سوات کبھی مایوس نہیں لوٹاتا

Blogger Khalid Hussain

جواں ہے محبت حسیں ہے زمانہ
لٹایا ہے دل نے خوشی کا خزانہ
وادیِ سوات سے مجھے ہمیشہ محبت ملی۔ مَیں جب جب بھی گیا، جس موسم میں بھی گیا، سوات نے مجھے مایوس نہیں لوٹایا۔ بہار میں اپنی کومل کلیوں کو چٹکا کر میرے من کو للچایا۔ بہار پر بہار کے گیسوئے دراز کو پھیلا کر میرا جیا بھرمایا۔ صبحِ نور میں قطرہ قطرہ بگھوتی اوس کے موتیوں سے بھیگے ہونٹوں سے میرے پیاسے من کو چھو کر پیاس بجھائی۔ یہاں تک کہ اپنی عمر پوری کر کر کے گرتے پتوں نے بھی مجھے زندگی کو آخری پل تک جینے کا حوصلہ سکھایا۔ اس کی خزاں رسیدہ اور اُداس ٹہنیوں نے بھی مجھے بانہیں پسار کرخوش آمدید کہا۔ سڑک پر سفید چونے بکھیر کر میرے لیے ویلکم لکھا۔ موتیے کی سفید چادر پھیلا کر عطر بیز ہواؤں سے ماحول معطر کیا۔ میرے چاروں اُور خوش بوئیں بکھیریں۔ کیا بتاؤں کہ سوات میں کیا کیا ہے……! اس کا حسنِ جاں فزا ہے تو اس کی سادگی میں بھی ادا ہے۔
اُدھیانہ سے سواستو اور سوات تک چندر گپت موریہ،کنشک، سکندرِ اعظم، ہن اور ابدالی سے لے کر آج تک۔ ہندو مت، بدھ مت اور پھر اسلام کی ابدی حیات تک۔ صدیوں کی مسافتیں طے کرکے بھی سوات کا حسن سدا بہار ہے۔
خالد حسین کی دیگر تحاریر پڑھنے کے لیے نیچے دیے گئے لنک پر کلک کیجیے:
https://lafzuna.com/author/khalid/
اس کے باسی خوب صورت و خوب سیرت اور باوفا ہیں۔ سنہ 80ء کی دہائی سے لے کر امسال تک میں جب بھی گیا، جہاں بھی گیا، مجھے چاہت کے موتی ملے۔ وفا کے پھولوں کے ہار پہنائے گئے۔ مَیں شروع ہی سے سوات کے حسن پر مر مٹنے والا اس کے جلوؤں کا سودائی ہوں۔
مَیں اُس وقت بھی وہاں جاتا رہا تھا، جب وہاں مجھے کوئی شخص جانتا پہچانتا نہ تھا، سوائے اس کے خوب رو جلوؤں کے، شرابِ طہور سے لب ریز دریائے سوات کے سپید پانیوں کے اور لذتِ کام و دہن کو مہکاتے پھلوں پھولوں کے ۔
مَیں اپنی سرشت میں اِک وحشی تھا اور بقولِ انشاجی ’’وحشی کو سکوں سے کیا مطلب!‘‘
سنہ 1990ء کے شروع میں یا 80ء کی دہائی کے آخر پر (اَب مجھے ’’ایگزیکٹلی‘‘ یاد نہیں) اُس وقت مٹلتان بھی گیا تھا۔ اُس وقت مٹلتان ایک پن چکی اور دو چار بکھرے گھروندوں کے سوا کچھ بھی نہ تھا۔
ہوا کچھ یوں کہ مَیں اور میرا دوست جعفر سلیم (مرحوم) وہ بھی میری طرح جوگی، من کا روگی تھا، کالام تک تو جاتے رہتے تھے۔ کہنے لگا کہ اس بار اس سے اگلے علاقے تک چلتے ہیں۔ مقامی افراد سے لدی اِک گاڑی کالام سے اگلے علاقوں کی طرف جانے کے لیے کھڑی تھی۔ ہم اُس میں گھس کر بیٹھ گئے ۔ اِک عجب خوف زدہ کر دینے والا ماحول تھا اُس گاڑی کے اندر۔ ہر کسی کے کاندھے پر کسی نہ کسی قسم کا اسلحہ لٹک رہا تھا۔ چرس سے بھری سگریٹوں کے کش پہ کش لگ رہے تھے۔ اس گھٹن زدہ ماحول میں میرے لیے سانس لینا دوبھر ہو رہا تھا۔ مَیں اپنی سیٹ سے اُٹھ کر اس گاڑی کے پیچھے لگی ریلنگ پر آ کھڑا ہوا، جہاں پہلے بھی تین چار بندے اُس ریلنگ پر کھڑے سفر کر رہے تھے۔ میری یہ حرکت دیکھ کر ایک بزرگ نے اپنی مقامی زبان (غالباً پشتو) میں کچھ کہا۔ سب نے اپنے دہکتے سگریٹ گُل کر دیے یا گاڑی سے باہر پھینک دیے۔ پھر سب نے دعائے خیر کے لیے ہاتھ پھیلا دئیے۔ دعا سے فراغت کے بعد پھر کسی نے بھی چرسی سگریٹ تو کیا، سادہ سگریٹ بھی نہ سلگائی۔
دیگر متعلقہ مضامین: 
ورغومو کاڑ آبشار، سوات  
کمر خواہ آبشار، مانکیال سوات  
سوات کا رس بھرا آلوچہ ’’فضلِ منانئی‘‘ 
آڑو کے سوات پر منفی اثرات  
60 کی دہائی کا سوات  
خیر، مٹلتان جاکر ہم بھی اُس گاڑی سے اُتر گئے۔ پھر آہستہ آہستہ دریا کے ساتھ چلتے کافی دور تک گلیشیر کی جانب نکل گئے۔ ہمیں اُس سے آگے اُس وقت کوئی خاص آبادی نظر نہ آئی۔ سوائے چند ’’شیفرڈ ہٹس‘‘ کے، اور کچھ لوگ ملے جو اپنے بکریوں کے ریوڑ کی نگہبانی کر رہے تھے۔ ہم صبح ہلکا پھلکا ناشتا کرکے گئے تھے۔ اُس وقت سہ پہر کے 3 بج رہے تھے۔ بھوک زوروں پر تھی۔ پیٹ میں چوہے دوڑنا شروع ہو گئے تھے۔ واپسی پر مٹلتان میں ہم نے ایک شخص سے کسی ہوٹل کا پوچھا، تو اُس نے اشارے سے منع کر دیا۔ جب چائے کا پوچھا، تو اُس نے مثبت میں سر ہلا کر ایک جھونپڑی کی طرف اشارہ کیا۔ ایک شخص اُس جھونپڑی کے اندر کمبل لپیٹ کر سویا ہوا تھا۔ مَیں نے جب اُس جھونپڑی کا دروازہ کھٹکھٹایا، تو وہ اُٹھ کر بیٹھ گیا۔ میرے اشارے پر اُس نے جلتے چولھے میں آگ تیز کرنے کے لیے مزید لکڑیاں لگا دیں۔ ہمیں دیکھ کر دو تین شخص اور آ گئے۔ اُن کے پاس آتشیں اسلحہ تھا۔ پھر اِک اور شخص آن پہنچا۔ اُس کے پیچھے پیچھے دو اور شخص ہولیے۔ سبھی کے پاس کندھوں پہ لٹکتا کسی نہ کسی قسم کا اسلحہ تھا۔ سب لوگ ہمارے اِدھر اُدھر آن بیٹھے۔ مجھے کچھ خوف سا محسوس ہونے لگا۔
اچھا، اُن میں فقط ایک شخص ایسا تھا کہ جس کے پاس بہ ظاہر کوئی اسلحہ نہ تھا۔ مَیں نے اُسے کہا کہ سب کے پاس بندوقیں ہیں، آپ کیوں اسلحہ کے بغیر ہیں؟
ہے ناں……! پھر اُس نے اپنی شلوار کے نیفے سے ایک پسٹل نکال کر میرے سامنے رکھ دیا۔
کدھر سے آیا؟
لاہور سے۔
لاہور میں سے کدھر سے آیا؟
پنجاب یونیورسٹی سے۔
مال روڈ والی یونیورسٹی سے آیا یا نہر والی سے؟
نہر والی سے۔
وہ شخص کرید کرید کر ہم سے سوال پوچھنے لگا۔ کیا لینے آیا ادھر……؟
گھومنے پھرنے کے لیے۔
جب اُسے اچھی طرح تسلی ہوگئی، تو وہ ٹک کر بیٹھ گیا۔ وہاں موجود لوگوں کی تعداد کو دیکھتے ہوئے مَیں نے چائے والے کو چائے کے کپ مزید بڑھانے کا کہا۔ بسکٹ طلب کرنے پر اُس نے کہا کہ میرے پاس نہیں ہیں۔ ہاں، آپ کے لیے منگوا دیتا ہوں۔ اُس نے ایک لڑکے کو آواز دی۔ مَیں نے اُسے دس روپے کا نوٹ پکڑایا۔ نوٹ پکڑتے ہی اُس نے ایک جانب دوڑ لگا دی۔ کوئی پندرہ منٹ بعد وہ لڑکا ہانپتا کانپتا بسکٹ کے پیکٹ تھامے واپس آن پہنچا۔ سب نے مل کر چائے پی، بسکٹ کھائے۔ کچھ آپسی گپ شپ ہوئی۔ دو تین اشخاص نے ہمیں کھانا کھانے کی آفر بھی کی۔ اُن میں سے ایک شخص نے اپنے گھر پر رات گزارنے اور کھانا کھانے کا بھی کہا، مگر ہم اُس وقت تھوڑے سہمے ہوئے تھے۔ پہاڑی علاقوں میں شام جلدی اُتر آتی ہے۔ جوں ہی سورج کسی پہاڑ کی اوٹ میں چھپتا ہے۔ یک دم رات کے دھندلکے چھا جاتے ہیں۔ اَب ہمیں واپس کالام پہنچ جانے کی بھی فکر لاحق تھی۔ ایسے میں مٹلتان سے کوئی گاڑی بھی واپسی کے لیے نہیں مل رہی تھی۔ ایک شخص اپنی ذاتی جیپ پر کالام آ رہا تھا۔ اُن مقامی افراد نے ہمیں اُس کے ساتھ اُس کی جیپ میں بٹھا دیا اور ہم رات ہونے سے پہلے کالام آن پہنچے۔ بعد میں ہمیں پتا چلا کہ اُن دنوں مٹلتان اور اُس کے اِرد گرد علاقوں میں منشیات تیار کرنے کے کارخانے ہوا کرتے تھے۔ مقامی لوگ اُدھر آنے جانے والے ہر شخص پر گہری نگاہ رکھتے تھے۔
اُن دنوں سے لے کر آج تک میں جب جب بھی سوات گیا۔ سوات نے کھلے بندوں اپنا دامن پھیلا کر میرا استقبال کیا۔ فرق صرف یہ ہے کہ اُس وقت سوائے سوات کے پہاڑوں، ندی نالوں، خوش مہک پھولوں سے لدے باغیچوں، خوش رنگ اور لذیذ پھلوں سے لدے پھدے باغات کے سوا میرا کوئی شناسا نہ تھا، جب کہ آج (زیادہ تر) ڈاکٹر شاہد صاحب کی وساطت سے بہت سے میٹھے پیارے دوست مل گئے ہیں۔ یقین مانیں سوات جاکر ذرہ بھر بھی احساس نہیں ہوتا کہ مَیں اپنے گھر سے اتنی دور چلا آیا ہوں۔ وہی پیار، وہی چاہت اور وہی اپنا پن بانہیں وا کیے میرا منتظر ہوتا ہے۔
ایس پی ایس کالج کے روحِ رواں قبلہ سید منور شاہ صاحب اور اُن کے جملہ سٹاف کے ہم دلی مشکور ہیں۔ ہم بورے والا ٹریکرز کلب (پنجاب) کوئی اپنا سالانہ ایونٹ کریں، تو وہ ضرور شرکت فرمانے آتے ہیں۔ اسی طرح وہ جب بھی اپنا ٹریکنگ کے متعلق کوئی بڑا ایونٹ منعقد کرواتے ہیں، تو ہمیں ضرور یاد رکھتے ہیں۔ ابھی 17 فروری کو ہمارے بورے والا ٹریکرز کلب کے سالانہ منعقدہ ایونٹ پر ایس پی ایس ٹریکنگ کلب کی جانب سے سر عرفان اللہ صاحب، سر فضل خالق صاحب، سر مولانا طلحہ صدیقی صاحب اور محمد ایوب صاحب سوات سے بہ طورِ خاص ہمارے ایونٹ میں شرکت کے لیے تشریف لائے۔ اُن کی آمد کا بہت بہت شکریہ اور اس پر مستزاد یہ کہ وہ چار ممبران بورے والا ٹریکرز کلب (مجھ سمیت) کے لیے ایس پی ایس کی جانب سے تعریفی شیلڈز بھی لائے۔ سر شوکت علی، سر فیاض ظفر اور سر امجد علی سحابؔ صاحب نے بھی آنے کا کہا تھا، مگر شاید اُنھیں کچھ مجبوریاں آڑے آ گئی ہوں گی کہ وہ تشریف نہ لا سکے۔
بارِ دیگر مَیں ذاتی حیثیت سے بھی اور بورے والا ٹریکرز کلب کی جانب سے بھی ایس پی ایس کالج، ایس پی ایس ٹریکنگ کلب اور اہلِ سوات کا دل کی اتھاہ گہرائیوں سے شکر گزار ہوں۔
پھر ملیں گے اگر خدا لایا
……………………………………
لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com یا amjadalisahaab@gmail.com پر اِی میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے