ایک خبر کے مطابق خفیہ اداروں نے الیکشن 2024ء کے حوالے سے جو حالیہ رپورٹ مرتب کی ہے، اُس کے مطابق مسلم لیگ ن پہلے نمبر پر آ رہی ہے۔
رپورٹ کے مطابق ممکنہ طور پر مسلم لیگ ن پنجاب میں 141 میں سے 85 سیٹیں جیت سکتی ہے، جب کہ دیگر تین صوبوں سے اُس کی جیتی جانے والی سیٹوں کی تعداد 25 ہوسکتی ہے۔
رفیع صحرائی کی دیگر تحاریر پڑھنے کے لیے نیچے دیے گئے لنک پر کلک کیجیے:
https://lafzuna.com/author/rafi/
اس طرح ن لیگ کی اتحادی ’’استحکامِ پاکستان پارٹی‘‘ کے بارے میں رپورٹ ہے کہ وہ سیٹ ایڈجسٹمنٹ کے تحت ملنے والی اپنی تمام 6 سیٹوں پر کامیابی حاصل کرلے گی۔
یہ انتخابی اتحاد ہے۔ ضروری نہیں کہ ن لیگ کے ساتھ وہ حکومتی اتحاد بھی بنالیں۔ کسی اور کی حکومت بنتی نظر آئی، تو یقینا آئی پی پی اُدھر کا رُخ اختیار کرے گی۔ یوں ممکنہ طور پر پورے پاکستان سے مسلم لیگ ن 110 سیٹیں لے جانے میں کامیاب ہوسکتی ہے…… یعنی اس رپورٹ کے مطابق حکومت بنانے کے لیے تمام تر کوششوں اور سہولتوں کے باوجود مسلم لیگ ن اکیلی حکومت بنانے میں کامیاب نہیں ہو سکے گی۔
رپورٹ کے مطابق پنجاب اور ملک بھر میں دوسرے نمبر پر قومی اسمبلی کی سیٹیں آزاد امیدواران جیتنے میں کامیاب ہوں گے، جب کہ آزاد جیتنے والوں میں پہلا نمبر پی ٹی آئی کے اُمیدواروں کا ہوگا اور حکومت سازی کے لیے اصل کھیل یہیں سے شروع ہوگا۔ ممکنہ طور پر جناب جہانگیر ترین کا جہاز ایک مرتبہ پھر اُڑانیں بھرے گا۔
اَب کی بار آزاد حیثیت سے جیتنے والوں کے گلے میں مسلم لیگ ن کا سبز پٹکا ڈالا جائے گا اور کھینچ تان کر یہ تعداد 180 سے 190 کے درمیان کرنے کی کوشش کی جائے گی۔ ہوسکتا ہے کہ اپنا سیاسی وزن بڑھانے کے لیے جہانگیر ترین دو چار دانے اپنی پارٹی میں بھی شامل کرنے میں کامیاب ہوجائیں۔
کہا جا رہا ہے کہ تیسرے نمبر پر پاکستاب پیپلز پارٹی کے آنے کے امکانات ہیں۔ ممکنہ طور پر یہ پارٹی 70 سیٹیں نکالنے میں کامیاب ہوسکتی ہے۔ پنجاب سے اسے 15 سیٹیں مل سکتی ہیں۔ اگر پنجاب میں اسے 15 سیٹیں مل گئیں، تو یہ ایک بڑی کامیابی گنی جائے گی…… اور اسے عرصے بعد پیپلز پارٹی کی پنجاب میں کامیاب واپسی کے سفر سے تعبیر کیا جائے گا۔
یہ رپورٹ صرف موجودہ رجحان، سیاسی حالات اور اندازوں پر مبنی ہے۔ الیکشن میں ابھی تین ہفتے باقی ہیں۔ یہاں گھنٹوں میں سیاسی ہوا کا رُخ تبدیل ہو جایا کرتا ہے۔ ممکن ہے کہ حالات تھوڑا تبدیل ہوں اور مسلم لیگ ن مزید بہتر پوزیشن میں آ جائے۔ ہو سکتا ہے بلاول زرداری کی پرفارمنس انہیں مزید سیٹیں دلوا دے۔
جہاں تک انتخابی مہم کا تعلق ہے، تو اس وقت بلاول بھٹو سب سے آگے جا رہے ہیں۔ اُنھوں نے جس طرح سے مسلم لیگ ن اور نواز شریف کو نشانے پر لے رکھا ہے، اُس سے بخوبی اندازہ ہو رہا ہے کہ مستقبل میں حکومت سازی کے موقع پر وہ مسلم لیگ ن کے حلیف نہیں ہوں گے۔ وہ پوری کوشش کریں گے کہ اتحادیوں کو ساتھ ملا کر مرکز میں پیپلز پارٹی کی حکومت بنانے میں کامیاب ہو جائیں۔ ایسا ہونا ناممکن بھی نہیں۔ الیکشن کے بعد جب بلاول کا کام ختم ہوگا، تو جناب آصف زرداری کا کام شروع ہوجائے گا۔ پاکستانی سیاست میں جوڑ توڑ اور مفاہمت کی سیاست کے لحاظ سے اُن کا کوئی ثانی نہیں۔
دیگر متعلقہ مضامین:
جنرل ضیا کے پاکستانی سیاست پر اثرات  
آئرن لیڈی شہید محترمہ بے نظیر بھٹو  
انتخابات اور شک کے منڈلاتے سائے  
انتخابات کے لیے ضابطۂ اخلاق برائے قومی میڈیا  
تحریک انصاف والے، باہر شیر اندر ڈھیر
یہ بھی حقیقت ہے کہ میاں نواز شریف کے مقابلے میں اسٹیبلشمنٹ جناب آصف زرداری کے ساتھ زیادہ کمفرٹیبل محسوس کرتی ہے۔ اس لیے الیکشن کے بعد حکومت سازی کے لیے بڑی دل چسپ صورتِ حال پیدا ہوجائے گی۔ بلاول بھٹو نے بہت سوچ سمجھ کر ن لیگ کو نشانے پر رکھا ہوا ہے۔ دشمن کا دشمن ہمیشہ دوست گردانا جاتا ہے۔ پی ٹی آئی اور پیپلز پارٹی کا مشترکہ سیاسی حریف مسلم لیگ ن ہے۔ یہ عین ممکن ہے کہ الیکشن کے بعد اُن دونوں کا حکومت سازی کے لیے اتحاد بن جائے۔ اگر ایسا ہوگیا، تو مسلم لیگ ن انتخابات میں ممکنہ طور پر پہلی پوزیشن حاصل کرنے کے باوجود حکومت سازی کے مرحلے پر اپوزیشن میں جا سکتی ہے۔
سیاسی اور انتخابی صورتِ حال پر پڑی گرد آہستہ آہستہ چھٹ رہی ہے۔ بلاول بھٹو زرداری کے مقابلے میں مسلم لیگ ن کی انتخابی مہم تاحال پھیکی اور بے جان ہے۔ میاں نواز شریف، میاں شہباز شریف اور حمزہ نواز زیادہ فعال اور متحرک نہیں۔ صرف مریم نواز ہی انتخابی ماحول کو گرمائے ہوئی ہیں۔ حافظ آباد میں میاں نواز شریف کا مختصر خطاب اور لیہ کا جلسہ منسوخ کرنا بھی سوال اُٹھا رہا ہے۔ عمران خان نے کمرۂ عدالت میں صحافیوں سے بات کرتے ہوئے میاں نواز شریف کے جلسوں کو جلسیاں قرار دیتے ہوئے چیلنج کیا کہ اُنھیں الیکشن سے پہلے صرف ایک جلسہ کرنے کی اجازت دی جائے اور پھر دیکھیں کہ حالات کیا رُخ اختیار کرتے ہیں۔
ظاہر ہے عمران خان کا مطالبہ نہیں مانا جائے گا۔ وفاقی وزیرِ اطلاعات و نشریات مرتضیٰ سولنگی نے اُن کے چیلنج کے جواب میں واضح کیا ہے کہ عمران خان کو سزا ہو چکی ہے اور کوئی بھی ملک سزا یافتہ مجرموں کو میڈیا تک رسائی نہیں دیتا…… مگر یہ بھی حقیقت ہے کہ میاں نواز شریف ابھی تک ملک کے معاشی حالات کو سنبھالنے اور ترقی کی جانب گام زن کرنے کے لیے کوئی لائحہ عمل نہیں دے سکے۔ اُن کی تقاریر اور بیانات میں سابقہ کامیابیوں اور عمران خان کی ناکامیوں ہی کا ذکر ہوتا ہے۔
اس حوالے سے سینیٹر عرفان صدیقی کا کہنا ہے کہ مسلم لیگ ن کا منشور 27 جنوری کو پیش کیا جائے گا۔ ممکن ہے کہ اُس کے بعد میاں نواز شریف کوئی بیانیہ بناکر انتخابی مہم کو آگے بڑھائیں۔ فی الحال تو انتخابی میدان میں اکیلے بلاول بھٹو ہی ڈٹے ہوئے ہیں، جو عمران خان کے بعد نوجوانوں کی توجہ حاصل کرتے نظر آ رہے ہیں۔
گذشتہ روز لاہور میں ایک جلسے کے خطاب کے دوران میں بلاول بھٹو نے پی ٹی آئی ورکرز کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ ن لیگ پوری طاقت سے ان پر ظلم کر رہی ہے۔ بلاول بھٹو نے پی ٹی آئی والوں سے اپیل کی کہ وہ اُنھیں ووٹ دے کر کامیاب کروائیں۔ ظاہر ہے پی ٹی آئی کے ووٹرز اس موقع پر تو اُن کی بات نہیں مانیں گے۔
ایک اور بات بھی یاد رہے کہ جہاں انتخابی مہم کی اپنی ایک خاص اہمیت ہے، وہیں پر الیکشن ڈے اصل اہمیت کا حامل ہے۔ اس دن کی پرفارمنس الیکشن میں ہار اور جیت کا فیصلہ کیا کرتی ہے۔ جو بہتر پرفارم کرے گا، وہ جیت جائے گا۔ سیاست دانوں سے مایوس ووٹروں کو جو پارٹی یا امیدوار گھروں سے نکال پائے گا، جیت کا سہرا اس کے سر پر سج جائے گا۔
اس مرتبہ آر ٹی ایس سسٹم استعمال نہیں کیا جا رہا، جسے بٹھا کر نتائج تبدیل کیے جا سکتے ہیں۔
……………………………………
لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com یا amjadalisahaab@gmail.com پر اِی میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔