(یہ تحریر سوات کی ایک مقامی ویب سائٹ پر 29 جون 2013ء کو شائع کی جاچکی ہے۔ پڑھتے وقت مذکورہ تاریخ مدِ نظر رکھی جائے، مدیر ادارتی صفحہ۔)
سعداللہ جان برق پختونخوا کے منفرد اندازِ تحریر اورمؤقرحیثیت کے مالک معروف دانش ور اور اہلِ قلم ہیں۔ ان کی تحریروں کا انوکھا پن اور دل موہ لینی والی صفت بے مثال ہے۔ اگرچہ بعض اُمور پر اُن سے اختلاف کا حق ہر کسی کو حاصل ہے، تاہم اُن کی تحریریں بحیثیتِ مجموعی قابل ستایش ہیں۔ گذشتہ چند سالوں میں پختونخوا کے حالات پر انھوں نے جو کچھ لکھا ہے، وہ آنے والے مؤرخین اور محققین کے لیے ایک بیش بہا سرمایہ اور خزانہ ہے۔ خصوصاً ان کی کتاب’’خدمت گاری سے فوجداری تک‘‘۔
ڈاکٹر سلطانِ روم کی دیگر تحاریر پڑھنے کے لیے نیچے دیے گئے لنک پر کلک کیجیے:
https://lafzuna.com/author/dr-sultan-e-rome/

19 جون 2013ء کے روزنامہ ایکسپریس پشاور میں اپنے کالم بہ عنوان ’’محکمہ اطلاعات کا خفیہ فنڈ‘‘ میں اگر چہ ان کا بنیادی یا مرکزی نکتہ صوبائی وزیرِ اطلاعات کا خفیہ فنڈ ہے، لیکن اس تناظر میں انھوں نے ریاستِ سوات میں اس طرح کے فنڈ یا اخراجات کی بابت بھی اہم باتیں لکھی ہیں۔ اُس ضمن میں دوسری باتوں کے علاوہ وہ لکھتے ہیں کہ ’’کافی پہلے کی بات ہے سوات کے والی صاحب ہر سال غالباً جون کے مہینے میں ایک مشاعرہ برپا کراتے تھے، اس مشاعرے میں کچھ خاص خاص دانے ہی مدعو کئے جاتے تھے اور سننے میں آتا تھا کہ وہاں خوب خوب مرغن کھانوں کے علاوہ کچھ’دان دکھشنا‘بھی ہوتا تھا۔ کچھ خاص شاعروں کے بارے میں تو سنا تھا کہ تگڑی رقومات کے علاوہ گھی اور شہد کے کنستر بھی ان کے ساتھ کر دیئے جاتے تھے، اس سلسلے میں بے شمار لطیفے بھی مشہور ہو گئے تھے جو زیادہ تر حقیقے ہوتے تھے‘‘۔
برق صاحب نے سوات کے خفیہ فنڈ کے متعلق مزاحیہ انداز میں جو کچھ لکھا ہے، وہ بحیثیتِ مجموعی مبنی برحقیقت ہے۔ یہ مشاعرے والی صاحب 5 جون کو اپنے یومِ پیدایش پر منعقدکرتے تھے۔ اس ضمن میں مدعو شعرائے کرام کا گرم جوشی سے استقبال کیا جاتا تھا۔ جس کی قیمت تمام شعرا حضرات اپنے اشعار میں والی صاحب کی مدح سرائی کی صورت میں ادا کرتے تھے۔ یہ مشاعرے ’’جھان زیبی مشاعرہ‘‘کے نام سے منسوب ہوکرکتابی شکل میں شا ئع ہوچکے ہیں۔
چھپے ہوئے جھان زیبی مشاعروں کو پڑھ کر اندازہ ہوتا ہے کہ ہمارے درباری یا دربار سے مستفید ہونے والے شاعروں نے کس طرح والی صاحب اور ریاستِ سوات کی مداحی میں زمین وآسمان کے قلابے ملائے ہیں۔ نیزروئے زمین پر کوئی ایسی خوبی نہیں جو کہ ان شعرا کے نزدیک والی صاحب کی ذات اور ریاستِ سوات میں موجود نہ ہو، جب کہ خامی اور نقص ان کی نظر میں عنقا تھا۔ ہاں، اُن سخنوروں نے معاوضہ بھی خوب وصول کرنے کی کوشش کی اور بحیثیتِ مجموعی اُن کو معاوضہ مختلف شکلوں میں ملا بھی۔
اس ضمن میں ایک واقعہ محترم فضل رازق شہاب صاحب نے اپنے ایک کالم میں پشتو کے مشہور شاعر سمندر خان سمندرؔ کے متعلق بیان کیا تھا کہ جب وہ بِن بلائے بہت جلد دوبارہ سوات آئے، تو اپنی خاطرمدارت اور میزبانوں کے گرم جوشی میں کمی یا دوسرے لفظوں میں ان کے ماتھے پر بَل دیکھ کر کس طرح رو ٹھے ہوئے واپس چلتے بنے۔
سعداللہ جان برق صاحب کی مذ کورہ بالا باتیں، میرا دھیان جہان زیب کالج کے ادبی مجلے’’ایلم‘‘ کے 2013ء والے شمارہ کے پشتو سیکشن کے اداریہ میں تحریر اُن باتوں کی طرف لے گیا جس کا اُردو ترجمہ کچھ اس طرح بنتا ہے کہ’’ ادب کسی بھی قوم اور معاشرے کی زندگی، نفسیات، مزاج،کلچر اور روایات کی بہتر تصویر کا نام ہے۔ اسی تصویر پرنہ خود غرضی کا گرد پڑا ہوتا ہے اور نہ جھوٹ کا دھند۔ یہی تصویر مکمل، چمک دار اور شفاف ہوتی ہے۔ اسی تصویر کا مصور اور خالق بہادر، محترم اور جریـ ہوتا ہے۔‘‘
مدیر صاحب کی یہ نگارشات پڑھ کر مَیں حیران ہوا۔ اس لیے کہ ہمیں جو سکھایا گیا تھا اور جو کچھ ہم پڑھ کر سمجھ چکے تھے، وہ اس سے مختلف تھا۔ لہٰذا انگریزی اور اُردو کے بعض پروفیسر صاحبان سے اس بابت معلوم کرنا چاہا کہ واقعی ایسا ہی ہے جیسا کہ اس تحریر میں دعوا کیا گیا ہے؟ جواب دلائل کے ساتھ نفی میں ملا۔
سعداللہ جان برق صاحب کے مذکورہ کالم نے بھی یہ حقیقت بیّن کر دی کہ ادب کی ہر تصویر نہ خود غرضی کے گرد سے پاک ہو تی ہے، نہ جھوٹ کے دھند سے، اور نہ ادبی تصویر کشی مکمل حقیقی اور شفاف ہوتی ہے۔ نیز ادب کا ہر مصور غلطیوں سے مبرا، زیادہ بہادر، جری اور حقیقت پسند نہیں ہوتا۔
اس بابت ایک دوسراواقعہ بھی یاد آیا۔ سنا ہے کہ چند ماہ قبل کچھ دوستوں نے ایک محفل منعقد کی۔ اس محفل میں خطۂ سوات سے تعلق رکھنے والے پشتو کے ایک معروف شاعرنے دوستوں کی رازداری کا فائدہ اٹھاتے ہوئے معاشرہ کے بعض کرداروں اور طبقوں کے بارے میں اپنے دلی جذبات و احساسات کا اظہار کیا۔ محفل میں شریک ایک فرد نے اس کی فرمودات کو فلم بندکرکے بعد میں فیس بک پر ڈال د یا۔ جب مذکورہ شاعر کو اس بارے میں معلوم ہوا، تو وہ بہت ناراض ہوکرکہنے لگا کہ’’کیا مجھے مرواتے ہو؟‘‘ پس ادبی تصویر پر نہ صرف خفیہ فنڈ کا دھند، خود غرضی اور بعض اوقات جھوٹ یاآدھے سچ کا گردپڑا رہتاہے بلکہ اکثر ڈراور خوف بھی سایہ نگیں رہتا ہے۔
مذکورہ بالا مدیر صاحب ادبی مجلہ ’’ایلم‘‘ کے محولہ بالا تازہ شمارے میں اپنی ایک نظم میں صفحہ 49 پر کچھ اس طرح بھی فرماتے ہیں کہ ’’دانشور لا دَ انا پہ دام کے گیر دےــ‘‘ یعنی دانش ور تا حال انا کے دام میں محصور ہے۔ مدیر صاحب کوادراک نہیں یا یہ سمجھنے سے قاصر ہیں کہ دانش ور اَنا کے دام میں محصور نہیں ہوتا بلکہ وہ جن باتوں اور امور کا ادراک رکھتاہے اور جس نظر سے واقعات و حالات کا تجزیہ کرتا ہے، وہ عام لوگوں کی فہم سے بالا چیزیں ہوتی ہیں۔ اگر ایسا نہ ہو، تو پھر وہ دانش ور کیسا اور کس چیز کا؟ دانش ورنہ تو کسی کی اندھی تقلید کرتا ہے اور نہ ہوا کے رُخ کے ساتھ انجان بن کر سفر کرتا ہے۔ وہ اپنی دانش ہی سے کام لیتا ہے اور اسے کام میں لاتا ہے۔ یہ پروا کیے بغیر کہ کون اس سے خوش ہوگا اور کون ناخوش۔ اس میں دانش ور کاکیا قصور……اگر دنیا والے اس طرح کی ادراکی قوت سے محروم ہوں۔ وہ شاعر نے کیا خوب کہا ہے کہ
پرواز ہے دونوں کا اسی ایک جہاں میں
شاہیں کا جہاں اور ہے کرگس کا جہاں اور
ان جملہ ہائے معترضہ کے بعد اصل موضوع کی طر ف آتے ہیں۔ باوثوق ذرائع کے مطابق ریاستِ سوات میں والی صاحب نے خفیہ فنڈ کا فراخ دلانہ مصرف نہ صرف شاعروں کی مدح سرائی پر کیا بلکہ دوسرے مختلف النوع قلم کاروں، ذرائع ابلاغ سے وابستہ افراد اور تاریخ نگاروں وغیرہ پر بھی نوازشیں کیں۔ لہٰذا اُس دورمیں سوات سے متعلق تحریریں اور کتابیں وغیرہ پڑھتے وقت یہ بات ذہن نشین رکھنا ضروری ہے۔
واضح رہے کہ گذشتہ چند سالوں میں خطۂ سوات میں اور سوات کے حوالے سے سوات سے باہر بھی اس طرح کے خفیہ فنڈ کا فراخ دلانہ استعمال ہوا، جس نے ہوا کا رُخ موڑنے اور جھوٹ کو سچ بنوانے میں اہم کردار ادا کیا اور کر رہا ہے۔ دلچسپ امر یہ ہے کہ بعض لوگوں نے دوسروں کو اس گنگا میں اشنان کرتے دیکھ کر اپنی محرومی کا اِزالہ کرنے کی خاطر اس میں ہاتھ دھونے کی مقدور بھر کوشش کی۔
اس طرح کا ایک اور فنڈ بھی غیر سرکاری طور پر نیا نیاقائم ہوا ہے جس کی تجوری کا پٹ ابھی کھلنا شروع ہوچکا ہے اوربہت سا رے تشنگانِ توانگری کی امیدیں اس سے وابستہ ہیں۔
……………………………………
لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com یا amjadalisahaab@gmail.com پر اِی میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔