رمضان کا مہینا اور دمہ کے مسائل

Blogger Doctor Noman Khan

رمضان کا مہینا ہے۔ ایک طرف رمضان اپنے ساتھ رحمتیں اور برکتیں لایا ہے، تو دوسری طرف یہ مہینا دمہ اور سانس کے جملہ امراض کے مریضوں پر تھوڑا گراں گزرتا ہے، جس کی بنیادی وجہ عالمی موسمیاتی تبدیلی ہے۔ اس کی وجہ سے سوات کی خشک سردی، سحری اور افطار میں مرغن غذاؤں کے ساتھ گھی، چکنائی اور تلے ہوئے پکوڑوں کا استعمال بھی بڑی وجہ ہے۔
دیکھا گیا ہے کہ بعض لوگوں کو رمضان میں "Asthma” کا اٹیک بڑھ جاتا ہے۔ اس کی ایک اہم وجہ یہ ہے کہ معدے میں تیزابیت بڑھ جاتی ہے اور یہ تیزابیت "Reflux” کے ذریعے دمہ کے حملے کو بڑھا دیتی ہے۔ بالعموم اس کی وجہ یہ ہے کہ لوگ رمضان میں چکنائی والی چیزوں کا استعمال زیادہ کرتے ہیں۔ مرچ مسالوں کا استعمال زیادہ کیا جاتا ہے، جس سے تیزابیت کی مقدار بڑھ جاتی ہے اور "Reflux” کی تکلیف بڑھ جاتی ہے۔ یہ تکلیف جتنی زیادہ ہوگی، دمہ کے دورے کے امکانات اتنے ہی زیادہ ہوں گے۔ اس لیے جن افراد کو رمضان میں بار بار دمے کا دورہ پڑ رہا ہو، ان کو ایک طرف کھانے پینے میں احتیاط کرنی چاہیے اور دوسری طر ف ایسی دوائیں استعمال کرنی چاہئیں، جو تیزابیت کو کم کریں۔
سانس کی بیماری میں مبتلا افراد کو رمضان میں بعض اوقات کافی احتیاط کی ضرورت ہوتی ہے۔ اس لیے کہ بعض غذاؤں کے استعمال، غذائی بے احتیاطی یا موسم کی وجہ سے بھی یہ مرض بڑھ جاتا ہے۔ اس صورت میں سانس کے مریضوں کو دوا استعمال کرنی چاہیے۔ سانس کی بیماریوں کا علاج بالعموم "Inhaler” اور "Nebulizer” کے ذریعے ہوتا ہے۔ زیادہ تر مریض دن میں اگر دو مرتبہ سحر اور افطار کے وقت "Inhaler” لے لیں، تو سانس کی بیماری مکمل کنٹرول میں رہتی ہے۔ اگر وہ ’’نیبولائزر‘‘ دن میں دو مرتبہ لے لیں، تب بھی بیماری کنٹرول میں رہتی ہے۔ سانس کے امراض کی دوائیں رات کے وقت استعمال کی جاسکتی ہیں۔
اسی طرح بعض دوائیں روزے میں تھوڑی سی مشکل پیدا کرتی ہیں۔ یہ ’’اینٹی ہسٹامنز‘‘ یعنی الرجی کی دوائیں ہوتی ہیں، جو بعض اوقات جسم میں خشکی پیدا کرتی ہیں یا جسم کے اندر ایسی کیفیت پیدا کرتی ہیں جس سے پیاس زیادہ لگتی ہے۔ ڈاکٹر مشورہ دیتے ہیں کہ اس طرح کی دوائیں افطار کے وقت استعمال کی جائیں، انھیں سحری میں نہ لیا جائے۔ اس طرح ان دواؤں کے نقصان دہ اثرات بھی بچا جاسکتا ہے اور اپنے روزے کو بھی بہتر طریقے سے پورا کیا جاسکتا ہے۔
ماہِ صیام کی مناسبت سے لوگ اکثر یہ سوال کرتے ہیں کہ کیا دمہ کے مریضوں کو روزہ رکھنا چاہیے؟ کیا وہ مجبوری کے عالم میں دوائی کے استعمال کے لیے روزہ کھول سکتے ہیں، یا یہ کہ وہ بعض کھانوں سے ناتا توڑ سکتے ہیں؟ تو ان سوالوں کا جواب یہ ہے کہ دمہ کے مریض روزہ رکھ سکتے ہیں، بہ شرط یہ کہ ان کی طبی حالت مستحکم ہو۔ یہ بات یاد رکھنے کی ہے کہ روزہ پھیپڑوں کی کارکردگی کو مزید بہتر بنانے میں مدد دیتا ہے، تاہم اگر دمہ کی بیماری اپنی انتہا پرہے، تو ایسے مریضوں کو وقفے سے اپنا علاج کرانا یا دوائی لینا پڑتی ہے۔ اس لیے ایسے مریضوں کے پاس روزہ کھولنے کے سوا کوئی چارہ نہیں رہتا۔
دوسرا سوال یہ ہے کہ آیا روزہ دمہ کے مریض کی صحت پر منفی اثرات مرتب کرتا ہے؟ ایک طبی تحقیق میں بتایا گیا ہے کہ دمہ کی بیماری کے شکار مریض روزہ رکھ سکتے اور یہ روزہ بیماری میں اضافے کا موجب نہیں بنتا۔
دمہ کے مریضوں کو روزہ کی حالت میں تنگ مقامات، بہت زیادہ رش اور ہجوم والی جگہوں، گرم اور خشک مقامات پر نہیں جانا چاہیے۔ زیادہ محنت اور مشقت والے کاموں سے اجتناب اور وافر مقدار میں آرام کرنے اور سونے کی کوشش کرنی چاہیے۔ دن کے وقت گھر سے باہر نکلتے وقت ایسے مریضوں کو منھ پر ماسک ضرور رکھنا چاہیے، تاکہ کسی قسم کے بخارات اور گردو غبار سے سانس محفوظ رہے۔ پُرسکون رہنے کی کوشش کرنی چاہیے اور زیادہ جذباتی ہونے سے اجتناب برتنا چاہیے۔ ’’انہیلر‘‘ ہمہ وقت ساتھ رکھنا چاہیے۔
اللہ تبارک وتعالیٰ ہمیں رمضان المبارک کی قدر کرنے کی توفیق عطا فرمائے اور ہماری عبادات کو قبول فرمائے، آمین!
……………………………………
لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com یا amjadalisahaab@gmail.com پر اِی میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے