الیکشن کمیشن آف پاکستان نے عام انتخابات 2024ء کے لیے انتخابی عملے کی ٹریننگ کا سلسلہ شروع کر رکھا ہے۔ بعض اضلاع میں یہ ٹریننگ مکمل ہو چکی ہے۔ الیکشن کمیشن کے نوٹیفکیشن کے مطابق 12 جنوری تک تمام عملے کی ٹریننگ مکمل ہوچکی ہوگی۔ قریباً ساڑھے 9 لاکھ افراد پر مشتمل عملہ ان انتخابات میں پریذائیڈنگ آفیسر، اسسٹنٹ پریذائیڈنگ آفیسر اور پولنگ آفیسر کے طور پر اپنی خدمات سرانجام دے گا۔ سیکورٹی پر مامور عملہ اس کے علاوہ ہوگا۔ تربیتی پروگرام کے دوران میں غیر حاضر رہنے والے افراد کو شوکاز نوٹس جاری کرتے ہوئے اُن کے خلاف سخت تادیبی کارروائی عمل میں لائی جا رہی ہے۔
رفیع صحرائی کی دیگر تحاریر پڑھنے کے لیے نیچے دیے گئے لنک پر کلک کیجیے:
https://lafzuna.com/author/rafi/
دیکھا جائے، تو اس ٹریننگ کی خاص ضرورت نہیں تھی۔ کیوں کہ گذشتہ سال جون میں سرکاری ملازمین یہی ٹریننگ کرچکے ہیں۔ موجودہ ٹریننگ اور گذشتہ حاصل کی گئی ٹریننگ میں زیر زبر کا فرق بھی نہیں۔ وہی باتیں اور قواعد و ضوابط بتائے گئے جو گذشتہ ٹریننگ بلکہ ہر ٹریننگ میں بتائے جاتے ہیں۔ پچھلی ٹریننگ کے موقع پر معاوضے کے طور پر شرکا کو ایک ہزار روپے فی کس ادا کیے گئے تھے۔ یوں 70 سے 80 کروڑ روپے اس ٹریننگ پر خرچ کیے گئے۔ موجودہ ٹریننگ کو ہاف ڈے ٹریننگ کا نام دیا گیا۔ دن میں دو سیشن رکھے گئے۔ پہلا سیشن صبح 9 سے دوپہر 12 بجے تک اور دوسرے سیشن میں ٹریننگ کرنے والوں کے لیے دوپہر 1 سے 4 بجے تک کا وقت مقرر کیا گیا ہے۔ اس مرتبہ الیکشن ٹریننگ میں حصہ لینے والوں کے لیے مبلغ 200 روپے فی کس سٹیشنری کی مد میں اور مبلغ 400 روپے ریفرشمنٹ کی مد میں الیکشن کمیشن کی جانب سے جاری کیے گئے۔ یعنی فی کس 600 روپے ٹریننگ منتظمین کو ادا کیے گئے۔ یوں لگتا ہے کہ اس ٹریننگ کا مقصد ہی ان 600 روپوں میں گھپلا کرکے کروڑوں روپے کی دہاڑی لگانا ہے۔
سٹیشنری میں گائیڈ بک کے علاوہ 2 عدد عام سے بال پین، 2 عدد کچی پنسلیں، ایک عدد شارپنر اور ایک عدد ریزر کے علاوہ چند صفحات پر مشتمل نوٹ بک شامل ہے۔ کئی جگہوں پر یہ پوری سٹیشنری مہیا نہیں کی گئی۔ بعض جگہ پر تو صرف ایک بال پوائنٹ اور ٹرانس پیرنٹ پاؤچ پر ٹرخا دیا گیا، جن کی کل مالیت 30 روپے سے زاید نہ ہوگی۔ ویسے بھی ربڑ، شارپنر اور کچی پنسلوں کی ضرورت نہ تھی۔ بال پین بھی ایک ہی سے کام چل جانا تھا، لیکن کمائی کرنے کے لیے اتنی آئٹم دکھانا ضروری ہوتا ہے۔ ظاہر ہے سٹیشنری کا ٹھیکا کروڑوں میں دیا گیا ہوگا۔ ایسے ٹھیکوں میں جس طرح کا سامان مہیا کیا جاتا ہے، وہ بھی سب کو معلوم ہے۔ کمیشن کے چکر میں معیار پر سمجھوتا ہو ہی جاتا ہے۔ رقم عوام کے خون پسینے کی کمائی سے دیے گئے ٹیکسوں سے ادا ہوتی ہے۔ کون سا کسی کی جیب سے جاتی ہے؟ـاس رقم کا درد کیسے کسی کو ہو سکتا ہے……!
دیگر متعلقہ مضامین:
الیکشن ایکٹ کے تابع نشان کا حصول کیسے کیا جاتا ہے؟
الیکشن ایکٹ 2017ء کے تحت الیکشن کمیشن کے افعال
انٹرا پارٹی الیکشن، قانونی تقاضے اور غیر جمہوری رویے
الیکشن کمیشن آف پاکستان اور انتخابات کا شفاف عمل
اب آ جاتے ہیں ریفریشمنٹ کی طرف۔ فی ٹرینی 400 روپے اس کے لیے مختص کیے گئے ہیں۔ دن کے کھانے کے لیے مبلغ 400 روپے ایک معقول رقم ہے۔ بندہ ان روپوں میں معیاری قسم کا کھانا کھاسکتا ہے…… لیکن یہ اُسی صورت میں ممکن تھا، جب یہ 400 روپے ٹریننگ کرنے والے اسسٹنٹ پریذائیڈنگ آفیسرز اور پولنگ آفیسرز کو نقد ادا کیے جاتے۔ الیکشن کمیشن نے ایسا نہیں کیا، بلکہ ان 400 روپوں میں ہر ٹرینی کے لیے اس سرد موسم میں آدھ پاؤ فی کس یخ بستہ چاولوں کا اہتمام کیا تھا۔ جو لوگ چاول نہیں کھاتے، اُنھوں نے بھاگتے چور کی لنگوٹی سمجھتے ہوئے یہ ’’نیاز‘‘ اپنے بچوں کے لیے رکھ لی۔ کئی اُن ٹھنڈے چاولوں کو کھا کر وہیں بیمار ہوگئے۔ ہر ٹرینی کو آدھ پاؤ چاولوں کا ڈبا نیاز ہی کی طرح اُن کے ہاتھوں میں پکڑایا گیا۔ جیسے وہ مساکین تھے۔ کیا ہی اچھا ہوتا کہ اسی عمارت کے کسی ہال میں ٹیبل لگا کر انتظامیہ باعزت طریقے سے اُن ٹرینی حضرات کو کھانا کھلاتی جن میں زیادہ تعداد اساتذہ کی تھی۔ کیا الیکشن کمیشن کے افسر اور ملازمین اور ضلعی انتظامیہ کے افسر اور ملازمین اس قسم کی ریفرشمنٹ اور اس کے پیش کیے گئے انداز کو اپنے لیے قبول کرسکتے ہیں؟ حیرت تو اُن ملازمین پر بھی ہے، جنھوں نے اس تضحیک پر احتجاج نہیں کیا۔ اگر پہلے ہی دن احتجاج ہو جاتا، تو شاید صورتِ حال بہتر ہو سکتی تھی۔
سوال تو پیدا ہوتا ہے کہ ہر ٹرینی کو مبلغ 50 روپے کے چاول مہیا کرنے کے بعد فی کس 350 روپے کی بچت کس کی جیب میں گئی؟ یہ ٹریننگ تحصیل سطح پر منعقد ہوئی ہے اور ہر سنٹر میں اوسطاً 7 تا 10 ہزار لوگوں نے شرکت کی ہے۔ ہر جگہ پر صورتِ حال یکساں رہی ہے۔ دس ہزار لوگوں کے کھانے میں جو قریباً 30 سے 35 لاکھ روپے فی سنٹر بچت ہوئی ہے، وہ رقم کس کی جیب میں گئی ہے؟ اس کا حساب ہوناچاہیے۔ شرکا کو الیکشن کمیشن کی جانب سے مہیا کی گئی سٹیشنری میں سے جو سٹیشنری کاریگری سے بچا لی گئی، وہ کہاں بیچی گئی اور وصول شدہ رقم کس کی جیب میں گئی؟
یہ ہماری بدقسمتی ہے کہ عوام کے ٹیکسوں سے اکٹھی کی گئی رقم کو اندھے کی ریوڑیاں بنا لیا جاتا ہے۔ حق داروں تک اس کا معمولی حصہ پہنچنے دیا جاتا ہے۔ بڑا حصہ درمیان ہی میں کسی مقام پر غائب کر دیا جاتا ہے۔ الیکشن 2024ء کے پہلے مرحلے ہی میں خزانے کو کروڑوں کا ٹیکا لگ گیا ہے۔
……………………………………
لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com یا amjadalisahaab@gmail.com پر اِی میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔