جیسے جیسے پاکستان کے عام انتخابات کی اُلٹی گنتی تیزی سے الیکشن کے قریب پہنچ رہی ہے، ایسا لگتا ہے کہ قوم پر ایک غیر معمولی بے سکونی چھاگئی ہے۔ اسے بے یقینی کی بد ترین صورتِ حال بھی کہا جاسکتا ہے۔ کیوں کہ قیاس آرائیوں کا زور اور الیکٹ ایبلز کی سیاست نے سیاسی ماحول پر جمود طاری کردیا ہے۔
قادر خان یوسف زئی کی دیگر تحاریر پڑھنے کے لیے نیچے دیے گئے لنک پر کلک کیجیے:
https://lafzuna.com/author/qadar-khan-yousafzai/
2024ء کے مقابلے میں پچھلے انتخابی موسموں کے برعکس، سیاسی اشتہارات، متحرک پوسٹر اور پُرجوش انتخابی ریلیاں خاص طور پر منظر نامے سے غائب ہیں۔ سڑکیں، چوراہوں اور میڈیا آوٹ لیٹس جو کبھی مختلف سیاسی جماعتوں کے نشانات اور نعروں سے گونجتے تھے، اب خاموشی کا مظاہرہ کرتے دکھائی دیتے ہیں۔ ہر ایک کے ذہن میں یہ سوال ہے کہ کیوں……؟
ماضی کی جان دار اور پُرجوش مہمات کے برعکس پاکستان میں موجودہ انتخابی سیزن ایک دبنگ ماحول سے محروم نظر آرہا ہے۔ اب اسے یہ تو نہیں کہا جاسکتا کہ الیکشن کمیشن کی جانب سے کسی ضابطۂ اخلاق کی پابندی ہو رہی ہو، بلکہ بینرز اور پوسٹرز، جو کبھی سڑکوں اور چوراہوں پر ہر جگہ نظر آتے تھے، اُن کی تعداد واضح طور پر کم ہے۔
الیکٹرانک اور پرنٹ میڈیا، جو کسی زمانے میں چمگادڑوں کی آوازوں، شیروں کی دھاڑ اور تیروں کے نشانے والے سیاسی اشتہارات سے بھرا ہوا تھا، خاص طور پر خاموش ہیں۔
انتخابی ماحول کی سب سے بڑی سرگرمی میں سب سے نمایاں فرق روایتی سیاسی جلسوں کی غیر موجودگی ہے، جسے ’’ جلسوں‘‘ اور عظیم الشان جلوسوں کے نام سے جانا جاتا ہے، جو عوام کی توجہ اپنی طرف کھینچ لیتے تھے۔
ماضی میں، انتخابات کی دوڑ میں پُرجوش اجتماعات، پُرجوش حامیوں اور پارٹی کے رنگوں کا ایک متحرک مظاہرہ دیکھا گیا۔ تاہم، اس بار، بڑے پیمانے پر واقعات کی عدم موجودگی نے پاکستانی انتخابات سے وابستہ معمول کے جوش و خروش میں ایک خلا چھوڑ دیا ہے۔ سرد موسم میں ووٹروں اور سیاسی جماعتوں کی سرگرمیوں کا سرد ہونے کا براہِ راست واسطہ ایسے معروف سیاست دان بھی ہیں، جنھوں نے اپنے بیانات میں الیکشن کی تاریخ آگے بڑھانے اور بالخصوص سینیٹ میں انتخابات کی تاخیر کے حوالے سے قرارداد کی منظور ی جیسے عوامل نے سیاسی ماحول کو شدید متاثر کیا ۔
عام انتخابات میں دو ہفتے سے بھی کم وقت باقی ہے، سیاسی کارکنوں اور عام عوام دونوں میں کم جوش کا احساس چھایا ہوا ہے۔ انتخابی مہم کی سرگرمیاں نظر نہ آنے سے سیاسی جماعتوں کی حکمت عملیوں اور ترجیحات پر سوالات اٹھتے ہیں۔ سرگرمیوں سے بھرے انتخابی دفاتر کی کمی اور سڑکوں پر سیاسی گفت گو میں مصروف لوگوں کی دبنگ موجودگی ماضی کے انتخابی چکروں میں دیکھنے والی پُرجوش مصروفیت سے الگ ہونے کا اشارہ دیتی ہے۔
دیگر متعلقہ مضامین:
الیکشن 2024 بارے خفیہ اداروں کی رپورٹ 
سوات، قومی اسمبلی کے تینوں حلقوں کا جائزہ  
انتخابات اور شک کے منڈلاتے سائے   
الیکشن ٹریننگ میں کروڑوں کا گھپلا  
الیکشن ایکٹ 2017، جرائم اور سزائیں  
اس انتخابی سیزن کی غیر معمولی خاموشی میں کئی عوامل اہم کردار ادا کر رہے ہیں۔ ایک قابلِ فہم وضاحت ڈیجیٹل مہم کا اُبھرتا ہوا منظر نامہ ہے۔ سوشل میڈیا کے زیرِ تسلط دور میں، سیاسی جماعتیں اپنی توجہ اور وسائل کو آن لائن پلیٹ فارمز کی طرف موڑ رہی ہیں۔ سیاسی جماعتیں ہدفی پیغامات کے ساتھ وسیع تر سامعین تک پہنچ رہی ہیں۔
مزید برآں، موجودہ سماجی و سیاسی آب و ہوا اور معاشی چیلنجز جیسے بیرونی عوامل موجودہ انتخابی دور کی دبی ہوئی نوعیت کو متاثر کر رہے ہیں۔
اہم مسائل پر قوم کی اجتماعی توجہ سیاسی مہمات سے وابستہ روایتی شان و شوکت سے توجہ ہٹا رہی ہے ۔
جیسے جیسے سیاسی منظر نامے عام انتخابات کے ایک اور دور کے لیے تیار ہو رہے ہیں، ایک لطیف لیکن اہم تبدیلی بھی جاری ہے۔ تجربہ کار سیاست دانوں کا روایتی گڑھ، جنھیں اکثر ’’الیکٹ ایبلز‘‘ کہا جاتا ہے، کو نوجوان ووٹروں کی متحرک قوت کی جانب سے بے مثال چیلنج کا سامنا ہے۔ اگرچہ ان تجربہ کار اُمیدواروں کی انتخابی صلاحیت کئی دہائیوں سے ناقابلِ تسخیر ہے، تبدیلی کی ہواؤں کی فضا سست ہے، تاہم، سیاسی بیانیہ کی تشکیل میں نوجوانوں کا کردار تیزی سے واضح ہوتا جا رہا ہے۔ سیاسی سرگرمیوں میں کمی کی ایک وجہ یہ بھی قرار دی جارہی ہے۔
برسوں سے ، سیاسی جماعتوں نے ثابت شدہ ٹریک ریکارڈ کے حامل امیدواروں پر انحصار کیا ہے، جو اکثر دہائیوں پر محیط انتخابی فتوحات کا مترادف ہے۔ ان ’ ’الیکٹ ایبلز‘‘ کو ایک محفوظ شرط کے طور پر دیکھا جاتا ہے، جو پارٹی کے لیے کامیابی کی ضمانت ہے۔ کمیونٹیز کے اندر ان کے گہرے روابط اور مقامی سیاست کے پیچیدہ جال کے بارے میں ان کی سمجھ نے انھیں مضبوط دعوے دار بنا دیا ہے۔ سیاسی ماحول میں عام ووٹر ز پر تکیہ کرنے کا عمل عام و روایتی سیاست کو متاثر کر رہا ہے۔
حالیہ دنوں میں سیاسی پلے بک میں ایک نیا باب بھی لکھا جا رہا ہے اور نوجوان ووٹر مرکزی کردار کے طور پر ابھر رہے ہیں۔ ہماری قوم کے متنوع تانے بانے میں پھیلے ہوئے یہ نوجوان مختلف پس منظر، شہری اور دیہی، تعلیم یافتہ اور کم تعلیم یافتہ ہیں۔ اگرچہ یہ سچ ہے کہ وہ یکساں سیاسی جھکا رکھنے والا یک سنگی گروہ نہیں ہیں، لیکن ان کے اجتماعی اثرات کو نظر انداز نہیں کیا جاسکتا۔ تقریباً 30 فی صد نوجوان ووٹرز ایسے انتخاب کر رہے ہیں جو اپنے والدین اور بزرگوں کی سیاسی وابستگیوں سے ہٹ کر ہوتے ہیں۔ یہ تبدیلی، اگرچہ عالمگیر نہیں، لیکن نوجوانوں میں بدلتے ہوئے سیاسی شعور کی نشان دہی کرتی ہے۔ سیاسی ماحول میں نوجوانوں کا بدلتا رجحان روایتی سیاست دانوں سے عدم دلچسپی کا شکار ہے اور یہ بھی ایک اہم وجہ ہے کہ نوجوان اپنی صفوں میں نوجوانوں کو ہی دیکھنا چاہتا ہے ۔
سیاسی منظر نامہ یک جہتی نہیں، اور نوجوان ووٹروں میں تنوع انتخابی سیاست پر ان کے ردِ عمل سے ظاہر ہوتا ہے۔ شہری نوجوان، جو اکثر نظریات اور عالمی تناظر کی وسیع رینج کے سامنے آتے ہیں، ترقی پسند نظریات کی طرف جھکے ہوئے ہیں۔
دوسری طرف دیہی نوجوان، جو کہ مقامی روایات میں گہرائی سے جڑے ہوئے ہیں، ان امیدواروں کے ساتھ گونج پاسکتے ہیں جن کی نچلی سطح پر موجودگی مضبوط ہے۔ تعلیمی سپیکٹرم مساوات میں مزید پیچیدگی کا اضافہ کرتا ہے۔ تعلیم یافتہ نوجوان، معلومات تک رسائی اور متنوع نقطۂ نظر کے ساتھ، پالیسی پوزیشن کی بنیاد پر امیدواروں کی جانچ پڑتال کر رہے ہیں۔
اس طرح کم تعلیم یافتہ نوجوان اپنے انتخابی انتخاب میں واقفیت اور مقامی رابطوں کو ترجیح دے سکتے ہیں۔ نوجوان ووٹروں کے رویے کی پیش گوئی کرنا ایک زبردست چیلنج ہے، ان الیکٹ ایبلز کے برعکس جن کے پاس ووٹر کی اچھی بنیاد ہے ، نوجوانوں کا ووٹ سیال اور غیر متوقع ہے۔ یہ انتہائی غیر متوقع ہے جو مستقبل کے انتخابات میں گیم چینجر ثابت ہوسکتی ہے۔ جیسے جیسے سیاسی جماعتیں آیندہ انتخابات کے لیے حکمت عملی بنا رہی ہیں، یہ احساس تیزی سے واضح ہوتا جا رہا ہے کہ نوجوانوں کا ووٹ ایک ایسی قوت ہے جو سیاسی ماحول کی سرگرمیوں کا ماحول دلچسپ بنا سکتا ہے۔
……………………………………
لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com یا amjadalisahaab@gmail.com پر اِی میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔