بیورو کریسی چاہے پاکستان جیسے بڑے ملک کی ہو، یا سوات کی مختصر سی ریاست کی۔ کئی مشترک قدریں رکھتی ہے۔ مثلاً: ’’کرپشن۔‘‘
یہ ضروری نہیں کہ سول اور ملٹری بیورو کریسی "As a whole” بدعنوانی میں ملوث ہو۔ وہ جو کہتے ہیں: ’’ہر بیشہ گمان مبر کہ خالی است، شاید کہ پلنگ خفتہ باشد۔‘‘
فضل رازق شہابؔ کی دیگر تحاریر پڑھنے کے لیے نیچے دیے گئے لنک پر کلک کیجیے:
https://lafzuna.com/author/fazal-raziq-shahaab/
اچھے اور دیانت دار لوگ ہر جگہ ملتے ہیں۔ سوات کی بہ طورِ ریاست بہت مختصر سی نوکر شاہی تھی، جس کا بنیادی رکن تحصیل دار اور ٹاپ پر مختلف ادوار میں مختلف مرتبے کے حامل افسران رہ چکے ہیں۔ مثال کے طور پر تحصیل دار سے اوپر حاکم مشیر والا ڈھانچا بھی رہ چکا ہے اور تحصیل دار، حاکم، وزیر ملک، مشیر ملک، وزیرِ اعظم پر مشتمل سیٹ اَپ کا دور بھی گزرا ہے۔
تحصیل دار اپنے علاقے کا "Revenue- cum- judiciary” افسر ہوا کرتا تھا۔ وہ علاقے میں امن و امان کا بھی ذمے دار تھا، جس کے لیے اسے مقامی قلعے میں موجود فوجیوں اور بعد کے دور میں پولیس کی مدد حاصل تھی۔
اس سول/ جوڈیشل سیٹ اَپ کے علاوہ والئی سوات کے اپنے سیکرٹریٹ تھی، جو اُن کی ذاتی نگرانی میں اُمورِ مملکت چلاتی رہی۔ اس میں چیف سیکریٹری، پرائیویٹ سیکریٹری اور اُن کا عملہ ہوتا تھا۔
دیگر متعلقہ مضامین: 
سوات میں کسی خان یا پختون کو بادشاہ کیون نہیں بنوایا گیا؟  
ریاستِ سوات کا خفیہ فنڈ  
محمد افضل خان لالا کی یاد میں  
سوات ہوٹل (تاریخ)  
بزوگر حاجی صاحب  
فلائنگ کوچ مولوی صیب  
ہم قطعی طور پر یہ تو نہیں کَہ سکتے کہ اس سسٹم میں کوئی خامی نہیں تھی، یا ریاست کے سول عمال کرپشن سے سو فی صد مبرا تھے، مگر یہ اتنی تباہ کن بھی نہیں تھی جس طرح ہم کو ادغام کے بعد دیکھنے کو ملا۔ ریاستی انتظامیہ میں کئی ایک ایسے حضرات تھے جن کی دیانت داری کی آپ قسم کھاسکتے تھے۔ اُن قابلِ احترام ہستیوں میں ایک بے مثل شخصیت جناب پُردل خان لالا کی تھی، جو والئی سوات کے پرائیویٹ سیکریٹری تھے۔ نہایت شریف، بردبار اور اعلا تعلیم یافتہ۔ پنجاب یونیورسٹی سے ماسٹر اور لا گریجویٹ تھے۔ سب سے بڑھ کر اُن کی امتیازی خصوصیت یہ تھی کہ وہ والئی سوات میاں گل جہانزیب کے رضاعی بھائی تھے۔
میری رائے میں اُن سے زیادہ دیانت دار اور صاف دامن افسر پورے ریاستی سیٹ اَپ میں کوئی نہیں تھا۔ وہ خاموشی سے دفتر آتے۔ والئی سوات سے حسبِ ضرورت ملتے۔ ہدایات لے کر اپنے کمرے میں آکر بیٹھ جاتے۔ والئی سوات کے ذاتی ڈاک پر کارروائی شروع کرتے۔ ان کا ایک سٹینو گرافر تھا، مجھے اُن کا نام اس وقت یاد نہیں آرہا۔ لوگ اُسے ’’چشمہ دار میرزا‘‘ کہتے تھے۔کسی زمانے میں افسر آباد میں بھی رہ چکے تھے۔
پُردل خان کو ہر خاص و عام ’’خان لالا‘‘ کے نام سے مخاطب کرتے۔ مجھے اُن کے کمرے میں پہلی دفعہ اُس وقت جانے کا موقع ملا، جب میرے افسر محمد کریم صاحب مجھے اپنے ساتھ والی صاحب کے دفتر لے گئے، تو اپنی باری کے انتظار میں خان لالا کے کمرے میں بیٹھ گئے۔آپ اُن کے کمرے میں داخل ہوتے، تو ان کی کرسی کے عقبی دیوار پر ایک تحریر نظر آتی:”TO HELL WITH THOSE WHO WANT TO BECOME RICH QUICK.” میرے خیال میں وہ اسی مقولے کی مجسم تصویر تھے۔ بردبار، صابر، متحمل مزاج، دھیمے لہجے میں گفت گو کرتے تھے۔ کبھی اپنے عہدے یا حکم ران کے ساتھ خصوصی نسبت رکھنے سے فایدہ نہیں اُٹھایا۔
مجھے اُن کے بارے میں مزید معلومات تو نہیں۔ بس اس قدر کہ وہ پروفیسر الطاف حسین ( پاچا لالا) کے بہنوئی تھے ۔
دُعا ہے کہ اللہ اُن کی قبر نور سے بھر دے، آمین!
……………………………………
لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com یا amjadalisahaab@gmail.com پر اِی میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔