ایران کے صدر جناب ابراہیم رئیسی پاکستان کا کامیاب دورہ مکمل کر کے وطن واپس پہنچ چکے ہیں۔ یہ کئی دہائیوں بعد کسی ایرانی سربراہِ مملکت کا پاکستان کا دورہ تھا، جس سے بآسانی اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ ماضی میں دونوں ممالک کے درمیان تعلقات میں سرد مہری برقرار رہی ہے۔ اس دورے کے دوران میں 10 ارب ڈالر کے 8 تجارتی معاہدوں پر دستخط کیے گئے، جو نہ صرف پاکستان بلکہ ایران کے لیے بھی بڑی اہمیت کے حامل ہیں۔ ایران بہت عرصے سے اقتصادی پابندیوں کی زد میں ہے۔ امریکہ نے ایران کو ’’سرکشی‘‘ کی سزا دینے کے لیے اقوامِ متحدہ کے ذریعے تجارتی پابندیاں عائد کر کے طویل عرصے سے اس کا ناطقہ بند کر رکھا ہے۔ ایران نے جواباً جھکنے سے انکار کرکے غیرت مندی کا ثبوت دیتے ہوئے امریکہ کو اس کی اوقات یاد دلا دی ہے۔ اس کٹھن راہ میں ایران کو ڈھیر ساری مشکلات پیش آئیں، مگر اس نے ثابت قدمی سے مردانہ وار تمام مشکلات کا سامنا کیا۔
رفیع صحرائی کی دیگر تحاریر پڑھنے کے لیے نیچے دیے گئے لنک پر کلک کیجیے:
https://lafzuna.com/author/rafi/
حسبِ توقع امریکہ کو ایرانی صدر کا دورۂ پاکستان ایک آنکھ نہیں بھایا۔ اُس نے کھل کر اِس پر اپنی ناپسندیدگی کا اظہار کرتے ہوئے خبردار کیا ہے کہ ایران سے تجارتی معاہدے کرنے کے خواہش مند ایران پر اقتصادی پابندیوں سے آگاہ رہیں۔ یہ نرم الفاظ میں پاکستان کو کھلی دھمکی دی گئی ہے کہ وہ ایران کے ساتھ تجارتی معاہدوں سے باز رہے۔
ایرانی صدر کا یہ دورہ ایسے وقت میں ہوا ہے، جب اسرائیل نے غزہ کو عملی طور پر قبرستان بنا دیا ہے۔ امریکہ کا یہ بغل بچہ امریکی آشیرباد سے مکمل بدمعاشی پر اُترا ہوا ہے۔ اس کی ہمت اتنی بڑھ گئی ہے کہ ایرانی سفارت خانے پر حملہ کر کے اس نے بظاہر اپنے اگلے ٹارگٹ کی نشان دہی کر دی ہے۔ ایران نے بر وقت ردِ عمل اور میزائلوں کی زبان میں فوری جواب دے کر نہ صرف زندہ قوم ہونے کا ثبوت دیا، بلکہ دعوتِ مبازرت قبول کرنے کا بھی واضح اشارہ دے دیا ہے۔ بے پناہ پابندیوں اور مشکلات کی زد میں آئے ایران کی طرف سے یہ جواب بڑا جرات مندانہ ہے۔ خطے میں کشیدہ ہوتی صورتِ حال کے پیشِ نظر ایرانی صدر کا دورہ اہمیت کا حامل ہے۔
دیگر متعلقہ مضامین: 
ایران اسرائیل تنازع، اونٹ کس کروٹ بیٹھے گا؟ 
کابل ایران شاہ راہ اور پاکستان  
سی پیک کے پاکستانی معیشت پر اثرات  
کیا چین، پاکستان پر افغانستان کو ترجیح دے رہا ہے؟  
تیسری عالمی جنگ اور پاکستان  
قائدِ مسلم لیگ (ن) میاں نواز شریف کے دورۂ چین کو ایرانی صدر کے دورۂ پاکستان سے ملا کر دیکھیں، تو پوری بات سمجھ میں آ جائے گی۔ ایران اس وقت امریکہ اور اسرائل کے ٹارگٹ پر ہے۔ گئے وقتوں میں پاکستان بھی امریکہ کی آنکھوں میں کھٹکا کرتا تھا، مگر ہمارے بکاو حکم رانوں اور لیڈروں نے خود کو انتہائی سستا بیچ کر پاکستان کو شیر سے کینچوا بنا دیا ہے۔ اب امریکہ کی آنکھوں میں ایران کھٹکتا ہے۔ اسی لیے اس کا اگلا ٹارگٹ ایران ہے، مگر ایران پر ہی بس نہیں ہوگی۔ اس کے بعد پاکستان کی گردن دبوچنے کی پلاننگ ہے۔ اسرائیل کی طرح انڈیا خطے میں اس کا بڑا اتحادی بننے کو پہلے ہی سے تیار بیٹھا ہے۔ یوں وہ آہستہ آہستہ اور پوری پلاننگ کے ساتھ چین کا گھیراو کرنے کی راہ پر گام زن ہے۔ چین اور پاکستان بھی اس صورتِ حال سے بے خبر نہیں۔ دونوں ممالک کے لیے ایران بڑی اہمیت کا حامل ہے کہ ایک لحاظ سے وہ ان ممالک کا اس وقت دفاعی حصار ہے۔ انھیں اس حصار کی ہر صورت میں حفاظت کرنا ہوگی۔ چین اور ایران کی قربت اس وقت عروج پر ہے۔ چین کو ایک بڑی منڈی مل چکی ہے، جب کہ اقتصادی پابندیوں کے حبس کے شکار ایران کے لیے چین سے تجارت ایک تازہ اور ٹھنڈی ہوا کا جھونکا ثابت ہوئی ہے۔ امریکہ اس صورتِ حال پر پیچ و تاب کھا رہا ہے۔ پاکستان کی طرح چین اس کا طفیلی نہیں۔ وہ اس پر حکم نہیں چلاسکتا۔ افغانستان پر امریکی حملے اور قبضے کی اصل وجہ بھی اسامہ بن لادن نہیں تھا، بلکہ وہ وہاں بیٹھ کر خطے پر کنٹرول رکھنا چاہتا تھا۔ وہ یہاں آکر افغانیوں کی دلیری اور ہمارے مارخوروں کی پلاننگ کا شکار ہوکر زخم چاٹتا ہوا بھاگنے پر مجبور ہوا ہے، جنھوں نے یہاں اسے سکون کا ایک سانس بھی نہیں لینے دیا۔ اب امریکہ اسرائیل کو ہلاشیری دے کر ایران کے سامنے لا رہا ہے۔ مسلم ممالک کو حالات کی سنگینی کا احساس ہوچکا ہے۔ ایران اور سعودی عرب کے تعلقات پر پڑی سردمہری کی برف بھی پگھل رہی ہے۔ دونوں ممالک ایک دوسرے کے قریب آ رہے ہیں۔ پاکستان کی معیشت کا بڑا دار و مدار سعودی عرب پر ہے۔ اگر حالات پہلے والے ہوتے، تو پاک ایران قربت کی پینگیں اتنی آسانی سے نہ بڑھ سکتیں۔ سب کو امریکہ کے توسیع پسندانہ عزائم اور دنیا کو محکوم بنانے کے ارادوں کا علم ہے۔ وہ اپنی پالیسی پر گام زن ہے، جب کہ اس کو چیلنج دینے والے اپنی چالیں چل رہے ہیں۔ اس تناظر میں دیکھا جائے، تو ایرانی صدر کا دورہ محض تجارتی مقاصد کے لیے نہیں تھا۔ اس دورے کا اصل مقصد امریکہ اور اسرائیل کے گٹھ جوڑ سے ایران پر کسی ممکنہ جارحیت کا موثر جواب دینے کے لیے پاکستان سے مدد کا حصول تھا۔ یہ دورہ، چین کے ایما پر ہوا ہے۔ میاں نواز شریف کا چین کا دورہ بھی اسی سلسلے کی کڑی ہے۔ تینوں ممالک نے آپس میں بہت کچھ طے کر لیا ہے۔ امریکہ اور اسرائیل کو بھی پیغام مل چکا ہے کہ کسی جوائنٹ ایڈونچر کی حماقت کی صورت میں ایران تنہا نہیں ہو گا۔
رہی بات امریکہ کے پاکستان کو انتباہ کی، تو جہاں پر معاملہ ملکی بقا کا ہو، وہاں ایسی دھمکیوں کو خاطر میں نہیں لایا جاتا۔ ویسے بھی امریکہ پاکستان کو اپنے سے دور کرنے کی حماقت کرکے اپنا نقصان نہیں کرسکتا۔ اس سلسلے میں امریکی مصنف ’’ڈینیل مارکی‘‘ کی کتاب ’’نو ایگزٹ فرام پاکستان‘‘ کا حوالہ دیکھ لیں۔ ڈینیل لکھتا ہے کہ ہم تین وجوہات کی بنا پر پاکستان کو نہیں چھوڑ سکتے۔ پہلی وجہ پاکستان کا نیوکلیئر پروگرام اتنا بڑا اور ’’ایکسٹینسو‘‘ ہے کہ اس پر نظر رکھنے کے لیے پاکستان کے ساتھ انگیج رہنا پڑے گا۔ دوسری وجہ پاک چین گہرے تعلقات ہیں۔ چین پر نظر رکھنے کے لیے بھی پاکستان کے ساتھ انگیج رہنا ضروری ہے۔ تیسری وجہ پاک فوج ہے۔ یہ فوج صرف ریجن کو نہیں بلکہ پوری دنیا کو ’’ڈی سٹیبلائز‘‘ کرسکتی ہے۔ اس پر نظر رکھنے کے لیے بھی پاکستان کے ساتھ انگیج رہنا ضروری ہے۔
4 سال قبل شائع ہونے والی اس کتاب میں مصنف مزید کہتا ہے کہ ہم نے 72 سال پہلے فیصلہ کیا تھا کہ پاکستان کو ڈیولپ ہونے کی اجازت نہیں دی جاسکتی۔ اس کے لیے ہم نے کچھ طریقے اپنائے ہیں، جس میں ایک یہ ہے کہ پاکستان کو اتنا ڈی سٹیبلائز کردو کہ اسے باآسانی مینج کیا جاسکے۔
امریکہ ہمارے سیاست دانوں، بیورو کریٹس، صحافیوں اور میڈیا ہاؤسز کو خرید کر یہی کچھ کر رہا ہے۔ پاکستانی فوج کے خلاف مہم جوئی اور اسے متنازع بنانے کی حالیہ کوششیں بھی اسی سلسلے کی کڑی ہیں۔
……………………………………
لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com یا amjadalisahaab@gmail.com پر اِی میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔