’’لاس اینجلس ٹائمز‘‘ میں ’’انڈین ورکرز‘‘ جو کہ امریکہ کی نئی ورک فورس ہیں، پر وضاحت کے ساتھ ایک آرٹیکل لکھا گیا تھا۔ آرٹیکل میں کئی مختلف عوامل کے ساتھ ایک فیکٹر جو ان کی جاب سی وی کو مزید بہتر بناتا ہے، وہ ہے ان کی انگریزی زبان پر گرفت۔
ریسرچ کمپنیز "ASSOCHAM” اور "KPMG” کے مطابق انڈیا فلپائن کے مقابلے میں اپنی 70 فیصد تک انکریمنٹل وائس اور کال سینٹر بزنس کھو رہا ہے۔ کیوں کہ فلپائن کی 100 ملین عوام میں 93 فی صد لوگ انگریزی زبان سے واقف ہیں۔ ’’اکنامک ٹائمز‘‘ میں ایک آرٹیکل چھپا جس میں وضاحت کی گئی ہے کہ کس طرح انگریزی گلوبل ٹیکنالوجی مارکیٹ میں انٹر ہونے کی شرط بن چکی ہے۔
کچھ عرصہ قبل کروشیا میں اسکولوں کے باہر بل بورڈ لگائے گئے جس پر ’’میلانیا ٹرمپ‘‘ (جن کا تعلق سلووینیا سے ہے) کی تصاویر کے نیچے لکھا گیا تھا: ’’سوچیں! ذرا سی انگریزی سیکھنے سے آپ کہاں سے کہاں پہنچ سکتے ہیں۔‘‘
اس پر ڈونلڈ ٹرمپ کے اعتراض پر بل بورڈز ہٹا دیے گئے۔ اسکولوں نے اعتراض کیا کہ ہم نے تو اپنے بچوں میں انگریزی سیکھنے کی موٹیویشن کے لیے یہ بل بورڈز لگائے تھے۔
پاکستان میں انگریزی ایک کلاس ہے، زبان نہیں…… اور یقینا اس کی جڑیں بہت پرانی ہیں۔ انگریزی کے لیے سب سے پہلے مائنڈ سیٹ بنانے کی ضرورت ہے، تاکہ بولنے اور پڑھنے میں دماغ اچھا رسپانس دے۔ کیوں کہ مائنڈ سیٹ کا آپ کی لرننگ پر اثر پڑتا ہے۔ یوں سوچیں کہ آپ نے انگریزی سے کسی کو متاثر نہیں کرنا بلکہ اس لیے سیکھنی ہے، تاکہ اپنی زندگی کو مالی اور ذہنی اعتبار سے بہتر بنا سکیں۔ اپنے لیے معاش کے نئے مواقع پیدا کرسکیں۔
پختون ازم، سندھی ازم، پنجابی ازم اور باقی کے جو بھی ’’ازم‘‘ ہمارے دماغوں میں موجود ہیں ان کو اگر انگریزی ازم، بزنس ازم، پروڈکٹوٹی ازم ،گروتھ ازم، پیسہ ازم میں تبدیل کردیا جائے، تو شاید ہماری ذاتی زندگی کے کچھ حد تک بہتر ہونے کے امکانات نظر آ سکتے ہیں۔
مَیں مادری زبان بولنے اور سیکھنے کے خلاف نہیں۔ مَیں بذاتِ خود اپنی مادری زبان پشتو کو روزمرہ کی زندگی میں استعمال کرتی ہوں۔ مَیں ثقافت چھوڑنے کے حق میں نہیں…… لیکن میرا ذاتی تجربہ ہے کہ میرے علم میں موجود زبانیں اردو، سندھی، جرمن، پشتو، انگریزی میں سے انگریزی وہ واحد زبان ہے جس نے مجھے خود کو تھوڑا بہت سمجھنے اور زندگی پر غور و فکر کرنے میں مدد کی۔ علم اور ٹیکنالوجی انگریزی میں ہے، اگر ماڈرن دور کی کرنسی انفارمیشن اور ٹیکنالوجی ہے، تو اس کرنسی کو انگریزی زبان میں چھاپا گیا ہے۔
انگریزی پر گرفت کا ایک ہی بہترین ذریعہ ’’ریڈنگ‘‘ ہے۔ اپنے بچوں کو انگریزی سکھائیں۔ کلچر پر فخر کرنے کے لیے ایلیٹ طبقہ موجود ہے پاکستان میں…… ان کے پاس کلچر پر فخر کرنے کا ٹائم اور ریسورسز دونوں ہیں۔ آپ اپنے کلچر کے ساتھ گلوبل کلچر پر بھی نظر رکھیں۔ بچوں کو پیار اور "Compassion” کے ساتھ سکھائیں۔ انہیں کلاسزم والے مائنڈ سیٹ سے لرننگ نہ کروائیں۔
……………………………….
لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com یا amjadalisahaab@gmail.com پر اِی میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔