مارکس ازم اور قومی سوال

Blogger Hamza Nigar

قومی سوال کی بحث 20ویں صدی میں شروع ہوئی جس کا مقصد ’’نیشن‘‘، ’’نیشنل ازم‘‘ اور اس کے ساتھ جڑے مسائل کو منظرِ عام پہ لانا تھا۔ 1648ء میں ’’ٹریٹی آف ویسٹ فیلیا‘‘ (The Treaty of Westphalia) میں قوم کا ایک نیا نقطۂ نظر سامنے آیا۔ یہ معاہدہ کیتھولکس اور پروٹسٹنٹس کے بیچ 30 سال لڑائی کے بعد سائن کیا گیا۔ اس معاہدے کے بعد چرچ کی اجارہ داری ختم ہوئی اور "Independent Secular Territorial Units” اور نیشن سٹیٹ کا تصور سامنے آیا۔
’’ٹریٹی آف ویسٹ فیلیا‘‘ کے بعد یورپ کی بیش تر اقوام جو کہ اس سے پہلے کسی خاص جغرافیہ کے بہ جائے مختلف جگہوں پر بکھری تھیں، یک جا ہوکر ایک قوم بنیں۔ اس کی مثالیں 1861ء کا "Italian Unification” اور 1871ء کا "German Unification” تھیں۔
قومی سوال کی بحث پچھلی صدی میں مارکسی دانش وروں نے پھر سے شروع کی۔ شروعات میں کارل مارکس اور فریڈرک اینگلز، نیشنل ازم کو "Class Solidarity” کے راستے میں رکاوٹ اور اشرافیہ کی ایجاد سمجھتے تھے۔ مارکس کا فوکس مزدوروں پہ تھا۔ اسی وجہ سے اُس نے 1848ء میں کمیونسٹ مینی فیسٹو میں لکھا تھا کہ ’’دنیا کے مزدوروں ایک ہوجاؤ!‘‘ لینن نے اس جملے میں ترمیم کیا اور لکھا: ’’دنیا کے مزدوروں اور مظلوم اقواموں ایک ہوجاؤ!‘‘
قومی سوال پر سب سے زیادہ جوزف سٹالن نے لکھا۔ سٹالن نے 1913ء میں ’’مارکس ازم اور قومی سوال‘‘ کے نام سے ایک کتاب لکھی، جو آگے چل کر قومی سوال پر مارکسی نقطۂ نظر بن گئی۔ روسی مارکسسٹوں کے نزدیک قوم ایک تاریخی ارتقا کے عمل سے گزرتی ہے اور اس کے لیے ضروری ہے کہ اس کا ایک مشترکہ زبان، معیشت، جغرافیہ اور ایک جیسی نفسیاتی بناوٹ ہو۔ سٹالن کے نزدیک قوم ایک "Stable Community” ہوتی ہے۔ یہ نہ نسلی اور نہ قبائلی تاریخ ہی رکھتی ہے۔ "Modren French Nation” دراصل "Gauls”, "Romans”, "Britons” اور "Teutons” سے مل کر بنی ہے۔ اس طرح باقی یورپی اقوام بھی کئی نسلوں اور قبیلوں کے ایک ساتھ رہنے کا نتیجہ ہیں۔
قدیم دور میں قوم کا تصور نہیں تھا۔ نہ ’’سکندر‘‘ اور ’’سائرس‘‘ کے دور کے ایمپائرز کو قومیں کہا جاسکتا ہے۔ اِس کی وجہ اُس دور کی قبائلی ساخت اور جنگوں کے جیتنے اور ہارنے کی صورت میں لوگوں کی شناخت ہوتی تھی۔ جیسے کہ ہندوستان، جو کبھی بیرونی حملہ آوروں کی سلطنت کا حصہ ہوا کرتا تھا (جیسے کہ یونانی سیکیوکس کی ہندوستان پر حکومت) اور کبھی مقامیوں کا دورِ حکم رانی (چندرگپت موریہ)۔
سٹالن کے نزدیک قومیں دو طرح کی ہوتی ہیں۔ ایک ’’نیشنل کمیونٹی‘‘ جس کے لیے مشترکہ زبان لازم ہوتی ہے، جیسے کہ 20ویں صدی کا آسٹریا اور ایک ’’سٹیٹ کمیونٹی‘‘ جیسے کہ رشین ایمپائر جس میں مختلف زبانیں بولی جاتی ہیں…… لیکن ایک زبان مختلف جگہوں پر بولنے سے ایک قوم نہیں بن سکتی، جیسے کہ امریکن اور انگلش مین۔ یہاں سے قوم کہلوانے کے لیے جغرافیہ لازم ٹھہرا۔
بات جغرافیہ پر آکر نہیں رُکتی، اس کے لیے معیشت بھی ضروری ہے۔ جیسے کہ یورپ میں جاگیرداری کے خاتمے کے بعد سرمایہ دارانہ نظام نے لوگوں کو یک جا کیا۔ دور دراز علاقوں میں بسنے والے کسانوں کے ہاں قوم کا تصور ناپید تھا۔ وہی لوگ جب کارخانوں میں گئے، تو اُن میں ایک مشترکہ پن نے جنم لیا اور جس نے آگے چل کے قوم تشکیل دیا، جیسے کے جارجیہ، جو سرمایہ دارانہ نظام کے نتیجے میں آنے والی تبدیلی کی وجہ سے قوم کہلوایا۔
مشترکہ معیشت، زبان، جغرافیہ اور نفسیاتی بناوٹ وہ محرکات ہیں، جو ایک قوم بناتے ہیں۔ ان میں سے کسی ایک کا نہ ہونا بھی قوم نہیں بنا سکتا۔ ’’ناروے والے‘‘ اور ’’ڈنمارک والے‘‘ ایک زبان بولتے ہیں، لیکن باقی چیزیں مختلف ہونے سے یہ دونوں الگ الگ قومیں ہیں۔
کچھ مفکرین کے ہاں قوم کی تعریف میں ریاست کا ہونا بھی لازم ہے۔ سٹالن کے مطابق اگر ایسا ہے، تو پھر دنیا کی مظلوم اقوام (Colonised Nations) جن کے پاس اپنی ریاست نہیں، کیا وہ قومیں تصور نہیں ہوں گی؟ اگر ریاست کو قوم کا اہم جز سمجھا جائے، تو "National liberation” اور "National Movements” کا کوئی وجود باقی نہیں رہے گا۔ اس تعریف کے بعد آئرش قوم کیا "Irish Free State” بننے کے بعد قوم بنی تھی؟ یا یوکرین تب ایک قوم نہیں تھی جب وہ زار روس کا حصہ تھی…… اور جب سوویت روس سے الگ ہوئی، تو پھر قوم بنی؟ اسی طرح کیا ناروے ، سویڈن سے علاحدگی کے بعد قوم بنی تھی؟ قوم کی یہ تعریف سامراجی طاقتوں کی حکم رانی کا ایک جواز تھا۔ کیوں کہ اگر ریاست کے بغیر قوم نہیں ہوتی، تو جو محکوم ہے، وہ ایک قوم ہے ہی نہیں…… اور اسی طرح سامراجی طاقتوں کے پاس حاکمیت کا ایک جواز آجاتا ہے۔
’’میخائلوسکی‘‘ کے مطابق فیملی سے قبیلہ اور قبیلے سے ریاست بنتی ہے، لینن نے میخائلوسکی کے تھیسز کو اپنے پمفلٹ "Friends of people” میں بچکانہ قرار دیا تھا۔ لینن کے مطابق وہ ریاستیں جو جغرافیہ کے پھیلاو، اقلیتوں پر مظالم اور نو آبادیاتی سوچ کے حامل ہوں، وہ "Bourgeoisie Nations” ہوتی ہیں، جیسے کہ فرنچ، انگلش اور امریکہ۔
کارل کاوٹسکی نے قومیتوں کے لیے ایک آفاقی زبان کی اجارہ داری کی بات کی تھی۔ لینن نے کاوٹسکی سے بیش تر چیزوں کے علاوہ یہاں بھی اختلاف کیا ہے۔ لینن کے مطابق اکتوبر انقلاب نے بیش تر زبانوں کو پنپنے کا موقع دیا اور انقلاب کے بعد سوویت یونین میں کسی ایک زبان کی اجارہ داری نہیں رہی۔ لینن کے ہاں انقلاب کے بعد ایک ثقافتی انقلاب کی بھی ضرورت رہتی ہے۔ اس کے لیے سب سے ضروری تمام شہریوں کے لیے بلا تفریق پرائمری تعلیم ہے۔ اس کے بغیر صنعت، زراعت اور ترقی نا ممکن ہے۔ لینن تعلیم، پریس، تھیٹر اور سنیما کی ترویج مقامی زبانوں میں دینے کے حق میں تھا۔
قومی عدم اعتماد، قومی علاحدگی، دشمنی اور تنازعات قوموں کے اندر بہ ذاتِ خود موجود نہیں ہوتے، بل کہ یہ سامراجی قوتوں کا وہ رویہ جو باقی اقوام کو مغلوب کرتا ہے، وہاں سے جنم لیتے ہیں۔ جب تک سامراجی طاقتوں کا یہ رویہ رہے گا، ان تنازعات کو مزید پنپنے کا موقع ملے گا۔ کوئی بھی محکوم قوم کسی حاکم قوت کے ساتھ اُس وقت تک کوئی مساوی رشتہ استوار نہیں کرسکتی، جب تک سامراجی رویہ ترک نہیں کیا جاتا۔
……………………………………
لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com یا amjadalisahaab@gmail.com پر اِی میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے