مینگورہ مین بازار کے عقب میں گلی ڈبہ مسجد جسے میر خانخیل، بوستان خیل کہتے ہیں، سبو چوک یا حاجی بابا چوک سے شروع ہوکر گلی ڈبہ مسجد تک بالخصوص اسی مین گلی کی ہر طرف غالب اکثریت میر خانخیل، بوستان خیل ہی کی تھی۔ ویسے پرانا ڈاک خانہ روڈ، بادشاہ چم میں بھی بہت سے گھرانے بوستان خیل، میرخانخیل تھے۔ پھر ان میں ’’نری بوستان خیل‘‘، ’’ڈلہ بوستان خیل‘‘ اور ’’میر خانخیل‘‘ میں بھی مقامی شناخت اور تقسیم کے فارمولے تھے۔
آج صرافہ بازار کہلایا جانے والا یہ علاقہ کبھی ایک دوسرے سے لگے گنجان آباد محلے تھے۔ گلی ڈبہ مسجد دراصل میرخانخیل، بوستان خیل مسجد تھی، جسے ’’ڈبو جمات‘‘ کہتے کہتے بات ’’ڈبہ مسجد‘‘ پر آکر رُک گئی۔
قلندر ماما بوستان خیل اسی محلے کا ایک معروف و مقبول نام تھے۔ بنیادی طور پر میرخانخیل زمین داری کرتے تھے اور قلندر ماما محنتی، جفا کش، مضبوط اور ملن سار انسان ہونے کے ساتھ ساتھ زمین دار اور کسان بھی تھے۔ اُنھوں نے تین شادیاں کی تھیں، جن سے ان کی اولاد بالترتیب یوں تھی:
پہلی شادی: امیر سپین دادا، زرین سپین دادا۔
دوسری شادی: شایار سپین دادا ، اسفندیار سپین دادا۔
تیسری شادی: ارسلا خان، سلطنت خان اور امجد علی۔
گو کہ اُس زمانے میں تعلیم کا رواج کم اور بے کشش سا تھا، مگر حجرے اور گرد و پیش کی تربیت بہت اعلا تھی۔ قلندر ماما کی دور اندیشی دیکھیں کہ ان کی جائیداد بت کڑہ (گل کدہ) میں تھی، جو زرعی زمین تھی۔ انھوں نے خود پوری زندگی کاشت کار کے طور پر گزاری اور اپنے بچوں کو بھی یہی سکھایا۔ بچے جوان ہوئے، تو ان کے الگ الگ گھر بسائے۔ سب سے بڑے بیٹے امیر سپین دادا اور دوسری بیوی سے بڑے بیٹے شایار سپین دادا کو بت کڑہ بجھوا کر اپنی زمینوں پر آباد کیا، تاکہ بروقت کاشت کاری کریں۔ صرف کاشت کاری پر نظر رہے اور باہمی سیاست سے دور ایک دوسرے کا سہارا بنیں۔
اس طرح زرین سپین دادا اور اسفندیار سپین دادا کو مینگورہ میں رکھا، مگر زمین بت کڑہ اور آگے قوطئ خپہ (اجرنگ اور آس پاس) میں بجھواتے رہے ۔
قلندر ماما روز مینگورہ سے نکلتے اور بت کڑہ پہنچتے۔ بت کڑہ اُس وقت مینگورہ سے کافی باہر تھا اور راستے سنسان تھے۔ بت کڑہ پہنچتے، تو بھائی بھتیجے استقبال کرتے اور یوں وہاں ان کے لیے ایک کیمپ آفس موجود رہتا۔ زرین سپین دادا نے کاشت کاری کو جاری رکھا، مگر اسفندیار سپین دادا کو کاشت کاری ایک گائے پالنے سے آگے کبھی اچھی نہ لگی۔ پھر اُن کے بچوں نے کپڑے کا کاروبار شروع کیا، تو وہ شوق بھی کچھ عرصہ رہا، پھر چھوٹ گیا۔
قلندر ماما تیسری بیوی اور بچوں کے ساتھ رہتے تھے۔ چوں کہ اُن کی عمریں کم تھیں، مگر اُن کی قسمت میں آزمایشیں کڑی لکھی گئی تھیں۔ ناز و نعم میں پلے ہوئے بچے جوان ہوئے، تو کیا خوب صورت اور کڑیل جوان بن کر نکلے، مگر یوں نظر لگی کہ اُنھیں نشے کی لت پڑگئی۔
ارسلا خان کسی ہیرو کی طرح دِکھتا۔ وجیہہ، دراز قامت، حسین بال، جملوں کی زبردست ادائی، مگر جب کسی ظالم نے اُسے نشے کی طرف راغب کیا، تو خوب رُو ارسلا خان کے بال جوانی میں سفید ہوگئے اور پھر وہ جوانی بھی نہ رہی۔ تینوں بھائی ایک سے بڑھ کر ایک وجیہہ جوان ایک ایک کرکے رخصت ہوگئے۔ ان کی ایک بہن کی شادی مشہور اُستاد اور ڈرل ماسٹر شادہ استاد صاحب (شہزادہ استاد صاحب) کے ساتھ ہوئی تھی۔ شادہ استاد صاحب نے سوات میں سکاؤٹ کی بنیاد رکھی تھی۔ سول ڈیفنس کی ٹریننگ کروائی تھی اور سکولوں کے درمیان مقابلے کروائے تھے۔
شہزادہ اُستاد صاحب، والی صاحب کے دور میں اُستاد مقرر ہوئے تھے۔ کم سن تھے۔ گراسی گراؤنڈ میں والی صاحب کو سلامی بھی دی تھی، جس کا اظہار وہ بہت فخر اور عقیدت کے ساتھ کرتے تھے۔ جب والی صاحب نے اُن کے انداز، آواز اور تیاری کی تعریف کرکے ہاتھ ملایا تھا، تو اُس کو بیان کرتے ہوئے اُن کی آواز کی لے اوپر ہوجاتی۔ جذبات میں ان کے اعصاب تن جاتے اور آنکھوں کی چمک تیز ہو جاتی۔
شہزادہ استاد صاحب بھی ایک زمین دار گھرانے سے تعلق رکھتے تھے۔ اپنی زمینیں تھیں اور کاشت کاری کا شوق تھا۔ زمینوں کے لیے ذاتی ٹریکٹر خریدا ۔ ایک بدقسمت دن شوقیہ کاشت کاری کرتے ہوئے حادثاتی طور پر ٹریکٹر اُلٹ گیا۔ اس حادثے میں اُن کا انتقال ہوا۔
قلندر ماما کی زندگی ہی میں محلہ میر خان خیل کمرشل ہوتا گیا۔ انھوں نے پرانے مکانات ڈھا کر کمرشل مارکیٹیں بنائیں، جہاں صرافہ بازار بن گیا۔
زرین سپین دادا کے بیٹوں نے بھی کاشت کاری کو چھوڑ کر صرافہ مارکیٹ میں کاروبار شروع کیا اور سب سے بڑے کھیت بت کڑہ میں مکانات تعمیر کرلیے۔
صرافہ مارکیٹ کو بنیاد فراہم کرنے والے قلندر ماما کے تقریباً تمام پوتے اسی پیشے میں چلے گئے ہیں۔ اکثر مذاق میں یار دوست ’’زرگران میرخانخیل‘‘ کَہ کر انھیں چھیڑتے رہتے ہیں۔ وہ خود بھی یہ کَہ کر ہنستے ہوئے کہتے ہیں کہ بابا کی اولاد نے بابا کی مارکیٹوں کو خود آباد کرلیا ہے۔
دریا خان ماما میر خان خیل کے بیٹے لقمانی خان، ظفر علی اور شیر علی خان بہت پہلے ہی محلہ چھوڑ کر چلے گئے تھے۔ اس پورے علاقے میں پہلی دُکانیں انھوں نے تعمیر کرکے کرائے پر دی تھیں۔ خود بھی ہارڈویئر کا کاروبار شروع کر دیا تھا، جو اَب بھی ماشاء اللہ موجود ہے۔
پرویز ’’رورا‘‘ میرخانخیل کو اپنے محلے اور گھر سے بہت محبت تھی۔ مرتے دم تک محلے کو چھوڑنے پر راضی نہ ہوئے۔ ان کے انتقال کے بعد ان کے بیٹے شمشیر علی خان میرخانخیل اور دو بھائی آثارِ قدیمہ بت کڑہ سے ملحقہ اپنی زمینوں پر عالی شان مکانات بناکر شفٹ ہوگئے۔ ’’رورا‘‘ کا ایک بیٹا البتہ اسی محلے میں عین جوانی میں بیماری کی وجہ سے گزر گیا۔ اُن کے سر میں رسولی تھی، جس کا بہت بعد میں پتا چلا۔ یہ ’’رورا‘‘ کے لیے وہ صدمہ تھا، جس نے انھیں بستر سے لگایا۔
گلی ڈبہ مسجد بازار سے گزرتے ہوئے وہ پرانا دور، وہ گھروندے، وہ اپنائیت اور وہ پرانے لوگ یاد آتے ہیں، جس کی اب ہیئت مکمل طو رپر بدل چکی ہے، جہاں گنجان آباد محلے تھے، اب پُررونق بازار ہیں۔ سادگی کی جگہ سناروں کی پر شکوہ دُکانیں ہیں، ساگ اور مکئکی خوش بو کی جگہ تیزاب کی تیز بُو ہے۔ وقت بدل گیا۔ لوگ بدل گئے۔ یادیں رہ گئیں۔ اب وہ یادیں بھی مٹ رہی ہیں۔
……………………………………
لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com یا amjadalisahaab@gmail.com پر اِی میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔
