(نوٹ:۔ جس وقت یہ سطور رقم کی جارہی ہیں، 21 فرروری ہے اور یہ زبانوں کا عالمی دن ہے۔ سوچا زبانوں کے حوالے سے کچھ الگ ہوجائے۔ اس مضمون کا بڑا حصہ آج پشاور میں "Shaoor Foundation for Education & Awareness, Mafkoora University of Peshawar” کے تحت منعقدہ سہ روزہ علمی و ادبی میلے”Think Peace Feast” میں پیش کیا گیا، راقم۔)
فلسفی ’’ویٹ گِن سٹئین‘‘ کہتے ہیں کہ لفظ کے معنی کسی زبان میں اُس لفظ کا استعمال ہی ہوتے ہیں۔ دوسرے الفاظ میں زبان میں خود معانی نہیں ہوتے، بلکہ یہ سیاق و سباق کے ذریعے پیدا کیے جاتے ہیں۔
یہ سوال ابلاغ (Communication) سے متعلق ہے۔ ’’آئی اے رِچرڈ‘‘ (I A Richard) کے مطابق ابلاغ کا عمل اُس وقت ہوتا ہے جب ایک ذہن اپنے ماحول پر اُس طرح عمل کرتا ہے کہ اُس سے دوسرا ذہن متاثر ہوتا ہے اور اُس دوسرے ذہن میں ایک تجربہ جنم لیتا ہے، جو پہلے ذہن کے تجربے کی طرح ہوتا ہے اور جزوی طور پر اُس تجربے کی وجہ سے ہوتا ہے۔
زبیر توروالی کی دیگر تحاریر پڑھنے کے لیے نیچے دیے گئے لنک پر کلک کیجیے:
https://lafzuna.com/author/zubair-torwali/
کوئی بھی زبان محض صوتیات، فونیات، الفاظ، جملوں اور قواعد کا مجموعہ نہیں ہوتی بلکہ اپنے ماحول، سیاسی اور ثقافتی حالات سے نہ صرف متاثر ہوتی ہے، بلکہ اُن حالات کو بیان کرنے کا ذریعہ بھی ہوتی ہے۔
زبان کوئی بے جان شے نہیں کہ اُس کا مطالعہ ایک بے جان اوبجیکٹ کے طور پر کیا جائے۔ زبان ایک عمل کا نام ہے جو انسانی زندگی کے ہر شعبے سے نہ صرف متعلق ہوتا ہے بلکہ اُس کو اثر انداز کرتا ہے اور خود بھی اثر لیتا ہے۔ زبانوں کی تبدیلی یا مر جانا اس کے جان دار ہونے کا ثبوت ہے۔
ہمارا موضوع چوں کہ زبان کا اَمن اور جنگ سے تعلق ہے، اس لیے ان دونوں حالتوں کو پیدا کرنے میں زبان کے کردار پر بات کرتے ہیں۔
زُبان تاثر (Perception) اور رویے (Behaviour) کو تشکیل دیتی ہے۔ زُبان کا استعمال اختلافات کو کم کرنے، تشدد کو ہوا دینے یا تنوع کی تسلیم (Recognition) کوحاصل کرنے کے لیے کیا جاسکتا ہے۔ جنگ کی زبان عام طور پر تشدد کی حقیقت کو چھپانے کے لیے کام کرتی ہے۔
اَمن کی حالت کی طرح اَمن کی زبان بھی منفی یا مثبت ہوسکتی ہے۔ ’’منفی اَمن‘‘ سے مراد جنگ یا تشدد کا مکمل خاتمہ نہیں بلکہ جنگوں کے بیچ اَمن کا وقفہ ہوتا ہے، جب کہ ’’مُثبت اَمن‘‘ ایک دائمی حالت ہوتا ہے، جہاں جنگ کی مکمل نفی ہوجاتی ہے۔ مُثبت امن کی زبان کھلے، مشترک اور جامع ابلاغ کو فروغ دیتی ہے جو تنوع (Diversity) کی توثیق اور اس کو تسلیم (Recognition) کرتی ہے۔
علم طاقت ہے، تو زُبان بھی طاقت ہے۔ جو لوگ جنگ اور اَمن کی زبان کو کنٹرول کرتے ہیں، وہی معاشرے کو اَمن یا جنگ میں سے کسی ایک جانب موڑ سکتے ہیں۔
٭ جنگ کی زبان:۔ قدیم معاشروں کے درمیان ابتدائی جنگوں سے لے کر 20ویں صدی کی عالمی جنگوں اور 21ویں صدی میں دہشت گردی اور اس کے خلاف جنگوں تک، سیاسی اور عسکری رہنماؤں نے زبان میں مختلف اصطلاحت متعارف کرواکر جنگوں کو تقویت دی ہے۔ زبان کے استعمال ہی سے جنگوں کو اخلاقی جواز فراہم کیے ہیں اور ان کو قانونی حیثیت دی ہے۔ جدید قومی ریاستوں نے جنگوں کو قومی خود مختاری کے لیے ناگزیر بنایا ہے۔ بدقسمتی سے دنیا کی بڑی زبانوں میں اَمن کے مقابلے میں جنگی اصطلاحات زیادہ ہیں، اور اَمن کی نسبت جنگ پر زیادہ گفت گو ہوتی ہے۔ جنگ کا سب سے وسیع جواز قرونِ وسطیٰ کے دوران میں پیدا ہوا، جو آج تک جاری ہے۔ اس کو کئی مفکرین جیسے ’’سینٹ آگسٹین‘‘ اور ’’سینٹ تھامس ایکیناس‘‘ نے دوام بخشا۔ جنگ کو ’’ہولی وار‘‘، ’’جسٹ وار‘‘ یا ’’جہاد‘‘ کا نام بھی زبان کے ذریعے ہی دیا گیا۔
جنگ کی زبان ہمیشہ ایسی اصطلاحات وضع کرتی ہے، جو قتل و غارت، دوسروں کی سرکوبی، ظم و ستم، تشدد، دوسرے کے وسائل چھیننے، دوسروں کو اُن کے عقائد اور زبانوں سے محروم کرنے اور دوسروں پر تسلط قائم کرنے کے لیے استعمال کیے جاتے ہیں۔ زُبان کے اس طرح استعمال ہی سے یہ سرگرمیاں لوگوں کو نارمل لگتی ہیں۔ مثلاً: جنگجو جتھوں کو ’’فرڈیم فائٹرز‘‘ اور ’’مجاہدین‘‘، محکمۂ جنگ کو ’’محکمۂ دفاع‘‘، اپنے سیاسی مقابل کو ’’برائی کا محور‘‘ (Axis of Evil) جیسی اصطلاحات زبان میں استعمال کی جاتی ہیں۔ اسی طرح کسی اور قوم پر حملے کو "Pre-emptive Strike” کا نام دینا یا عام شہریوں کی ہلاکتوں کو”Collateral Damage” کہنا بھی ایسی مثالیں ہیں۔ زبانوں کی ایسی اصطلاحات سے منفی سرگرمیوں کے لیے مُثبت تصوّرات اور مُثبت کے لیے منفی تاثرات پیدا کیے جاتے ہیں، جو ہمارے تاثر اور رویے کو متاثر کرتے ہیں۔ لسانیات میں اصطلاحات کے اس طرح استعمال کو "Lexicalization” کہتے ہیں۔ کہیں ان میں مُثبت مفہوم اور کہیں پہ ان میں منفی مفہوم ڈالا جاتا ہے۔ ’’کریٹیکل تھیوری‘‘ میں اس کو "Special Pleading” کہا جاتا ہے اور اس کو غالب طبقہ خاص طور پر اپنی طاقت کو برقرار رکھنے کے لیے استعمال کرتا ہے۔ مثلاً: کسی بم دھماکے میں عام شہری تو ’’ہلاک‘‘ ہوجاتے ہیں، جب کہ فوجی ’’شہید‘‘ ہوتا ہے۔ آرمی پبلک سکول میں بچوں کے قتل عام کو ملک کے لیے ’’قربانی‘‘ قراردیا جانا ہو یا کسی مدرسے پر بم گرانے سے ’’ہلاکتوں‘‘ کو ’’کولیٹرل ڈیمج‘‘ قرار دینا سب اسی "Special Pleading” کے زمرے میں آتا ہے۔
دیگر متعلقہ مضامین:
زبان کی اہمیت 
زبانوں کا قتلِ عام  
پاکستان میں اقتلیتی مادری زبانیں  
مقامی زبانوں کے ناموں کی بحث  
کس ملک میں سب سے زیادہ زبانیں بولی جاتی ہیں؟ 
لوگ اس زبان ہی کے ذریعے اپنا ایک نکتۂ نظر بناتے ہیں، جو اُن کو سکھائی جاتی ہے۔ ’’سوشلائیزیشن‘‘ کے عمل میں زبان لوگوں کو معاشرے میں موجود اقدار سے ہم آہنگ کرتی ہے۔ اسی لیے سوشلائزیشن کا یہ عمل زبان کو خاص مقاصد کے حصول کے لیے استعمال کرتا ہے۔ مثال کے طور پر سرد جنگ کے دوران میں امریکیوں نے اپنی حکومت کو ’’آزادی کا چمپئن‘‘ اور سوویت حکومت کو ’’ایک بری سلطنت‘‘ سمجھا۔ یا ہمارے ہاں پڑوسی ملکوں کو اپنی ساری خامیوں کا ذمے دار ٹھہرا کر اپنے کردہ جرائم پر پردہ ڈالا جاتا ہے۔
امریکی لنگویسٹ ’’نارمین فیرکلو‘‘ (Fairclough) کے نزدیک زبان ایک سماجی رویے کی شکل ہے، جس میں ہم سب سے زیادہ ’’کامن سنس‘‘ یا نظریاتی مفروضوں پر انحصار کرتے ہیں۔ اُن کے مطابق ایک غالب "Discourse” دوسرے مباحث کو دبا دیتی ہے اور نتیجے میں لوگ اس کی مطلق العنانیت یا بربریت کو بھول جاتے ہیں اور پھر وہ بحث/ بیانیہ نارمل لگتا ہے۔ ’’فیرکلو‘‘ اس کو "Naturalization of Discourse” کہتا ہے۔ مثلاً: لوگوں پر ریاست کی طرف سے پہلا تشدد ہمیں چونکا دیتا ہے، مگر اسی طاقت ور ڈسکورس کی وجہ سے یہ تشدد مسلسل روا رکھا جاتا ہے اوریہ پھر ہمیں نارمل سا لگتا ہے، یا دور کسی سرزمین پر کسی کو ’’وِلن‘‘ بنایا جاتا ہے اور خود کو ’’ہیرو‘‘ بناکر اس شیطان کے خلاف چڑھائی کی جاتی ہے۔ صدام حسین ہی کی مثال لیں…… یا پھر سویت یونین کے خلاف جنگ کے دوران میں جو لوگ بہادری میں ان کے آباواجداد کے برابر تھے، وہی لوگ بعد میں دہشت گرد بن جاتے ہیں۔
یہ ڈسکورس پر وپیگنڈا پیدا کرتا ہے اور اس کی ترسیل کا ذریعہ سرکاری میڈیا، کنٹرولڈ میڈیا اور تعلیم ہوتا ہے۔ ہمارے نصاب میں ہمارے تاریخی ہیرو اَب بھی ’’وِلن‘‘ ہیں، جب کہ حملہ آور وں کو ’’ہیرو‘‘ بنایا گیا ہے۔
لسانیات اور طاقت کے بیچ اس تعلق کی طرف اشارہ 19ویں صدی کے آخر میں ’’فریڈرک نطشے‘‘ (1956) نے کیا۔ اُنھوں نے کہا کہ ہمارا ’’ویلیو ججمنٹ‘‘ (یعنی اچھائی اور برائی کی تمیز) بنیادی طور پر زبان سے متاثر ہوتی ہے۔ وہ لوگ جو زبان کو کنٹرول کرتے ہیں، وہ ہمارا نکتۂ نظر اور ہمارے ردِعمل کو بھی کنٹرول کرتے ہیں۔ زبان کا اس طرح استعمال ہماری سوچ کو کنٹرول کرکے ہمارے رویوں پر اثر انداز ہوکر ہمارا شعوری ڈھانچا تربیت دیتا ہے۔ بعد کے کئی مفکرین جیسے ’’ویٹ گن سٹئین‘‘، ’’مشل فوکو‘‘، ’’گرامچی‘‘، ’’بورڈیو‘‘ وغیرہ نے اس پر کام کیا ہے۔
زُبان کو کسی سماج میں طاقت کی تقسیم سے الگ نہیں کیا جاسکتا اور طاقت کی تقسیم مساوی نہیں ہوتی۔ فرانسیسی ماہرِ سماجیات ’’پیئر بورڈیو‘‘ کے نزدیک زُبان کا استعمال کسی شخص کے سماجی رتبے پر منحصر ہوتا ہے اور یہ رتبہ "Social Status” زبان سے باہر ہوتا ہے۔ باہر سے مراد وہ سماجی حالات ہیں جن کے اندر رہ کر یہ ڈسکورس کسی زبان کے ذریعے پنپتا ہے۔ ’’بوڑدیو‘‘ کے خیال میں کسی لسانی قومی ا کائی کی تعمیر سیاسی تسلط ہے، جہاں ایک زبان کو دوسروں پر مسلط کیا جاتا ہے اور پھر اُس کے ذریعے طاقت کے اس ڈسکورس کو آگے بڑھایا جاتا ہے۔ مثلاً: پاکستان میں اُردو یا قومی ریاستوں میں قومی زبان یا زبانیں۔
زبان کے اندر اسی ڈسکورس کے ذریعے پھر سرکاری اور عسکری مقتدرہ (Authority) اپنے طرزِ عمل کو جائز قرار دے سکتی ہے اور اس طرح جنگ کے ناقدین کی مشترکہ کوششوں کو بھی اکثر اپنے حق میں کرتی ہے۔ جو ملک مسلسل نازک دور سے گزر رہا ہو، وہاں جنگی ڈسکورس کے ناقدین کے لیے ’’ملک دشمن‘‘، ’’غدار‘‘ اور ’’کافر‘‘ جیسے ٹھپے کسی عسکری زبان کی لغت میں مسلسل تیار کیے جاتے ہیں۔
٭ اَمن کی زُبان:۔ اَمن اور انصاف کے حصول میں اَمن کی زُبان ایک مؤثر عامل ہے۔ اَمن کی زُبان، لسانی عدم تشدد کی علامت ہے۔ یہ سب کو شامل کرتی ہے اور اشتراکی ہوتی ہے۔ اس کے باوجود جس پیمانے پر جنگ کی زُبان سرکاری ڈسکورس میں حاوی ہوتی ہے کہ اس کے سامنے جب اَمن کی زُبان استعمال کی جاتی ہے، تو یہ عام طور پر منفی اَمن کی زُبان ہوتی ہے۔
منفی اَمن کی زبان درحقیقت ناانصافی کو دوام بخشتی ہے۔ ایک حکومت اور اُس کا میڈیا وقتی طور پر کسی خاص قوم کو ’’دشمن‘‘ یا ’’شیطان‘‘ قرار دینا بند کرسکتا ہے، لیکن اُس کی وجہ سے جو عوامی اور نجی رویے فروغ پاتے ہیں، یا جو تعصب پیدا ہوتا ہے، وہ عموماً مخفی ہوتا ہے۔ جب تعصبات پوشیدہ ہوں، تو عوام میں اُن کا پتا لگانا اور اُن کو ختم کرنا اور بھی مشکل ہو جاتا ہے۔
مُثبت اَمن کی زُبان تشدد کے واقعات میں بھی خاموشی سے اُس کی مکمل نفی کی طرف سہولت فراہم کرتی ہے۔ مُثبت اَمن کی زُبان کے قیام کے لیے جنگ اور تشدد پر مبنی ثقافتوں میں تبدیلی کی ضرورت ہے۔ کیوں کہ زُبان اپنے معنی ثقافت سے ہی کشید کرتی ہے۔ مُثبت اَمن پر اور اس پر بات کرنے کے لیے ملکی اور بین الاقوامی سطح پر تنوع (Diversity) کو تسلیم کرنا اور حقیقی معنوں میں اُس کے وجود کو سراہنا ضروری ہوتا ہے۔ مُثبت اَمن کی زُبان قائم کرنے کی کوشش کے لیے ہر مقامی زُبان کی ترویج اور ترقی کی ضرورت ہے۔ اس کو بااختیار بنانے کی ضرورت ہوتی ہے، تاکہ ایک قومی یا جنگی زُبان کے مقابلے میں متبادل زُبانیں پنپ سکیں اور جنگی بیانیوں کے خلاف اَمن کا بیانیہ عوام کے اندر سرایت کرجائے۔ مُثبت امن کے لیے ایک زبان کی ہیجمنی/ بالادستی ختم کرنی پڑے گی۔
کئی سرگرمیاں مُثبت اَمن کے لیے درکار احترام، تعاون اور افہام و تفہیم کے حصول کو فروغ دیتی ہیں۔ ایسی سرگرمیاں نسل، رنگ، جنس اور جنسی رجحانات کے بارے میں تعصبات کا اظہار کرنے والی اصطلاحات کی گفت گو کی نفی کرتی ہیں۔ مختلف زبانیں، نسلیں، جنس اور ثقافتیں وہ دُھنیں ہوتی ہیں، جو انسانیت کے نغمے کی تخلیق کرتی ہیں۔ یہ انسانیت کے باغ کی وہ کیاریاں ہوتی ہیں، جہاں مختلف انواع و اقسام کے پھول اُس کے حسن کو نکھارتے ہیں۔
٭ لسانی بیگانگی اور لسانی تشدد:۔ جب کسی زبان کو طاقت/ مقتدرہ دباتی ہے، یا اُس میں اپنی مرضی کی جنگی اور تشدد پر مبنی اصطلاحات ڈالتی ہے، تو اُس سے جہاں ایک طرف لسانی بیگانگی پیدا ہوتی ہے، تو دوسری جانب یہ لسانی تشدد ہوتا ہے۔ 1948ء میں جب ڈھاکہ یونیورسٹی میں کھڑے ہوکر کہا گیا کہ پاکستان کی قومی زُبان صرف اُردو ہوگی اور اس کی مخالفت کرنے والے ملک دشمن ہیں، تو اُس سے ایک طرف بنگالیوں پر لسانی تشدد کیا گیا، جب کہ دوسری طرف یہ بیان اُردو سے بیگانگی کا سبب بنا۔ اُردو زُبان میں جو بالادست بیانیہ نصاب، میڈیا اور کتابوں کے ذریعے چلایا جاتا ہے، وہ ملک کی دوسری لسانی اکائیوں کو اُردو سے بیگانہ کردیتا ہے ۔
لسانی تشدد اور جنگی ڈسکورس سے بچنے کے لیے ضروری ہے کہ سماج میں ایک سے زیادہ زبانوں کو فروغ دیا جائے، جو ملک ’’یک لسانی‘‘ (Monolingual) ہیں، وہاں دوسری اور تیسری زُبان کی تدریس اور فروغ ہو اور جو ملک پہلے سے ’’کثیر اللسان‘‘ ہیں، اُن میں اس لسانی تنوع کو فروغ دیا جائے۔ یوں ایک سرکاری یا قومی زُبان میں جنگی ڈسکورس کا مقابلہ دوسری زُبانوں میں متبادل ڈسکورس پیش کرکے کیا جاسکتا ہے۔
……………………………………
لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com یا amjadalisahaab@gmail.com پر اِی میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔