دسمبر 2017ء میں ایران کے جنوب مشرقی ساحل پر چاہ بہار کی غیر معروف بندرگاہ کی توسیع کے ایک حصے کا افتتاحی پروگرام منعقد ہوا جس میں ایرانی صدر جناب حسن روحانی صاحب، افغانستانی صدر جناب اشرف غنی صاحب اور بھارتی وزیراعظم جناب نریندر مودی صاحب نے شرکت کی۔

ایرانی صدر حسن روحانi، افغانستانی صدر اشرف غنی اور بھارتی وزیراعظم نریندر مودی  (Photo: Hindustan Times)

اس بندرگاہ کی وسعت کا مقصد یہ بتایا جاتا ہے کہ بھارتی مصنوعات و پیداوار بلا روک ٹوک بھارت سے افغانستان پہنچ سکیں۔ واہگہ تورخم کے نسبت یہ یقینا لمبا اور مہنگا بحری و بری راستہ ہوگا۔ پھر موجودہ امریکی حکومت کا بھارت کو زیادہ گود لینا اور ایران کے خلاف اپنا شکنجہ مزید سخت کرنا ایک نئے زاویے پر سوچ کی دعوت دیتا ہے۔ علاقے کے ممالک، خصوصاً پاکستان اور ایران کو یہ زاویہ نظر انداز نہیں کرنا چاہئے۔ دوسرے امور کے علاوہ ایران اور پاکستان کو گھیرے میں لینے اور سی پیک منصوبے کو متاثر کرنے کے لیے امریکہ بھارت کا یا اپنا بھاری اسلحہ مزید آسانی کے ساتھ افغانستان پہنچا سکے گا۔ اس کے علاوہ وسطِ ایشیائی ریاستوں اور روس کے ایران میں اثر و رسوخ کو محدود کرسکے گا۔ بدقسمتی سے ایران اور عرب ممالک ایک دوسرے کے ساتھ متفق نہیں بلکہ مخالف (چند ایک کو چھوڑ کر) ہیں۔ یوں ایران؍ افغانستان کے راستے روس کا بحیرۂ عرب کے گرم سمندر تک اور آگے جاکر افریقہ اور یورپ کے مختصر راستے کو امریکہ وغیرہ کامیابی کے ساتھ مؤخر و پابند کرسکے گا۔ چوں کہ سی پیک کا منصوبہ روس اور وسطی ایشیائی ریاستوں کو بحیرۂ عرب کو رسائی ممکن بنارہا ہے، اس لیے ایسے اقدامات محسوس ہوتے ہیں کہ اس منصوبے کو بھی ناکام کیا جائے گا۔ روس وغیرہ کی سی پیک سے استفادہ کے لیے چکدرہ چترال کی شاہراہ کی تعمیر کا خیال موجود ہے، لیکن افغانستان کے اندر زیادہ طاقتور امریکی موجودگی، افغانستان کی واخان والی پٹی میں شاہراہ کی تعمیر مشکل یا ناممکن بنائے گی۔ امریکی انخلا افغانستان سے بظاہر مشکل نظر آتا ہے۔ کیوں کہ وہ یہاں اپنی چھاؤنی بر قرار رکھنے کا خواہاں ہے، تاکہ ایک طرف روس اور وسطی ایشیائی ریاستوں بشمول افغانستان کو گرم پانی کے سمندروں سے محروم رکھ کر اُن کی صنعت و تجارت کو حسب سابق روک رکھے اور امریکی اور یورپی تجارت اور مشرقِ وسطیٰ کے معدنی ذخائر پر اپنی نادیدہ گرفت بر قرار رکھے۔ اس کے ساتھ ہی افغانستان کو چھاؤنی بناکر یہاں لمبے اور مختصر فاصلوں تک مار کرنے والے میزائیلوں کو نصب کرکے اسرائیل، ایران (ممکنہ جوہری ممالک) بھارت، پاکستان، چین اور روس اور کافی حد تک شمالی کوریا کے جوہری استعداد والے ممالک کے اہداف کو آسان کرسکے۔ بدقسمتی سے بھارت کی بنیا سرکار مالی فوائد کی خاطر امریکہ کی کچھ زیادہ ہی تابعدار بن گئی ہے۔ پاکستان سے اُس کا خوف بجا ہے۔ وہ چوں کہ روزِ اول سے پاکستان کو نقصانات پہنچانے کی پالیسی پر گامزن ہے، اس لیے جب تک وہ سچی اور مخلص دوستی پاکستان کے ساتھ نہیں کرتا، دشمنی کا جواب دشمنی میں پائے گا۔ خطے میں امن تعاون اور دوستی ضروری ہے۔ ورنہ اسی طرح ہزار ہا میل سے دور کی طاقتیں یہاں کے لیے پالیسیاں بناتی رہیں گی۔
روس اور اس کی پڑوسی ریاستوں کو سی پیک منصوبے سے مستفید ہونے کے لیے ضروری ہے کہ چین اور روس کے درمیان سرحد پر کسی شاہراہ کو سی پیک روڈ کے ساتھ ملایا جائے۔ چاہ بہار کی بندرگاہ کی ترقی و توسیع امریکی عزائم کو روس اور ایران دونوں کے لیے مزید مستحکم کرے گی۔ پاکستان کے لیے تو خطرات پیدا ہی کرے گی۔ چاہ بہار منصوبے کو ایک طرف رکھتے ہوئے ایران اور بھارت ’’بھائی‘‘ کو سی پیک منصوبے کے ساتھ لنک کیا جائے، تاکہ ان ممالک کی چین کے ساتھ تجارت آسان ہوسکے۔ افغانستان کے سیاسی اور سماجی حالات ایسے ہیں کہ یہاں مغربی افواج اور مفادات کے خلاف سخت کارروائی زیادہ فساد کا باعث ہوگی۔ اس لیے فی الوقت اس کے لیے تنہائی یعنی آئی سولیشن کا حربہ استعمال کرنا چاہئے۔ ٹکراؤ کا عمل سود مند نہیں ہوگا۔
کچھ تجارتی مفادات کے ضیاع کو نظر انداز کیا جائے، تو چاہ بہار کا راستہ پاکستان کے فائدے میں ہے۔ اس کے مثبت پہلو سے فائدہ اٹھانا چاہئے۔ بھارت اور افغانستان کو واہگہ تورخم روڈ کا متبادل راستہ مل جائے گا۔ اس طرح پاکستان کو مغربی اور مشرقی سرحدات مزید سختی کے ساتھ استعمال کرنے کی سہولت ہوجائے گی۔ پاکستان کے اندر ستر فی صد سے زیادہ فسادان نرم سرحدات کی وجہ سے ہے۔

’’آپریشن رد الفساد‘‘ کے لیے ہر محکمے کو اپنے اپنے دائرے میں سرگرمی سے کام کرنا چاہئے تھا۔ (Photo: geourdu.com)

پاکستانی اسمبلیوں اور پارلیمنٹ کے اندر قابل اور مخلص لوگ موجود ہیں لیکن ان کو گلیوں نالیوں کی تعمیر میں پھنسا کر ان کے عمدہ تخلیقی کردار سے قوم کو محروم کیا گیا ہے۔ یہ کام چند روپوں کے مفاد کے بجائے واپس محکموں کو دینا شروع کیا جائے اور ممبران کو منصوبہ سازی اور نگرانی و رہنمائی کے کام تفویض کئے جائیں، تو ان منتخب ارکان کی قوتیں قومی اور بین الاقوامی امور پر غور کرنے اور پالیسیاں بنانے کے لیے دستیاب ہوجائیں گی۔ اس طرح اس زہریلی اجازت یعنی ’’انتخابات لڑنے کے لیے تعلیم اور امین و صادق ہونا ضروری نہیں‘‘ کو فوراًختم کیا جائے۔ سوال ہی پیدا نہیں ہوتا کہ اَن پڑھ یا کم پڑھا لکھا سردار دورِ جدید کے الجھے ہوئے معاملات کو کماحقہ سمجھ سکے۔ انٹرنٹ کے اس دور میں سرداری کے لیے اعلیٰ تعلیم ضروری ہے۔
’’آپریشن رد الفساد‘‘ کے لیے ہر محکمے کو اپنے اپنے دائرے میں سرگرمی سے کام کرنا چاہئے تھا۔ کیوں کہ فساد کی کئی قسمیں اور کئی وجوہات ہوتی ہیں۔ بدقسمتی سے صرف مسلح محکمے سرگرم ہیں غیر مسلح محکمے تا حال حالتِ خواب میں ہیں۔ چاہ بہار اور حالیہ امریکی صدر کے بیان کے تناظر میں پاکستان کے تمام محکموں اور اس کی معاشرتی اکائیوں کو متحرک ہونا چاہئے۔ پاکستان کے بڑے مسائل میں قوانین سے عوام و خواص کا انحراف اور محکموں کی چشم پوشیاں ہیں۔ ان کا جلد از جلد مداوا لازم ترین ہے۔ چند ایک غیر ریاستی افراد اور حلقے حد سے زیادہ طاقت ور ہوگئے ہیں اُن کو حد کے اندر رکھوانا چاہئے۔

…………………………………………….

لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا لازمی نہیں۔