پاکستان کے حالات حاضرہ

Blogger Advocate Muhammad Riaz

گذشتہ چند ایام سے عجیب و غریب خبریں دیکھنے، سننے کو مل رہی ہیں۔ سوچا آج اپنے قلم کی نوک سے ان خبروں پر تبصرہ کیا جائے۔
گذشتہ دنوں پاکستان کے مرکزی دھارے کے تمام اخبارات میں 50 سے زائد صفحات پر مشتمل ’’مریم سرکار‘‘ کی جانب سے دیے گئے اشتہارات نے پوری پاکستانی قوم کی توجہ حاصل کی۔ چاہتے اور نہ چاہتے ہوئے طرفین کی جانب سے اشتہارات دیکھے گئے۔ کہیں پر تعریفوں کے پُل باندھے گئے، تو کہیں آگ کے گولے برسائے گئے۔ یاد رہے سال 2021ء میں ’’بزدار سرکار‘‘ کی جانب سے ایسے ہی اشتہا رات نما اخبارات جو تقریباً 40 صفحات پر مشتمل تھے، شائع ہوئے، تو راقم نے بزدار سرکار کو حدفِ تنقید بناتے ہوئے تحریکِ انصاف کے حامیوں کے سامنے یہ سوال اُٹھایا تھا کہ ان اشتہارات پر کس کس پاکستانی کا پیسا خرچ ہوا ہے؟
اُس وقت تحریکِ انصاف کے حامی توجیحات پیش کرتے تھے، جب کہ ان کے حریف ’’مسلم لیگ ن‘‘ کے حامی عمران و بزدار سرکار پر دل کھول کر بھڑاس نکالتے تھے۔ آج صورتِ حال 180 زاویہ پر دِکھائی دے رہی ہے، جہاں پی ٹی آئی کے حامی دل کھول کر مریم سرکار پر تنقید کے نشتر برسا رہے ہیں، تو مسلم لیگ ن کے حامی عین اپنے حریفوں کی طرح مریم سرکار کے اشتہارات کا دفاع کررہے ہیں۔
آج اس موقع پر بندۂ ناچیز کو پاکستانی و بھارتی اداکاروں کی مشترکہ پیش کش ’’چل میرا پُت‘‘ میں کامیڈین اکرم اُداس کا ڈائیلاگ ’’فیر کہندے نے بوٹا گالاں کڈا دا اے!‘‘ شدت سے یاد آیا۔ ویسے اس موقع پر آپ کو بھی اکرام اُداس کا ڈائیلاگ ذہن میں آیا تو ضرور ہوگا! کیا سوشل میڈیا کے اس دور میں کروڑوں اربوں روپے کے اشتہارات کی بہ جائے یہی رقم کسی فلاحی منصوبے پر نہیں لگانی چاہیے تھی؟ یاد رہے، اگر آپ کام کررہے ہیں، تو آپ کا کام خود بہ خود دِکھائی دے گا، جیسا کہ صفائی ستھرائی پروگرام پرصوبہ پنجاب کے تقریبا 70 فی صد شہری حکومتِ وقت کو داد دے رہے ہیں۔ وگرنہ اربوں روپے کے اشتہارات لگانے سے نہ تو آپ صحیح معنوں میں اپنی کارکردگی دِکھا سکتے ہیں اور نہ حریف جماعت کے حامیوں کے دل ہی جیت سکتے ہیں۔
پچھلے ہفتے وفاقی کابینہ میں اضافہ دیکھنے کو ملا، جس میں چُن چُن کرنگینے بھرتی کیے گئے۔ جہاں ایک طرف پاکستانی سیاسی و غیر سیاسی قیادت قریہ قریہ نگر نگر جاکر پاکستانی خزانے کے پیٹ کو بھرنے کے لیے شبانہ روز کاوشوں میں مصروفِ عمل دِکھائی دیتی ہے، عین دوسری طرف اسی خزانے کے مصرف کے لیے وزرا کی لمبی قطاروں میں اضافہ کیا جارہا ہے۔
آج بھی صورتِ حال بالکل ویسی ہی دِکھائی دیتی ہے، جب ’’عمران سرکار‘‘ بھی اپنی اتحادی جماعتوں کے نہ بند ہونے والے منھ کو بند کرنے کی ناکام کوششوں میں مصروف دِکھائی دیتی تھی اور آئے دن وزرا کو بھرتی کرتی چلی جاتی تھی۔ اُس موقع پر پی ٹی آئی اور مسلم لیگ ن کے حمایتی افراد اپنے اپنے راگ الاپتے دِکھائی دیتے تھے، مگر ہمارے جیسے دِل جلے اُس وقت بھی اپنی بھڑاس نکالتے تھے اور آج بھی اکرم اُداس کے ڈائیلاگ ’’فیر کہندے نے بوٹا گالاں کڈا دا اے!‘‘ کو گنگنا رہے ہیں۔
ویسے عمران سرکار اور شہباز سرکار دونوں سے یہ سوال پوچھنا تو ضرور بنتا ہے کہ جن نگینوں کو آپ اپنی کابینہ میں بھرتی کرتے ہیں، وہی حضرات چند سالوں میں آپ کے مخالفین کی کابینہ کا حصہ کیوں بن جاتے ہیں؟
جیسا کہ سابق وزیرِاعلا خیبر پختونخوا و سابق وزیرِ دفاع جناب پرویز خٹک کبھی عمران خان کے کنٹینر پر ’’خٹک ڈانس‘‘ کیا کرتے تھے اور آج موصوف اُس سیاسی لیڈر یعنی شہباز شریف کی کابینہ کا حصہ بن گئے، جن کو کبھی چور ڈاکو کَہ کر پکارا کرتے تھے۔
دہائیوں کے بعد پاکستان میں چمپئن ٹرافی جسے ’’منی ورلڈ کپ‘‘ بھی کہا جاتا ہے، کی صورت میں بین الاقوامی کرکٹ کی واپسی ہوئی۔ اس کے انعقاد پر دل خوشی سے بھنگڑے ڈال رہا ہے۔ جب کہ پاکستانی کرکٹ ٹیم کی ’’شان دار بے عزتی پروگرام‘‘ پر پاکستان کا ہر شہری ’’اکرم اُداس‘‘ بنا ہوا ہے۔
اللہ جانتا ہے کہ بندۂ ناچیز نے عرصۂ دراز سے پاکستانی کرکٹ کے چھوکڑوں کو دیکھنا چھوڑ دیا ہے۔ اگر ہم نے پاکستانی کرکٹ کو ٹھیک کرنا ہے اور اگر مگر اور تُکوں کے بغیر صفِ اول کی ٹیم بننا ہے، تو کرکٹ کے چھوکڑوں کو پاکستان کے قومی کھیل یعنی ہاکی کے کھلاڑیوں کی طرز پر اوقات میں رکھنا ہوگا۔ حالاں کہ ہاکی کے کھلاڑیوں کے ساتھ ہونے والا سلوک بھی کسی ظلم سے کم نہیں۔
بہ ہرحال میری رائے میں جہاں پاکستانی کرکٹرز کا قصور ہے، وہیں پر پاکستانی حکام خصوصاً کرکٹ بورڑ، میڈیا چینل اور اشتہارات دینے والی کمپنیاں بھی قصوروار ہیں، جو سال کے 365 دنوں میں 50 دن سے بھی کم دن کام کرنے والوں کو کروڑوں اربوں روپے سے نہ صرف نوازتے ہیں، بل کہ ان نواب زادوں کو سر پر بھی چڑھائے رکھتے ہیں۔
ان شہزادوں کو کروڑوں اربوں روپے نوازنے کی بہ جائے چند ہزار تنخواہ پر رکھیں، پھر دیکھیں یہ کس طرح کام (یعنی کھیل) پیش کرتے ہیں۔
بہ صورتِ دیگر حکام ان کو نوازتے رہیں گے اور پاکستانی عوام ان کو ’’اکرام اُداس‘‘ کی طرح ’’داد و تحسین‘‘ پیش کرتے رہیں گے۔
……………………………………
لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com یا amjadalisahaab@gmail.com پر اِی میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے