اطلاعات ہیں کہ مالی خسارے کے باعث نئے مالی سال 2024، 25ء کے بجٹ میں سرکاری ملازمین کی تنخواہوں اور پنشن میں اضافہ نہ کرنے پر غور شروع کر دیا گیا ہے، تاہم شدید مجبوری کے عالم میں 5 تا 10 فی صد اضافے پر غور کیا جاسکتا ہے۔ وجہ یہ بتائی جا رہی ہے کہ آئی ایم ایف نے تنخواہوں میں اضافہ نہ کرنے اور پنشن اصلاحات پر تحفظات کا اظہار کیا ہے جس کی وجہ سے تنخواہوں اور پنشن میں اضافہ کرنا مشکل ہوگا۔ حقیقت یہ ہے کہ پچھلے چھے سال سے ہماری حکومتوں کی غلط پالیسیوں کے سبب ہمیں آئی ایم ایف کے قدموں میں ڈالنے کا یہ نتیجہ ہے کہ آئی ایم ایف تبھی سے سرکاری ملازمین اور پنشنروں کے حوالے سے سخت پالیسیاں اختیار کرنے کے لیے ہر حکومت پر دباو ڈال کر اسے مجبور کرتی رہی ہے۔
رفیع صحرائی کی دیگر تحاریر پڑھنے کے لیے نیچے دیے گئے لنک پر کلک کیجیے:
https://lafzuna.com/author/rafi/
ڈالر کی پرواز کی وجہ سے موجودہ مہنگائی نے سب سے زیادہ سرکاری ملازمین کو متاثر کیا ہے۔ یہ طبقہ اپنی سفید پوشی کا بھرم رکھنے میں بری طرح ناکام ہوچکا ہے۔ پہلے تو ایسا ہوتا تھا کہ سرکاری ملازمین کا سبزی، کریانے اور کپڑے کی دکانوں پر کھاتا لگا ہوتا تھا۔ پورا مہینا اُدھار سودا لے کر گزارا کیا جاتا تھا اور تنخواہ آنے پر اُدھار چکانے کے بعد جو معمولی رقم بچ جاتی، وہ گھر کے دیگر اخراجات کے کام آ جاتی، مگر روز افزوں بلندی کی نئی پروازوں کو چھوتی ہوئی مہنگائی نے سرکاری ملازمین سے اُدھار کی سہولت بھی چھین لی ہے۔ دکان دار اب اس لیے اُدھار دینے سے پہلو تہی کرتے ہیں کہ روز بہ روز روپے کی گرتی قدر اُن کے اصل زر میں بھی کمی کر دیتی ہے۔ آج جو چیز ایک ہزار روپے میں ملتی ہے، ممکن ہے ایک ماہ بعد اُس کی قیمت 12، 13 سو روپے ہوچکی ہو۔ لہٰذا دُکان دار اَب اُدھار مال دینے کا رسک نہیں لیتے کہ ایک تو رقم دیر سے ملتی ہے، اور اُوپر سے اُس کی ویلیو 10، 15 فی صد کم ہو چکی ہوتی ہے۔
سرکاری ملازمین کو جو ہاؤس رینٹ ملتا ہے، وہ 2008ء کے پے سکیل کے تحت ہے۔ نان گزیٹیڈ سرکاری ملازمین کی شرح تقریباً 80 فی صد بنتی ہے۔ اُن کے ہاؤس رینٹ کی رقم کو دیکھا جائے، تو یہ آپ کو سنگین مذاق نظر آئے گا۔ مہنگائی کے اس دور میں اکثر ملازمین دو ہزار سے چار ہزار روپے کے درمیان ہاؤس رینٹ وصول کر رہے ہیں، جب کہ بڑے شہروں میں ایک کمرے کا کرایہ چھے سات ہزار روپے سے کم نہیں۔ اسی طرح میڈیکل الاؤنس بھی اونٹ کے منھ میں زیرہ کے مترادف ہے۔ ملازمین اس رقم سے بہ مشکل پرائیویٹ ڈاکٹر کی ایک وزٹ کی فیس ادا کر پاتے ہیں۔ اوپر سے حکومت خود آئے روز فارماسیوٹیکل کمپنیوں کو ادویہ کی قیمتیں بڑھانے کی اجازت دے دیتی ہے۔ اب تو یہ عالم ہے کہ بے چارے ملازمین دعائیں کرتے ہیں کہ بیماری کی وجہ سے آنے والی موت کی بجائے ڈائریکٹ موت آ جائے، تو زیادہ بہتر ہے۔
صحنِ غربت میں قضا دیر سے مت آیا کر
خرچ تدفین کا لگ جاتا ہے بیماری پر
ذاتی کام کرنے والے، تجارت پیشہ لوگ اوردُکان دار حضرات مہنگائی کے تناسب سے اپنی اشیا یا خدمات کے معاوضے میں اضافہ کرلیتے ہیں۔ حتیٰ کہ روزانہ مزدوری کرنے والے، ریڑھی بان اور رکشہ والے بھی مہنگائی کے حساب سے اپنے معاوضہ یا مزدوری میں خود اضافہ کرلیتے ہیں۔ صرف سرکاری ملازمین ہی ایسا طبقہ ہے جو اپنی تنخواہ بڑھوانے کے لیے حکومتی فیصلے کا محتاج ہوتا ہے۔
دیگر متعلقہ مضامین:
بزرگ پنشنرز
خداوندا تیرے یہ پنشنرز بندے کہاں جائیں
بوڑھے پنشنرز مہنگائی سے سب سے زیادہ پریشان
برق گرتی ہے، تو بے چارے سرکاری ملازمین پر
اگر گذشتہ ایک سال کی بات کی جائے، تو مہنگائی میں قریباً 50 فی صد اضافہ ہوچکا ہے۔ موجودہ تنخواہوں میں سرکاری ملازمین کے لیے اُن کا اپنا اور خاندان کا جسم و جاں کا رشتہ برقرار رکھنا ہی خاصا دشوار ہے۔ بچوں کی فیسیں، کتابیں، یونیفارم، رکشے کا کرایہ مینج کرنا بہت دشوار ہو گیا ہے۔ خاندان میں خوشی غمی اور بیاہ شادی کے مواقع کو ٹالا بھی نہیں جا سکتا اور شرکت کرنے کی سکت بھی نہیں ہوتی۔ عید الفطر، عید الضحیٰ اور دیگر تہوار اضافی اخراجات کے متقاضی ہوتے ہیں۔ اصل پریشانی اُس وقت درپیش ہوتی ہے جب سرکاری ملازمین اپنے بچوں کی شادی کرتے ہیں۔ وہ اُدھار پکڑ کر شادی تو کرلیتے ہیں، مگر پھر اُن کی ساری عمر قرض اُتارتے گزر جاتی ہے۔ باقی اولاد…… خصوصاً اُن کی بیٹیاں والدین کی دہلیز پر بیٹھی بوڑھی ہوجاتی ہیں۔ حالات اجازت نہیں دیتے کہ اُن کی شادی کا سوچا جائے۔
سرکاری ملازمین کی حالتِ زار پر پرویز مشرف اور پیپلز پارٹی کے دور میں خصوصی توجہ دیتے ہوئے اُن کی تنخواہوں میں خاطر خواہ اضافہ کیا گیا تھا۔ مہنگائی کی شرح میں تیزی سے اضافہ 2018ء میں شروع ہوا تھا، مگر پی ٹی آئی کی حکومت نے سرکاری ملازمین کی تنخواہوں میں خاطر اضافہ کرنا مناسب نہ سمجھا۔ حتیٰ کہ سال 2020ء میں تو ایک روپے کا بھی اضافہ نہیں کیا گیا۔ نتیجہ یہ ہوا کہ گذشتہ حکومتوں کے دیے گئے ریلیف کی اِفادیت ختم ہو گئی اور سرکاری ملازمین فٹ پاتھ پر پہنچ گئے۔
پی ڈی ایم کی سولہ ماہ کی حکومت نے مہنگائی کو تو ساتویں آسمان پر پہنچا دیا، مگر اس تناسب سے سرکاری ملازمین کو ریلیف نہ دے سکی۔ مرکز میں 35 فی صد تنخواہ اور 17.5 فی صد پنشن میں اضافہ کا اعلان ہوا، تو جناب محسن نقوی کو یہ بات ایک آنکھ نہ بھائی۔ ان کے خلاف تاریخ کا شدیدترین احتجاج ہوا، تو اُنھوں نے گھٹنے ٹیکے، لیکن اُنھوں نے حتی المقدور دودھ میں مینگنیاں ضرور ڈالیں۔ خیر سے جب سے مرکز میں نگران حکومت آئی ہے، اس نے عوام کا جینا دشوار کرنے کی دانستہ کوششیں کی ہیں۔ اس نے اپنی ہر ضرورت کو پورا کرنے کے لیے تیل، گیس، ڈالر اور بجلی کی قیمتوں میں اضافے کو امرت دھارا سمجھ کر استعمال کیا ہے۔ نتیجے کے طور پر سرکاری ملازم اِس وقت ڈیفالٹ کرچکے ہیں۔
سرکاری پنشنروں کی حالتِ زار بھی دگرگوں ہے۔ اپنی زندگی کا سنہرا دور سرکاری ملازمت کی نذر کرنے والے پنشنر مہنگائی کی وجہ سے سخت مشکل میں ہیں۔ وہ عملی طور پر بڑے خاندانوں کے سربراہ بن چکے ہوتے ہیں۔ اسی حساب سے ان کے اخراجات بھی بہت بڑھ جاتے ہیں۔ ہوش رُبا مہنگائی نے پنشنروں کو بہت متاثر کیا ہے۔ یہ ان کے ساتھ کتنی بڑی زیادتی ہے کہ سالانہ بجٹ میں حاضرِ سروس ملازمین کے مقابلے میں ان کی پنشن میں نصف تناسب سے اضافہ کیا جاتا ہے۔ حالات کا تقاضا ہے کہ ان کی پنشن میں سوفی صد اضافہ کیا جائے۔
……………………………………
لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com یا amjadalisahaab@gmail.com پر اِی میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔
