصطلاحات استعمال کی جاتی ہیں اور ان کے معنوی لبادھے میں غیر مرئی عملیات کو بھی شامل کیا جاتا ہے، جو نوآبادیت کی پیدوار یا اثرات ہوتے ہیں، بل کہ جوجدید دور میں نوآبادیت کی ایک اہم نرم گرم قسم بھی ہے۔
دوسرا پہلو جو میرے نزدیک اہم ہے، وہ نوآبادیت کا زمانی (Timeline) تعین ہے۔ اس کو عموماً برطانوی راج سے جوڑا جاتا ہے جو اس کی بڑی واضح اور زیادہ جامع اور سفاک قسم تھی ۔ تاہم برطانوی نوآبادیت پر تین وجوہ کی بنا پر زیادہ لعن طعن کی جاتی ہے۔
ایک یہ کہ ان لوگوں کا مذہب اور رنگ الگ رہا ہے اور یہ بعد کا ہے۔ اس لیے یادداشتوں میں اب بھی مقید ہے۔
دوسرا یہ کہ اس کا شکار ہمارے اندرونی نوآباد کار بھی رہے ہیں۔
تیسری اہم وجہ برطانوی راج کا بڑا دشمن سوویت یونین ہے۔ نظریاتی طور پر سوویت یونین سے لگاو رکھنے والے بھی برطانوی نوآبادیت کو ہمیشہ ہدف میں رکھتے ہیں۔
ہمارے اس داردستانی خطے (لغمان تا لداخ) کی نو آباد کاری تو بہت پہلے شروع ہوچکی تھی۔ سکندر مقدومی ہو کہ آشوکا، سب نے اس کو روا رکھا تھا۔ اس میں شدت آٹھویں اور دس ویں صدی میں آئی تھی، تاہم زیادہ شدت سولھویں صدی کے اوائل میں آئی اور اس کے بعد اسی کا تسلسل وہ برطانوی نوآبادیت تھی، جو زیادہ منظم بھی تھی، جدید بھی تھی اور اس کے پاس جدید ادارے بھی تھے کہ یہ خرد افروزی (Enlightenment) کی پیدوار تھی۔ برطانوی نوآبادیت زیادہ دستاویزی بھی تھی، اس لیے اسی عہد میں ہمیں اس خطے کے بارے میں کئی کتابیں، تحریریں اور جنگی و قبائلی خاکے بھی ملتے ہیں۔
نو آبادیت کے ان سب ادوار اور حملوں کا داردستان کے خطے پر اثرات گہرے پڑگئے ہیں۔ مقامی لوگوں کا قتلِ عام ہوا۔ کئی قبائل اور قومتیں اپنے آبائی علاقوں سے بچھڑ گئیں اور یوں اسی خطے کے اندر ہی جان بچانے کی خاطر اندرونی نقلِ مکانی بہت زیادہ ہوئی۔ اس کی بنا پر کئی ہم زبان و ہم نسل ایک دوسرے سے بچھڑ گئے اور مختلف وادیوں میں بس کر اُن کی زبانوں میں تبدیلیاں آتی گئیں۔ ان سخت جغرافیائی دیواروں میں مقید ہوکر یہ لوگ ایک دوسرے سے ناواقف رہے اور آہستہ آہستہ ان نو آباد کاروں میں ضم ہونے لگے۔ زبانیں اور یادداشتیں پہلی نسلوں کے ساتھ ختم ہوگئیں اور جو کچھ بچا، وہ وہی نو آباد کاروں کا بیانیہ، حلیہ اور ثقافت کی شکل میں رہا۔ کئی لوگوں کی حفاظت کے لیے اُن کی دشوار گزار وادیوں نے دیوار کا کام کیا، تاہم شمال سے جنوب کی طرف جو خطے تھے، اُن پر اثرات زیاہ مہلک ثابت ہوئے۔ اُن کی زبانوں میں جو کچھ بچ گئیں، وہ بھی زیادہ تر اس سخت جغرافیہ اور نقل و حمل نہ ہونے کی وجہ بچ پائیں۔
اب یہ خطہ گوشۂ گم نامی میں جی رہا ہے اور خطرناک حد تک اندرونی نو آباد کاری کا شکار ہے۔ لغمان اور کابل کے شمال میں ’’پشائی‘‘ ختم نہیں، تو سکڑ کر بہت کم رہ گئے ہیں۔ نورستان کی کئی وادیوں کو پہلے ’’کافرستان‘‘ کَہ کر اس پر نو آباد کاری اور چڑھائی کو جائز قرار دیا گیا۔ اس کے بعد اس کو ایک ہی جمگھٹے والی شناخت نورستان دے کر اس کے اندر کے تنوع کو اوجھل کردیا گیا۔ نور سے منور کرنے سے پہلے ان کافروں کی 64 فی صد آبادی کو قتل کردیا گیا تھا۔
نورستان سے مغرب کی جانب چترال ہو، دیر ہو، سوات ہو کہ کوہستان…… ان کی اپنی شناخت کوئی نہیں جانتا۔ صرف مذہبی عینک سے دیکھنے والوں کو 5000 آبادی کا کالاش دیش اب بھی کافرستان لگتا ہے اور یہ لفظ اس معاشرے میں اس اقلیت کے ساتھ ہر قسم کے سلوک کونجی طور پر جائز کرنے کے لیے کافی ہے۔ پورے ملاکنڈ ڈویژن میں جو داردی قومیں ہیں، اُن کی نہ کہیں کوئی بااثرسیاسی نمایندگی ہے اور نہ کوئی ثقافتی یا شناختی آواز ہی ہے۔ کئی داردی اور گوجر بھی اپنی شناخت بالادست قومیتوں سے کرتے ہیں۔
آج کل دادریوں کے بیچ ان بڑی ثقافتی، انتظامی اور جغرافیائی دیواروں نے اُن کو نہ صرف ایک دوسرے سے طبعی طور پر دور کیا ہوا ہے، بل کہ اُن کے بیچ ایک دوسرے کے بارے میں عجیب عجیب بیانیوں کو پروان چھڑایا گیا ہے۔ مثلاً: گلگت، ہنزہ اور چترال کے لوگوں کے لیے اہلِ سوات دہشت گرد اور طالبان ہیں، جب کہ کوہستان کے لوگ دقیانوسی ہیں۔ اسی طرح سوات، دیر اور کوہستان کے لوگوں کے لیے ہنزہ، گلگت اور چترال والے اگر کافر نہیں، تو اچھے مسلمان بھی نہیں ہیں۔
ان لوگوں کو جہاں ایک طرف مسلکوں نے تباہ کرکے رکھ دیا ہے، وہی پہ ان کے اندر نو آبادیت کی پیوست کی گئی فرسودہ رسوم جیسے نام نہاد غیرت، قوم، گاؤں اور قبیلے کی بنیاد پر عصبیت اور مسلک اور نسل کی بنیاد پر آپس کی دشمنیاں بھی نمایاں ہیں۔
ان کے جو پرانے سماجی رویے اور ادارے تھے، ان کا کوئی وجود نہیں رہا اور جو کچھ اب یہ اپنے ہی دستور سمجھ کر تھامے ہوئے ہیں، یہ ان کو نہیں، بل کہ ان نوآباکاروں کے دیے ہوئے ہیں، جن کو کئی جگہوں پر یہ آبادکار اب ترک بھی شاید کرچکے ہیں۔
ایسے میں ان مقامی آبادیوں کو جن کی ثقافتوں میں اب بھی یک سانیت کے عنصر موجود ہیں (مثال کے طور پر ہنزہ، گلگت، غزر، چترال، سوات اور کوہستان کی زبانوں اور اسطور ہی دیکھ لیں) کو کیسے اس اندرونی نو آبادیت سے نکالا جاسکتا ہے!
اس کے لیے مقامی آبائی دانش ور کا کردار نہایت اہم ہے، تاہم جس کرب سے اب تک یہ قومیں گزر رہی ہیں، ان کی اس حالت کی ذمے داری کسی حد تک ان نو آبادیت کے شکار مقامی دانش ور پر بھی عاید ہوتی ہے، جو یہ سمجھتا ہے کہ مروجہ تعلیم حاصل کرکے انھی نو آبادکاروں کی رنگ میں رنگ کر اپنی دھرتی، ثقافت اور زبان چھوڑ کر وہ ترقی کرسکتا ہے۔ وہ اندرونی نو آباد کار سے سہما ہوا ہے اور ان کے بیانیے کو توڑ نہیں سکتا۔ صرف یہ ہی نہیں، کئی لحاظ سے وہ ثقافت، زبان، شناخت اور سماج پر اسی اشرافی قبضے (Elite Capture) کو جلا بخشتا ہے۔ ایسا وہ مذہبی، لبرل، روشن خیالی، دہری اور سیکولر پیراہن پہن کر کرتا ہے۔
کیا کوئی نجات کا راستہ ممکن ہے؟ مَیں مایوس ہوں کافی حد تک۔ البتہ کئی محاذوں پر کوشش کی جاسکتی ہے۔ فکری، علمی و ثقافتی سطحوں پر ان علاقوں، قوموں، زبانوں اور وسائل پر لوگوں کو آگاہ کرنے سے اور ان کو اپنی دھرتی، ثقافت، شناخت اور وسائل پر تحقیق اور اس کو دوسروں تک پہنچانا ہوگا۔
سیاسی لحاظ سے مقامی سطح پر ایسی تحاریک شروع کرنی ہیں، جن کے ذریعے وسائل پر اس اشرافی قبضے کے پنجوں کو توڑا جاسکے۔ سیاسی سے یہاں مراد سیاسی پارٹیاں نہیں، بل کہ حقوق کے لیے ایک مستقل جد و جہد ہے۔
ان مقامی و آبائی دانش وروں اور کارکنان کو پاکستانی بیانیوں کا شکار نہیں ہونا ہے۔ یہ بڑا مشکل کام ہے، تاہم کوشش یہی ہونی چاہے کہ مقامیت اور مقامیت (New Localism) کے فکری و عملی کاموں کو آگے بڑھانا ہے۔
مجھے یہ خوش فہمی البتہ نہیں کہ ہمارے مقامی آبادی دانش ور اب اس قابل ہیں کہ وہ ان بڑے بیانیوں کو چیر سکے، مگر توقع ہے کہ ان مقامیوں کی صلاحیت اسی طور بڑھائی جاسکتی ہے۔
ایسے میں گلگت بلتستان پر ایسی کاوش جو اس خطے کی چوٹیوں اور طبعی حالت سے زیادہ وہاں بستی قوموں، سماجوں، ثقافتوں اور وسائل کے بارے مقامی طور پر "Beyond the Mountains: Social and Political Imaginaries in Gilgit-Baltistan” کے نام سے محترمہ ڈاکٹر نوشین علی اور عزیزی عزیز علی داد کی ادارت میں مقامی لکھاریوں اور محققین کے مقالوں پر مشتمل راچی پبلکیشن کے زہرِ اہتمام ایک حالیہ کتاب ہے، جس کی تقریبِ رونمائی 20 نومبر 2014ء کو اسلام آباد میں ہورہی ہے۔ اس سے پہلے مقامی طور پر ایک محدود کوشش سوات میں مقیم ادارہ برائے تعلیم و ترقی نے سربلند کے نام سے اردو زبان میں کی تھی۔
……………………………………
لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com یا amjadalisahaab@gmail.com پر اِی میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔

One Response

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے