انتخاب: توقیر احمد بُھملہ
پروفیسر آذر کی دعوت میں مختلف موضوعات پر باتیں ہوتی رہیں۔ پنجابی لطائف نے بھی بہت دلچسپی پیدا کر دی اور باتوں باتوں میں آذر صاحب نے سب سے مخاطب ہو کر سوال کیا کہ ہر شخص ایمان داری کے ساتھ بتائے کہ دہلی میں آکر اُس نے کیا کچھ حاصل کیا، یعنی علمی، مالی یا دوسرے اعتبار سے اُس نے دہلی میں آکر کیا فواید حاصل کیے؟
سب لوگوں نے بتانا شروع کیا۔ کسی نے کہا کہ اُس نے ایک لاکھ روپیا پیدا کیا۔ کسی نے بتایا کہ اُس نے علمی اعتبار سے یہ مدارج طے کیے۔ کسی نے ظاہر کیا کہ اُس نے فُلاں فُلاں ترقی اور پوزیشن حاصل کی۔
جب میری باری آئی، تو مَیں نے کہا، چوں کہ آپ لوگ سچ بتا رہے ہیں اور سچ پوچھ رہے ہیں، اس لیے مَیں سچ عرض کرتا ہوں کہ دہلی میں آنے کے بعد مالی اعتبار سے میرے قرضہ میں تو کئی گنا اضافہ ہوا، لیکن جب دہلی میں آیا تھا، تو بے حد مخلص اور مہمان نواز تھا…… مگر اب طبیعت میں کمینہ پن اور خود غرضی پیدا ہوچکی ہے۔ چناں چہ پہلے اگر کوئی دوست ایک دو روز کے لیے بھی آجاتا، تو اس کو کئی کئی ہفتے تک جانے نہ دیا جاتا۔ مہمان کی خدمت گزاری میں لطف اور حظ محسوس ہوتا۔ کئی بار ایسا ہوا کہ چھے چھے ماہ اور ایک ایک سال تک دوست مستقل مہمان کی صورت میں مقیم رہے اور ایک دوست مسٹر محسن (ایڈیٹر اودھ اخبار، لکھنو) جو بعد میں ایسوسی ایٹیڈ پریس میں ملازم ہوکر دہلی تشریف لائے تھے۔ غالباً دو سال تک بطورِ مہمان رہے اور جب بھی وہ اپنے لیے مکان لے کر رہنا چاہتے، تو اُن کو روک لیا جاتا۔
مگر اب کیفیت یہ ہے کہ اگر کوئی دوست دہلی میں تشریف لانے کی اطلاع خط یا تار کے ذریعہ دیتا ہے، تو مَیں سٹیشن نہیں جاتا، تا کہ وہ کسی دوسری جگہ قیام کرلے۔ اگر وہ پھر بھی آجائے، تو مہمان کی خدمت گزاری طبیعت پر بھاری محسوس ہوتی ہے اور اِس فرق کی وجہ دہلی کا پانی اور دہلی کی فضا ہے، جس کا اثر طبیعت پر ہوا۔ گو یہ تمام دوست خود بھی دہلی کی فضا کے اس اثر کو اپنے اندر محسوس کرتے تھے، مگر تعجب کا اظہار کر رہے تھے۔ کیوں کہ اُن کو یہ خیال بھی نہ تھا کہ مَیں اس کم زوری کا اقرار کروں گا۔ چناں چہ مَیں نے اس کے ثبوت میں تفصیل کے ساتھ اُن کو ذیل کے وہ واقعات بتائے جن کا میری ذات کے ساتھ تعلق تھا:
مَیں جب مانسہ (پٹیالہ) میں میڈیکل پریکٹس کرتا تھا۔ اُس زمانہ دہلی میں ایک شاعر منشی عبد الخالق خلیق رہتے تھے۔ اُن سے خط و کتابت تھی۔ اُن کے خط آیا کرتے کہ مَیں کبھی دہلی آؤں۔ چھے ماہ تک جب اُن کے خط آتے رہے اور اُنھوں نے دہلی آنے کے لیے بار بار لکھا، تو مَیں اُن سے ملنے کے لیے مانسہ سے دہلی آیا۔ مَیں دہلی اور دہلی کے لوگوں کے حالات سے قطعی نا واقف تھا اور یہ خیال بھی نہ تھا کہ اگر کوئی شخص کسی دوست کے بار بار لکھنے کے بعد ملنے کے لیے جائے، تو وہ دعوت دینے والے کے مکان پر نہ ٹھہرے۔ مَیں نے دہلی ریلوے سٹیشن پر اُترنے کے بعد تانگے میں سامان رکھوایا اور بازار لال کنوال میں پہنچا۔ وہاں گلی چابُک سواراں کے سرے پر تانگا والے سے یہ کَہ کر تانگا کھڑا رکھنے کے لیے کہا کہ مَیں ابھی آکر سامان لے جاتا ہوں۔ مَیں گلی چابُک سواراں کے اندر منشی عبد الخالق صاحب خلیق کے مکان پر پہنچا۔ خلیق صاحب کو آواز دی۔ اپنے دہلی آنے کی اطلاع پہلے دے چکا تھا۔ میری آواز سن کر خلیق صاحب مکان سے باہر نکلے اور بہت اخلاق اور تپاک سے ملے۔ خیر خیریت دریافت کرنے کے بعد آپ نے پوچھا کہ میرا قیام کہاں ہے؟ مَیں اس سوال کا کیا جواب دیتا! یہ خیال بھی نہ کر سکتا تھا کہ اگر کوئی شخص ڈیڑھ سو میل کا سفر کر کے ملنے کے لیے آئے، تو اُس سے پوچھا جائے گا کہ قیام کہاں ہے؟ کیوں کہ پنجاب میں اگر کوئی شخص کسی سے ملنے کے لیے جائے، تو یہ ہو نہیں سکتا کہ وہ ہوٹل یا سرائے میں ٹھہرے۔ میزبان اس کو اپنی توہین سمجھتا ہے اور تمام پنجاب میں ایک شخص بھی ایسا نہ ہوگا جو مہمانوں کو اپنے ہاں ٹھہرا کر لطف، حظ اور اپنی عزت محسوس نہ کرتا ہو۔
دیگر متعلقہ مضامین: 
دیوان سنگھ مفتون کی ایک پرانی تحریر 
عورت اور بناو سنگار  
خلیق صاحب کا یہ سوال سُن کر کہ مَیں کہاں ٹھہرا ہوں؟ مَیں کچھ حیران سا ہوگیا اور مَیں نے کھسیانا سا ہو کر جواب دیا کہ ایک ہوٹل میں ٹھہرا ہوں۔ چناں چہ اُن سے شام کو پھر ملنے کا وعدہ کرکے میں گلی سے باہر آیا اور تانگے والے سے کہا کہ کسی ہوٹل میں لے چلو۔ تانگے والا مجھے مہاراجہ ہوٹل میں لے گیا۔ جہاں مَیں نے قیام کیا اور شام کو خلیق صاحب کا نیاز حاصل کرنے کے لیے پھر اُن کے مکان پر آیا۔ وہ مجھے حکیم محمود علی خاں ماہر اکبر آبادی جو بعد میں دہلی میں آنریری مجسٹریٹ اور خطاب یافتہ خاں صاحب تھے، کے مکان پر لے گئے۔ جہاں ہم کچھ دیر بیٹھے اور علمی موضوع پر باتیں کرتے رہے۔ مَیں دو تین دن دہلی میں رہ کر اور دہلی دیکھ کر واپس مانسہ چلا آیا۔
یہ کیفیت تو مہمان نوازی کے متعلق دہلی کی فضا کی ہے۔ مَیں اس سے پہلے بتا چکا ہوں کہ مَیں جب دہلی آیا، تو مہمان نوازی کے اعتبار سے خالص طور پر پنجابی تھا اور دو دو چار چار دن کے عارضی مہمانوں کے علاوہ چھے چھے ماہ اور سال سال تک رہنے والے مستقل مہمان بھی ہوا کرتے اور دوپہر کو لنچ پر اور رات کو ڈنر پر آٹھ آٹھ دس دس اصحاب ضرور ہوتے۔ اگر کوئی مہمان جانا چاہتا، تو اُسے مختلف طریقوں سے یعنی گاڑی جانے کا وقت غلط بتاکر یا گھڑی کو پیچھے کر کے اُسے روک لیا جاتا اور گر کوئی مہمان آجاتا، تو دل کو مسرت سی محسوس ہوتی…… لیکن دہلی کے پانی اور یہاں کی فضا کا اثر آہستہ آہستہ ہوتا گیا۔
پروفیسر آذر صاحب کے ہاں ڈنر پارٹی والے دوستوں کو مَیں نے یہ واقعات بیان کرنے کے بعد بتایا کہ اگر دہلی کی فضا مہمان نوازی کے خلاف ہے، تو اس میں دہلی والوں کا قصور نہیں۔ یہ پانی کا اثر ہے۔ ہر دریا کے اندر مختلف اجزا ہوتے ہیں اور ان اجزا کا دل دماغ اور قویٰ پر اثر ہوتا ہے۔ چناں چہ ہندوستان میں سب سے زیادہ مہمان نواز صوبہ سرحد کے لوگ ہیں۔ اس کے بعد پوٹھوہار (راولپنڈی، جہلم) کے علاقہ کے لوگ، اُن سے کم گوجرانولہ، لاہور اور امرتسر کے لوگ اور ان سے کم لدھیانہ اور انبالہ کے لوگ۔ اس کے بعد نمایاں فرق شروع ہوتا ہے اور جہاں جہاں جمنا کا پانی سیراب کرتا ہے، وہاں مہمان نوازی کے اعتبار سے بالکل ہی صفائی ہے۔ چناں چہ پنجاب کے صوبہ کے لوگوں میں شاید اس بات کا یقین نہ کیا جائے گا کہ دہلی، لکھنو، اِلہ آباد اور بنارس وغیرہ میں پانی پلانے والے پانی کی قیمت ایک یا دو پیسا لے لیتے ہیں۔ حالاں کہ پنجاب میں پانی کی قیمت لینا ایک گناہ اور پاپ سمجھا جاتا ہے اور پانی پلانے والا چاہے کتنا بھی غریب ہو، پانی کی قیمت قبول نہیں کر سکتا۔
اگر اپنی کم زوری کا اظہار کرنا اس کم زوری کو رفع اور دل میں طہارت پیدا کرنے کا باعث ہوسکتا ہے، تو مَیں یہ صاف الفاظ میں اقرار کرتا ہوں کہ جمنا کے پانی کے باعث میں اس خوبی سے محروم ہوچکا ہوں جو اخلاص اور مہمان نوازی کے متعلق مجھ میں چند برس پہلے موجود تھی اور میرا یقین ہے کہ اگریو پی اور دہلی کے اصحاب بھی دس، پندرہ یا بیس برس پنجاب یا صوبہ سرحد میں قیام کریں، تو ان کے اندر مہمان نوازی کا وہ کیریکٹر پیدا ہو جائے گا، جو وہاں کے لوگوں میں موجود ہے۔ کیوں کہ اس کا سبب دریاؤں کے پانیوں کے اجزا ہیں، جو وہاں کثرت کے ساتھ موجود ہیں…… مگر جمنا اور یوپی کے دریا ان سے محروم ہیں۔
(دیوان سنگھ مفتون، ایڈیٹر ’’ریاست‘‘ اخبار، دہلی/ 1957ء)
……………………………………
لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com یا amjadalisahaab@gmail.com پر اِی میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔