مست مولا (خاکہ)

انسان جب اچانک ایک بالکل مختلف ماحول میں رہنا شروع کر دیتا ہے، تو مشکلات اور اس کے بیچ حائل دیوار غائب ہوجاتی ہے۔ زبان کی یکسوئی ختم ہوجاتی ہے۔ نئے لوگوں کے ساتھ واسطہ پڑتا ہے اور پھر یہ اچانک تبدیلی بھی کسی دردِ سر سے کم نہیں ہوتی۔ یونیورسٹی کے پہلے دن تو جان بوجھ کر نہیں گیا، دوسرے دن حاضری دی، تو توقعات کے مطابق ہی سب کچھ پایا۔ نئے چہرے، نئے لوگ لیکن ان چہروں کے بیچ ایک چہرے میں اپنائیت سی محسوس کی۔ یہ چہرہ کاشان بھائی کا تھا۔ بڑی جسامت، رعب دار شخصیت کے مالک کاشان بھائی۔ ان کا پہناوا بالکل روایتی پختونوں والا تھا۔ ایک لمحہ کو تو خود کو کوسنا بھی پڑا کہ دیکھو یہ ہوتا ہے اصل پختون۔ جیسا دیس ویسا بالکل بھیس نہیں بلکہ جہاں جاتے ہیں، وہاں اپنی تہذیب کی جھلک ضرور ساتھ لے کر جاتے ہیں۔ لیکن ایک ہفتہ بعد ہی جینز اور شرٹ پہن کر آگئے۔ تب اندازہ ہوا کہ ان کی شخصیت کے حوالے سے کوئی دعویٰ کرنے سے پہلے اچھی طرح سوچ سمجھ کر بولا جائے۔ میرا کاشان بھائی پر پختون ہونے کاشک اس وقت یقین میں بدلا جب موصوف نے بڑی بے نیازی کے ساتھ مجھے ’’لالا ‘‘کے نام سے مخاطب کیا۔ ابتدائی رسمی جان پہچان ہوئی، تو پتا چلا کہ کاشان بھائی صوابئی سے تعلق رکھتے ہیں۔ پشاور سے میٹرک پاس کرکے سیدھا اسلام آباد کا ٹکٹ کٹوایا۔ صحافت کے ساتھ دلی لگاؤ رکھتے ہیں۔ دلی لگاؤ سے یاد آیا، ضروری نہیں ہے کہ جس چیز سے آپ لگاؤ رکھتے ہیں، قدرت نے آپ کو اس کے لئے بنایا ہو۔ یہاں معاملہ برعکس نکلا۔ بلا کے تیز معلوم ہوئے۔ سینس آف ہیومر ان کے سامنے پناہ مانگنے لگتی ہے۔ حاضر دماغ ہیں۔ہم جماعت تو ہم جماعت، بسا اوقات تو اساتذہ بھی کاشان کے سامنے کوئی ایسی ویسی بات کرنے سے گھبراتے ہیں کہ کہیں آگے سے بھرپور جوابی وار نہ ملے۔ گوکہ میری طرح کوئی ’’انگریزی دان‘‘ نہیں ہیں لیکن انگریزی کی شد بد انہیں ضرور ہے۔ ان کی شخصیت کو میں نے کافی ’’نیچرل‘‘ پایا۔ دل کی بات زبان پر لاتے دیر نہیں لگاتے۔ جو کرتے ہیں، بھرپور خود اعتمادی کے ساتھ ہی کرتے ہیں۔

ہمارے کاشان بھائی کا فائل فوٹو (فوٹو: لکھاری)

پہلے ہفتہ کے آخری دنوں میں اندازہ ہوا کہ ہماری کلاس کی کرسیاں زندگی کی آخری سانسیں گن رہی ہیں۔ کرسیوں کا ڈھیلا پن تو خیر کوئی بڑی بات نہیں ہے، بندے کو اس پرپارک کے کسی جھولے کا گمان ہونے لگتا ہے، لیکن اصل مسئلہ یہ تھا کہ چند ایک کرسیوں میں سے کیلیں نکلی ہوئی ہیں۔ لڑکے تو خیر مجبور ہوتے ہیں، برداشت کرنے کی ٹھان لی، لیکن لڑکیوں کو بھلا کون سمجھائے؟ مسئلہ زور پکڑنے لگا اور شکایت کی عرضی لے کر تو ہم جانے سے رہے۔ اب شکایت پر بھلا کون اتنی پھرتی سے ایکشن لے؟ کاشان بھائی جانتے تھے کہ کیا کرنا ہے؟ فوراً اپنی کرسی سے اٹھے۔ کلاس کے کونے میں موجود ٹوٹی ہوئی کرسی کا بازو لیکر آئے۔’’اول زان دے بیا جہان دے‘‘ کے مصداق اپنی کرسی کی جانب بڑھے۔ تمام نکلی ہوئی کیلوں پر کرسی کے بازو سے ضربیں لگانا شروع کردیں۔ ایک، دو، تین…… مسئلہ حل۔ اب دیگر کرسیوں کی شامت آنی تھی۔ ایک، دو، تین…… وہ مسئلہ بھی حل۔ اک آدھ مسئلے کے رونے کی ایکٹنگ کم از کم کاشان بھائی کے سامنے تو بالکل نہ کی جائے۔ جیسے کہ ایک دن پنکھے نے گھومنے سے انکار کر دیا۔ گرمی بڑھنے لگی، تو کاشان بھائی بھی اپنی نشست چھوڑ گئے۔ یوں لگا باہر تازہ ہوا کے جھونکے سے محظوظ ہونا چاہتے ہیں لیکن سب اندازے غلط۔ کرسی بالکل پنکھے کے نیچے لگائی۔ سب نے کہا یہ اتنا آسان تھوڑی ہے۔ کاشان بھائی کسی کی کہاں سننے والے تھے۔ موصوف نے بتایا میں جانتا ہوں پنکھے کے ساتھ مسئلہ کیا ہے؟ بجلی سے سب ہی ڈرتے ہیں۔ کاشان بھائی نے بھی سب سے پہلے پنکھے کا بٹن بند کروایا او ہاتھ کی مدد سے اسے الٹا گمانے لگے۔ لو جی آپ کا پنکھا چالو۔
سکول اور کالج کے برعکس یونیورسٹی میں درسی کتابوں کا اتنا رجحان نہیں پایا جاتا۔ یہاں نوٹس سے کام چلانا پڑتا ہے۔ اسلامیات کے استاد نے بھی نوٹس خریدنے کی تاکید کی۔ پرائے شہر میں کس کو پتا کہ کون سی چیز کہاں سے ملے گی؟ اس سوال کا جواب بھی ہے کاشان کے ساتھ۔ اگلے ہی دن کہیں سے نوٹس کی پوری چھے کاپیاں لے آئے۔کم نہ زیادہ، پوری وصولی کے بعد ہی ضرورت مندوں کی ضرورت پوری کی۔ پوچھا یہ کہاں سے ملیں؟ جواب دیا بس تھوڑی سی معلومات اکھٹا کرنے کے بعد میٹرو میں بیٹھ کر ڈھونڈ ہی نکالیں۔ لڑکیوں کے لئے گھر سے باہر نکلنا ہر جگہ مشکل ہوتاہے۔ چناچہ اگلے دن پھر جانا پڑا، نوٹس لے آئے لیکن انکار نہیں کیا۔ڈیڑھ گھنٹہ کی کلاس ہو اور اور مضمون ریاضی کا ہو، تو پھر آپ کا خدا ہی حافظ۔ خیر ایسی صورتحال میں کاشان بھائی کا ہونا کسی نعمت سے کم نہیں ہے۔ ایک بار میڈم نے پوچھا کیا ہوا؟ معصومیت سے بولے میڈم ہماری پشتو کی ایک کہاوت ہے کہ ’’د بجلیٔ پہ تارونو، میتھس پہ سوالونو اؤ دہ خدے پہ کارونو کی بہ گوتے نہ وہی۔‘‘ یہ سن کر مجھ سمیت کلاس میں موجود پشتو سمجھنے والوں کی ہنسی چھوٹ گئی۔ میڈم اور باقی دوستوں کو ترجمہ کے بعد ہی قہقہہ لگانا پڑا۔ ہمیشہ ایسا ہی ہوتا ہے۔ جب کلاس طویل ہوتی جاتی ہے اور سب کے سروں پر اکتاہٹ کے سیاہ بادل منڈلانے لگتے ہیں، تو اس موقعہ پر کاشان بھائی اپنی خدمات پیش کرنے سے کبھی نہیں کتراتے۔ فوراً ایک چٹکلا چھوڑ دیتے ہیں اور ہماری ساری تھکان اور اکتاہٹ ختم ہوجاتی ہے۔
کاشان بھائی اپنی روایات برقرار رکھنا بھی اچھی طرح سے جانتے ہیں۔ کئی مواقع پر پختون کلچر کو غیر محسوس انداز سے پروموٹ کرتے ہیں۔ کلاس کے وٹس ایپ گروپ پر لاکھ منع کرنے کے باجود پختونوں کے ساتھ دل کھول کر پشتو بولتے ہیں۔ اکثر رباب کی روایتی موسیقی بھی شیئر کر دیتے ہیں۔ پوچھنے پر بتاتے ہیں یہ رباب ہے۔ پشتو موسیقی کی ریڑھ کی ہڈی۔ پختون ہونے کی وجہ سے ہر جگہ، ہر وقت میری طرف داری کا بیڑا اٹھائے ہوئے ہیں۔ اللہ انہیں اپنے مقصد میں کامیاب کرے، آمین