ملکِ عظیم…… خطرات، آفات اور سانحات کا ڈسپلے سنٹر

کورونا وبا جیسی صورتِ حال میں اور پھر خاص طور پر مختلف’’ویرینٹس‘‘ سے ہوتے ہوئے اس کا ’’اومیکرون‘‘ تک کا سفر طے کرنے کے بعد برہمن پاگل تو تھا نہیں کہ سالِ نو کے بارے میں کہتا کہ ’’یہ اچھا ہوگا!‘‘
ہر ایک کی طرح برہمن پر بھی یہ حقیقت روزِ روشن کی طرح عیاں تھی کہ نہ شب و روز بدلیں گے اور نہ حال ہی اچھا ہوگا۔ اس لیے کسی نے بھی سوشل میڈیا پر سالِ نوکے اچھے ہونے کے متعلق برہمن سے منسوب غالبؔ و فیضؔ کی پیشین گوئی نہیں چھاپی۔ البتہ یہ بھی کسی نے نہیں سوچا تھا کہ نئے سال کے پہلے ہی ہفتے میں سانحۂ مری جیسا اندوہناک واقعہ ہوگا۔ ہمارے لیے سانحۂ مری اپنی نوعیت کا نیا سانحہ ہے۔ اس سے وطنِ عزیز کے فہرستِ خطرات و آفات (Hazards & Disasters) میں ایک اور ’’عنوان‘‘ کا اضافہ ہوگیا۔ ویسے بھی اپنا وطن سانحوں اور آفات کے معاملے میں خود کفیل ہے۔
دنیا کے مختلف ممالک کا جایزہ لیا جائے، تو صاف نظر آتا ہے کہ جاپان میں زلزلے زیادہ آتے ہیں اوربنگلہ دیش میں سیلاب، قحط سالی سے افریقی ممالک زیادہ متاثر ہوتے ہیں جب کہ جنگلوں میں لگنے والی آگ سے یورپی ممالک، سری لنکا کو ڈینگی مچھر نے بھنبھوڑا تھا، تو انڈونیشیا کو سونامی نے…… شورش اور بدامنی میں صومالیہ مشہور ہے، تو خانہ جنگی میں شام، عراق ، لیبیا اور افغانستان۔ آتش فشاں میکسیکو میں زیادہ ہیں، توسمندری طوفان امریکہ میں۔ غرض دنیا کا ہر ملک کسی نہ کسی سانحہ یا آفت کے لیے مشہور ہے…… جب کہ وطنِ عزیز اس معاملے میں بدقسمتی سے ’’آل راونڈر‘‘ ہے۔ بلکہ میں تو یہ کہوں گا کہ وطنِ عزیز، دنیا کے تمام خطرات، آفات اور سانحوں کا ’’ڈسپلے سینٹر‘‘ ہے اور یہاں روز کسی نہ کسی انسانی المیے کی نمایش کا بھرپور اہتمام ہوتا ہے۔ شاید ہی کوئی مصیبت ایسی ہو جس سے اہلِ وطن ابھی ’’مستفید‘‘ نہ ہوئے ہوں۔
ہمارے ملک میں ہونے والے ہر حادثے، سانحے اور آفت کے بعد عمومی فضا سوگوار ہوا کرتی ہے۔ ہمارے ہاں اب بھی دکھ درد سانجھے ہوتے ہیں۔ لوگ اب بھی مظلوم پر روتے ہیں، کبھی کھل کر اور کبھی دل ہی دل میں۔ یہ احساس قدرت کی طرف سے بندے کو دل کی شکل میں عطا کیا گیا ہے۔ اس لیے مظلوم خود بھی روتا ہے اور ہر اس بندے کو رُلا دیتا ہے جس کے پاس دل ہو۔ غم بھلانے، دل کا بوجھ ہلکا کرنے اور ذہنی سکون پانے کے لیے رونے دھونے سے بہتر کوئی چیز نہیں۔ حالیہ سائنسی تحقیق کے نتیجے میں تو یہاں تک بات سامنے آئی ہے کہ رونے اور اشک بہانے والے لوگوں کا نہ صرف دکھ کم ہوجاتا ہے…… بلکہ ان کے جسم میں موٹاپے کے امکانات بھی کم ہوجاتے ہیں۔ دل کھول کر رونے سے انسانی دل و دماغ ہی نہیں، دیگر حصوں پر بھی نمایاں اثرات مرتب ہوتے ہیں۔ اس تحقیق سے ہمیں یہ بات معلوم ہوتی ہے کہ کھل کر رونے سے دل کا بوجھ کم ہوتا ہے اور انسانی ذہن ہی نہیں جسم بھی سکون اور آرام محسوس کرتا ہے۔
اسداللہ خاں غالبؔ نے بھی یہی کہا تھا کہ دل کوئی سنگ و خشت تو نہیں ہے کہ اسے درد محسوس نہ ہو، لہٰذا ایک بار نہیں بلکہ ہزار بار رونے میں بھی کوئی مضایقہ نہیں۔ خاں صاحب تو بہت بڑے عارف تھے۔ معلوم نہیں کہ ’’کوئی‘‘ سے اس کا اشارہ کس طرف تھا؟ البتہ ہم نے اسے ہر ’’کسی‘‘ پر منسبط کر دیا ہے۔
رونے دھونے کے اس فلسفے کے بارے میں ہمارے پشتونوں کو دو رویے ہیں۔ ہمارے ہاں اگر درد بلاواسطہ قدرت کی طرف سے ہے، تو رونا اور ماتم کرنا قابلِ قبول ہوتا ہے…… لیکن اگر یہ کسی انسانی فعل کے نتیجے میں ہوا ہے، تو پھر رونا دھونا بزدلی تصور کیا جاتا ہے۔ مثال کے طور پرپشتونوں کے ہاں قتل کیے گئے لاشے پر رویا نہیں جاتا اور مناسب وقت تک ہر قسم کی خوشی منانے سے اعراض کیا جاتا ہے…… اور باقاعدہ طور پر اس سے منع کیا جاتا ہے۔ پشتون دانش کے مطابق وجہ اس کی یہ ہے کہ رونے، مرثیہ گوئی اور ماتم سے منع کرنے کے نتیجے میں مظلوم کا غیظ و غضب مشتعل رہتا ہے۔ نیز ہر قسم کی شادمانیوں سے پرہیز کرنے سے وہ غم و اندوہ میں ڈوبا رہتا ہے۔ لہٰذا وہ کم سے کم وقت میں اپنا بدلہ لے لیتا ہے۔
وطنِ عزیز میں روز کچھ نہ کچھ ایسا ہوجاتا ہے کہ جس کی بنیاد پر تحریکیں کھڑی ہوسکتی ہیں۔ روز ایسا سانحہ رونما ہوجاتا ہے کہ جس کی وجہ سے حکومتیں گرائی جاسکتی ہیں اور تاج اچھالے جاسکتے ہیں۔ روز ایسے انسانی المیے وقوع پذیر ہوتے ہیں جو سول نافرمانی اور عدم تعاون کا جواز فراہم کرتے ہیں۔ روز ایسے مظالم ڈھائے جاتے ہیں کہ بغاوتیں سراٹھائے دیر نہ لگے…… لیکن ’’ہوتا کچھ نہیں۔‘‘ مَیں نے اس کے بارے میں بہت سوچا اور آخرِکار اس نتیجے پر پہنچا کہ ہمارا اصل مسئلہ رونا دھونا، ٹوکن احتجاج اور سوشل میڈیا ہے۔ ہر حادثے کے بعد ہم پہلے جی بھر کر روتے ہیں۔ ایک نمایشی سااحتجاج کرتے ہیں اور پھر سوشل میڈیا پر آکر اپنا غصہ نکال لیتے ہیں۔ یہاں مظلوم کی زیادہ سے زیادہ حمایت یہی تصور کی جاتی ہے کہ ڈسپلے پکچر تبدیل کیا جائے۔ پوسٹ لکھے جائیں۔ شیئر اور کمنٹ کا زیادہ سے زیادہ استعمال ہو اور رونے دھونے کی ایموجیز کی بھرمارہوجائے۔ ٹرینڈز بن جائیں۔ لائیو مناظر کی عکس بندی ہوجائے۔ چند قوتوں کو گالیاں پڑجائیں اور ان کی تصاویر ایڈٹ کی جائیں۔ ایسے میں جوابی بیانیہ سے لیس ’’سایبر سکواڈ‘‘ میدان میں اُترتا ہے۔ یہ تنخوا ہ دار پروفیشنلز پر مشتمل منظم گروہ ہوتے ہیں۔ یہ چند تصاویر،نغموں، ویڈیوز اور پوسٹوں کے ذریعے جوابی بیانیہ ایسے شد و مد سے پیش کرتے ہیں کہ لوگ بھول جاتے ہیں کہ اصل قصوروار کون تھا؟ اہلِ مذہب سے انہیں وافر مقدار میں کمک مل جاتی ہے اور حادثے کا سارا ملبہ بے چارے عوام کے کاندھوں پر ڈال دیا جاتا ہے۔ انہیں ان کے ’’گناہوں ‘‘ کی بنیاد پرسانحہ کا اصل ذمہ دار ٹھہرا دیا جاتا ہے۔ دودھ میں پانی ملانے والا گوالا اور پھل بیچنے والا ریڑھی بان ظالم ٹھہرتا ہے اور مزدور کام چور۔ آدھے انقلابیوں نے سوشل میڈیا پر اپنا کیتھارسس کیا ہوتا ہے۔ وہ غصہ نکال کر ٹھنڈے ہوچکے ہوتے ہیں جب کہ باقی ماندہ آدھے انقلابی اسی جوابی بیانیہ سے متاثر ہوکر رام ہوجاتے ہیں۔ یوں اگلے سانحے تک راوی چین ہی چین لکھتا ہے۔
مَیں یہ نہیں کہتا کہ سوشل میڈیا پریا پرنٹ میڈیا پر ظلم کے خلاف آواز نہیں اٹھانی چاہیے۔ ضرور اٹھانی چاہیے کہ یہ وقت کی اہم ضرورت ہے…… لیکن اس میں ہمیں یہ خیال رکھنا ہوگا کہ ہم ظلم کے خلاف پارٹی وابستگی سے بالاتر ہوکر آواز اٹھائیں اور ایسا کرتے وقت اپنی پارٹی، قوم اور مسلکی دفاع کے نام سے مزاحمت کرنے اور احتجاج کرنے والوں کو تقسیم کرنے سے پرہیز کریں۔ اس کے علاوہ جب بھی ہمیں لگے کہ دو تین پوسٹیں لکھنے اور شیئر کرنے کے بعد میرے اندر کا ’’مَیں‘‘ مطمئن ہوجاتا ہے اور ظلم کے خلاف میرے اندر کا باغی اور سر پھرا سکون سے سوجاتا ہے، تو پھر ایسے لکھنے اور شیئر کرنے سے پرہیز ہی بہتر ہے۔ ایسے رونے سے بہتر ہے کہ نہ رویا جائے…… تاکہ مظلوم کا غیظ و غضب مشتعل رہے اور وہ غم و اندوہ میں ڈوبا رہے…… یوں کم از کم وقت میں جمہوری اور آئینی طریقوں سے مہذب انداز میں اپنا بدلہ تو لے سکے۔ بس کرنے کا سب سے ضروری کام یہ ہے کہ ہم سب یہ تہیہ کرلیں کہ اب جب بھی حادثہ ہوجائے، ہم نے رونا نہیں ہے…… بس!
………………………………..
لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com یا amjadalisahaab@gmail.com پر اِی میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔