وفاق کے اِس وقت کے سب سے بڑے ہسپتال ’’پاکستان انسٹیٹیوٹ آف میڈیکل سائنسز‘‘ میں ’’چلڈرن آپریشن تھیٹر‘‘ کے ایک ٹیکنیشن کی شہادت کے بعد ڈاکٹرز اور پیرا میڈیکل سٹاف کے لیے مشکلات کی خبریں سامنے آ رہی ہیں۔ وینٹی لیٹر مناسب تعداد میں نہیں، مریض ہر گزرتے دن کے ساتھ بڑھ رہے ہیں۔ اب تو لاکھ کی نفسیاتی حد بھی عبور ہوچکی اور جو لاہور سے خبریں ہیں کہ لاکھوں افراد متاثر ہو سکتے ہیں، وہ بھی باعثِ پریشانی ہے۔
یقین مانیے دل رنجیدہ ہوگیا ہے۔ ڈاکٹرز اور پیرا میڈیکل سٹاف وہ لوگ ہیں جن کے سامنے یقینی موت ہے، لیکن یہ میدان سے پیچھے ہٹنے کو تیار نہیں۔ بزدل سپاہی جنگ چھڑنے پہ چھٹی کی درخواست دیتے ہیں، اور بہادرجنگ کی دعائیں مانگتے ہیں۔ جنگ چھڑتے ہی رضاکارانہ طور پر اگلے محاذ پہ جانے کی درخواست کر دیتے ہیں۔ ہمارے یہ سپاہی بھی اگلے محاذ پہ ڈٹے ہوئے ہیں۔ یہ سفید وردی پہنے ہوئے سپاہی میدان سے تو پیچھے ہٹنے کو تیار نہیں، لیکن ہم بطورِ قوم ان کے ساتھ ظلم کر رہے ہیں۔
ہم بطورِ قوم ان کو اپنا حصہ سمجھ نہیں رہے، اور یہ سمجھ بیٹھے ہیں کہ ان کی پکار شائد وقتی مفادات کے لیے ہے۔ ان کا واویلا بھی شائد فرائض سے جان چھڑانے کے لیے ہے۔
ہم میں سے کتنے لوگ ہیں جنہوں نے ڈاکٹرز اور طبی عملے کی اس وبائی صورتحال میں معمولات زندگی جاننے کی کوشش کی ہے؟ کالم، آرٹیکل، بلاگ لکھا اور فرض ادا ہوا۔ تقریر کی اور سمجھا ہم نے حق ادا کر دیا۔ زبانی جمع خرچ دکھانے کے لیے پریس کانفرنس کی اور سمجھ لیا کہ ہم تو اپنی ذمہ داری نبھا بیٹھے۔ زمینی حقائق کے مطابق حقیقی میدان میں صرف میڈیکل سٹاف ہے، جو اس وائرس کا خطرہ ہوتے ہوئے بھی اس سے لڑ رہا ہے۔
صاحبانِ عقل! ان کی پکار پہ توجہ دیجیے۔ ان کے واویلے میں پوشیدہ بین سمجھنے کی کوشش کیجیے کہ وہ کہہ کیا رہے ہیں؟ ان کی پریشانی کی وجہ کیا ہے؟
موصولہ اطلاعات کے مطابق اب پورے پاکستان سے انتہائی سینئرز ڈاکٹرز اس کا شکار ہو کے جاں سے جا رہے ہیں۔ پیرا میڈیکل سٹاف کے لیے بھی صورتحال حوصلہ افزا نہیں۔ ڈاکٹر اسامہ ہوں یا او ٹی ٹیکنیشن ظفر اقبال، دونوں ہی نے میدانِ عمل سے پیچھے ہٹنا گوارا نہیں کیا۔
ہولی فیملی ہسپتال کی ڈاکٹر رابعہ طیب ہوں، یا حیات آباد میڈیکل کمپلیکس پشاور کے ڈاکٹر جاوید، یہ سپاہی اپنے محاذ پر ڈٹے ہوئے ہیں۔ یہ واویلا کرتے ہیں کہ ہمارے پاس سہولیات موجود نہیں۔ ہمیں کٹس نہیں فراہم کی جاتیں، ہمیں حفاظتی لباس کی کمی کا سامنا ہے، لیکن ہم یہ سمجھتے ہیں کہ یہ اپنے ذاتی مفادات کے لیے رو رہے ہیں۔
ہم اس حقیقت سے نظریں چراتے ہیں کہ ڈاکٹرز اور طبی عملہ آج نہ ہوتا، تو ہمارے ہاں حالات کس قدر مختلف ہوسکتے تھے۔
ینگ ڈاکٹرز جب مفادات کے لیے ہڑتال کرتے تھے، تو ہم نے ان کی مخالفت کرنے کے ساتھ ساتھ ان پہ تحریروں کے انبار بھی لگائے، لیکن آج اگر یہی ینگ ڈاکٹرز سہولیات کی فراہمی کے لیے ہڑتال یا احتجاج کرتے ہیں، تو یقین جانیے راقم الحروف کی طرح بہت سے دیگر لکھاری بھی ان کو حق پہ سمجھتے ہیں۔
یقین مانیے، کرونا وارڈز میں فرائض سر انجام دینے والے ڈاکٹرز اور پیرا میڈیکل سٹاف ایک دو دھاری تلوار پہ چل رہے ہیں۔ ان کے پاس سہولیات کا فقدان ہے اور یہ اپنے گھر والوں سے بھی کٹ کر رہ رہے ہیں۔ چھوٹی عید طبی عملے نے ہسپتالوں میں منائی، اور بڑی عید کے بارے میں بھی صورتحال حوصلہ افزا نہیں۔ ڈاکٹرز شور کر رہے کہ آپ لاک ڈاؤن ختم مت کیجیے، جب کہ ہم ان کی ایک سننے کو تیار نہیں۔
ڈاکٹرز وارننگ دے رہے کہ جس طرح سے عوام باہر نکل رہے ہیں، یہ صورتحال کو سنگین بنا دیں گے، لیکن ہمارے نزدیک تو ڈاکٹرز صرف اور صرف مفاداتی ٹولہ ہے اور کچھ نہیں۔
یہ جو ڈاکٹرز رو پیٹ رہے ہیں کہ لاک ڈاؤن ختم مت کیجیے، اور تمام کمرشل کاروبار مت کھولیے، تو کیوں ایسا کہتے ہیں؟
ان کے کہنے میں خدشات چھپے ہیں۔ ہم نے سالوں محنت کر کے اپنا صحت کا نظام اور انتظامی ڈھانچا تباہ کیا ہے، اور ڈاکٹرز جانتے ہیں کہ ہمارا صحت کا نظام جس نہج پہ ہے، وہ اچانک اور بڑھتی ہوئی مریضوں کی تعداد کو سنبھالنے سے قاصر ہے۔
ڈاکٹرز جانتے ہیں کہ ہسپتال بوجھ برداشت کرنے کے قابل نہیں ہیں۔ اب تو عملاً بھی ایسا ہے کہ ہسپتال مریض نہیں لے سک رہے۔
اب تو صورتحال کسی نا کسی طرح قابو میں ہے، لیکن ہم نے جس طرح لاک ڈاؤن کو عملاً مکمل طور پر ختم کر دیا ہے، کچھ بعید نہیں کہ کرونا کی وبا ہمارے قابو سے باہر ہو جائے، جس انداز سے بازار کھلے، جیسے ہم نے عوام کا ہجوم سڑکوں پہ لا کھڑا کیا ہے، کچھ بعید نہیں کہ ڈاکٹرز کے خدشات اور پریشانی ہمیں عملی سطح پہ نظر آنا شروع ہو جائے۔
ہم نے ڈاکٹرز کی ہدایات اور خدشات مکمل طور پر نظر انداز کر دیے ہیں۔ ہم نے ان سپاہیوں کی بات سننا چھوڑ دی ہے جو ہمارے فرنٹ لائن وارئر ہیں۔ ہم اگر اپنے فرنٹ لائن وارئرز پہ ہی بھروسا نہیں کریں گے، تو ہم کیسے توقع کر سکتے ہیں کہ وہ کرونا جیسے دشمن سے لڑ سکیں گے؟
ہم یہ تو توقع کر رہے ہیں کہ وہ ہمارے لیے کرونا کے خلاف لڑیں، لیکن ہم اس کے ساتھ ساتھ انہیں فیصلہ سازی میں شامل کرنے کو تیار بھی نہیں۔
سڑکوں پہ اکا دکا گاڑیوں کے بعد اس وقت عملاً ٹریفک جام کی صورتحال ہوگئی ہے۔ پبلک ٹرانسپورٹ میں ہر طرح کے ایس او پیز کی دھجیاں اڑانا شروع کر دیا گیا ہے۔ مخصوص دکانوں کے بعد رفتہ رفتہ چھوٹی مارکیٹیں کھل چکی ہیں اور اب بڑے شاپنگ مالز کھلنے کی نوید بادلِ نخواستہ سننے کو مل رہی ہے۔ کچھ بعید نہیں کہ کچھ دن میں یہ بھی ہو جائے گا۔
عیدالفطر پہ ہم نے کھل کے شاپنک کی اور نتیجہ ہر چوبیس گھنٹے میں مریضوں کی بڑھتی تعداد کی صورت میں سامنے آنا شروع ہوگیا۔ عید الاضحی پہ بھی ہم خوب جانوروں کے ساتھ سیلفیاں بنائیں گے، منڈیاں سجیں گی۔
عوام کا ہجوم بتا رہا ہے کہ وہ کرونا کو ایک مذاق سے بڑھ کے کچھ سمجھنے کو تیار نہیں، لیکن واحد ہمارے فرنٹ لائن پہ کھڑے سفید کوٹ پہنے سپاہی ہیں جو حقیقت کا ادراک رکھتے ہیں، جو جانتے ہیں کہ معاملات کس نہج پہ جا سکتے ہیں۔
خدا سے یہی دعا ہے کہ حالات ان کے خدشات کے برعکس بہتر ہی رہیں۔ لیکن اگر ایسا نہ ہوا اور ’’لاک ڈاؤن‘‘ کو عملاً ختم کرنے کے بعد وبا نے حقیقت میں وبائی صورتحال اختیار کرلی، تو اموات کا ذمہ دار کون ہو گا؟
یہ ایک ایسا سوال ہے جس کا جواب دینے کو کوئی تیار نہیں۔
…………………………………………….
لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com یا amjadalisahaab@gmail.com پر اِی میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔