مور پنڈیٔ کاکا (مدین) کی یاد میں

Blogger Sajid Aman

عبد الرحیم میاں، جنھیں عام طور پر مور پنڈیٔ کاکا کے نام سے یاد کیا جاتا ہے، اخوند خیل میاں گان کے چشم و چراغ تھے۔ اُن کی پیدایش 1872ء کے آس پاس تیرات مدین سوات میں ہوئی اور 1949 عیسوی بہ مقام مور پنڈیٔ (مدین) میں ہوئی۔
عبد الرحیم کاکا کے والدِ بزرگوار کا نام ’’طور شاہ بابا‘‘ تھا، جو ’’مور پنڈیٔ بابا‘‘ کے نام سے یاد کیے جاتے تھے۔ اُنھوں نے خود گاؤں مور پنڈیٔ کی بنیاد رکھی تھی۔ شریعت و طریقت کے بڑے عالم اور صوفی تھے۔ آخوند سوات سیدو بابا کے مرید اور دست راست تھے۔
ساجد امان کی دیگر تحاریر پڑھنے کے لیے نیچے دیے گئے لنک پر کلک کیجیے:
https://lafzuna.com/author/saj/
مورپنڈیٔ کاکا نے ریاستِ سوات کے بانی میاں گل عبدالودود باچا صاحب کے حامی کے طور پر اہم کردار ادا کیا۔1917ء میں ریاستِ سوات کے قیام میں اُن کی نمایاں شراکت اور جد و جہد نے اُنھیں باچا صاحب اور سیدو بابا کی اولاد سے وفاداری کے حوالے سے اولین صف میں کھڑا کیا ، اور بدلے میں باچا صاحب نے تعریف ، تصدیق اور اعتراف کیا۔
عبد الرحیم کاکا کی فضیلت، علم، انکساری اور سخاوت کے چرچے دور دور تک پھیلے۔ وہ غریبوں، کم زوروں اور لاچاروں کا سہارا تھے۔ اُن کے بارے میں مشہور ہے کہ ہمیشہ پیسوں سے بھرا ایک صندوق (جسے پشتوں میں تورنئی بھی کہا جاتا ہے) پاس رکھتے تھے۔ اُن پیسوں کو کاکا رشتہ داروں اور ضرورت مندوں میں تقسیم کرتے تھے۔ اللہ تعالا نے اُن کو دولت سے خوب نوازا تھا۔ وہ اللہ تعالا کی دی گئی دولت کو اللہ تعالا ہی کے بندوں پر نچھاور کرتے۔
دیگر متعلقہ مضامین:
صنوبر استاد صاحب  
والدہ ماجدہ کی یاد میں  
عجب خان حاجی صاحب کی یاد میں  
بزوگر حاجی صاحب  
والئی سوات کے پرائیویٹ سیکریٹری پُردل خان لالا  
مور پنڈیٔ کاکا علم دوست انسان تھے۔ اللہ تعالیٰ نے ان کو 8 بیٹوں حکیم خان، شہزادہ میاں، میاں گل عنبر، میاں سید عنبر، علیمائی میاں، لال گل میاں، میاں شاہ امبروز اور عبدالجلیل میاں سے نوازا تھا۔ 1930ء کو مور پنڈیٔ کاکا نے اپنے بیٹے میاں شاہ امبروز کو تعلیم کے حصول کے لیے ہندوستان کے سفر پر بھیجا۔ جہاں اُنھوں نے جید علما سے بہترین علم حاصل کیا۔ میاں شاہ امبروز نے 1936ء میں اپنی تعلیم مکمل کی اور اُس وقت کے پہلے سند یافتہ اور قابلِ احترام مذہبی اسکالر بن گئے، مگر جوانی کی موت کی وجہ سے وہ اپنا علم زیادہ لوگوں تک نہ پہنچا سکے۔ ایک اور بیٹا حکیم خان (جو 1976ء کو انتقال کرگئے) اپنے علاقے کی ایک ممتاز سیاسی شخصیت کے طور پر اُبھرے، جس نے اپنے خاندان اور برادری میں نمایاں خدمات انجام دیں۔ ریاست سوات کے والی میاں گل عبدالحق جہانزیب کے حامی اور دوست کے طور پر پہچانے جانے والے حکیم خان کو علاقے میں اُن کے بااثر کردار کے لیے ’’ملک‘‘ کے خطاب سے نوازا گیا۔
زیرِ نظر تحریر میں مور پنڈیٔ کاکا کے تین چھوٹے بیٹے میاں سید عنبر (سنہ انتقال 1992ء)، شہزادہ میاں (سنہ انتقال 1989ء) اور میاں گل عنبر (سنہ انتقال 2017ء) کی تصویر دی گئی ہے۔ تصویر میں کھڑے افراد میں بالکل درمیان میں شہزادہ میاں ہیں، جو پشتو اور فارسی میں طاق تھے۔ مذکورہ زبانوں میں دلچسپ کہانیاں اور حکایات سننے کے لیے اس کے ارد گرد لوگ جمع رہتے۔
قارئین! آخر میں پروفیسر ڈاکٹر فخر عالم صاحب (عبدالرحیم کاکا کے پڑپوتے) کا مشکور ہوں، جنھوں نے معلومات فراہم کرکے یہ تحریر آپ تک پہنچانے میں بخل سے کام نہیں لیا۔
……………………………………
لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com یا amjadalisahaab@gmail.com پر اِی میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے