بچپن میں ایک عوامی گیت سنا تھا۔ کچھ الفاظ کا مفہوم یہ تھا کہ ’’اگر یہی صورتِ حال رہی، تو مینگورہ بھی اس کے آگے نہیں ٹھہر سکتا۔‘‘
کہ داسے حال وی نہ ٹینگیگی منگورہ ورتہ
ٹینگ شہ زرگرہ ورتہ
اجمالاً کسی زرگر نے ٹانگ میں مکان بنوایا تھا، تو برسات کے پہلے ریلے میں بہ گیا تھا۔
فضل رازق شہابؔ کی دیگر تحاریر پڑھنے کے لیے نیچے دیے گئے لنک پر کلک کیجیے:
https://lafzuna.com/author/fazal-raziq-shahaab/
کسی زمانے میں ’’کومبڑ‘‘ (اب فضاگٹ) کے پائپ سے لے کر…… یا یوں کہیے کہ کانڑہ بابا دو جنگی سے آگے میلوں تک آبادی کا نام و نشان نہیں تھا۔ یہ کوئی بہت پرانی بات نہیں۔ 1960ء کی دہائی کی بات کر رہا ہوں۔ یہ سارا علاقہ سرسبز و شاداب تھا۔ جہاں پر دھان اور دیگر موسمی فصلوں کے لہلہاتے ہوئے کھیت ہوا کرتے۔ گاگہ (نہر) کے دونوں کناروں پر ’’گیری‘‘ (Gerry) کے سدا بہار اور گھنے سایہ دار درخت کھڑے تھے۔ شدید گرمیوں میں مینگورہ کے لوگوں کا بلا لحاظِ عمر جمگھٹا لگا رہتا۔
ہمارا محکمہ یعنی ’’سٹیٹ پی ڈبلیو ڈی‘‘ کے عملے کو کبھی سر کھجانے کی فرصت نہ ملتی تھی۔ والی صاحب (مرحوم) اکثر فرماتے کہ محکمۂ تعمیرات میرا محکمہ ہے۔ مَیں ہی اس کا چیف ہوں۔ باقی محکموں کے اپنے اپنے سربراہ ہیں۔ اس لیے ہم 24 گھنٹے ہی آن ڈیوٹی تصور کیے جاتے تھے۔
ہمیں صرف ان دنوں میں ذرا دم لینے کا موقع ملتا، جب والی صاحب کبھی کبھی سال دو سال بعد ایک مہینے کے لیے یوروپ چلے جاتے۔ اس دوران میں ترقیاتی کام بھی جاری رہتے۔ ریجنٹ کونسل بھی حکومت کا نظم و نسق چلاتا تھا۔ صرف قصاص کے معاملات میں ان کے دسترس سے باہر تھے۔
آمدم بر سرِ مطلب! ہم ہفتے میں ایک دن ضرور تفریح کا اہتمام کرتے۔ کالام یا شانگلہ کے علاوہ ڈڈھرہ کے چشمے اور گاگہ کے کنارے ہمارے پکنک سپاٹ تھے۔ نہر کے یخ بستہ پانی میں ڈھیروں آم اور مشروبات کی بوتلیں رکھ دیے جاتے۔ دنبے ذبح کرکے کھال اُتارنے کے لیے گیری کے شاخوں سے لٹکاتے۔ آلایشیں نہر سے دور پھنکواتے۔ ہمارے ایک ساتھی مرحوم عبدالروف طوطا گوشت بھوننے کے مختلف طریقے جانتے تھے۔ ہم سب کچھ اُن پر چھوڑ کر شارٹس پہن کر نہر میں اُتر جاتے۔
بہتے پانی میں ’’بہ دہنِ خود‘‘ آم چوسنے میں جو مزا ہے، وہ چھری سے پلیٹ میں کاٹ کر کھانے میں بالکل نہیں ملتا۔ سارا دن مختلف انداز میں تیار گوشت کا لطف اُٹھاتے۔ مشروبات سے لطف اندوز ہوتے اور شام تک وہیں رُکے رہتے۔
بس ایک رنگین خواب تھا……جو کبھی دیکھا تھا۔
……………………………………
لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com یا amjadalisahaab@gmail.com پر اِی میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔