ترجمہ: مجید امجد
بادشاہ رائین کے درباری شاعرنے ابھی شہزادی اجیتا کو نہیں دیکھا تھا۔ ایک دن جب اُس نے مہاراج کے حضور میں اپنی نئی نظم پڑھی، اس نے اپنی آواز کو کسی قدر بلند رکھا۔ تاکہ ہال کے اوپر محجب چھجے کے اندر بیٹھنے والوں کے کانوں کو اس کی آواز سنائی دے سکے۔ اُس نے قصیدہ پڑھا۔ اُس کے نغموں کی صدائے باز گشت ستاروں کی اس دنیا سے جاٹکرائی۔ جہاں اُس کی قسمت کا ستارا گوناگوں انوار سے گھرا ہوا چمک رہا تھا۔
وہ قصیدہ پڑھ رہا تھا۔ اُس نے محسوس کیا کہ چھجے کے آگے لٹکے پردوں کے پیچھے ایک متحرک سایہ ہے۔ دوسرے اُس نے چھن چھن کی مترنم آوازیں سنی اور وہ طلائی پازیبوں کے تصور میں کھو گیا ہو۔ قدم قدم پر بج رہے تھے۔ آہ! وہ گلاب کی پنکھڑیوں کے سے نازک پاؤں جو زمین پر اس طرح پڑ رہے تھے جیسے خدا کی رحمت گرے ہوؤں پر ہو…… اور وہ ان طلائی گھنگھروؤں کے تال پر گانے لگ گیا، لیکن وہ نہیں جانتا تھا کہ یہ سایہ کس کا تھا، جو پردے کے پیچھے اُسے متحرک نظر آتا تھا، وہ پازیب کیا تھی، جس کی چھنکار سے اس کے دل کی دھڑکن دبی جا رہی تھی۔
منجاری شہ زادی کی خادمہ ہر روز گجردم اُٹھ کر دیا کو جاتی۔ شاعر کا گھر راستے میں ہوتا، اِس لیے خصوصاً اُس کے ہاں بھی چلی جاتی۔ جب خالی سڑک سانپ کی طرح بل کھاتے ہوئے اُس کے سامنے ہوتی، وہ بے خوف شاعر کے ہاں چلی جاتی اور فرش پر ایک کونے میں بیٹھ جاتے۔ اس کا ہلکا سا رنگین نقاب، اُس کے بالوں میں اٹکے ہوئے پھول، اُس کی جھکی ہوئی شرم گیں نگاہیں اپنے اندر ایک پُراَسرار معنویت لیے ہوئی ہوتی۔ لوگ شاعر پر ہنستے، طرح طرح کی رائیں دیتے۔ دراصل میں یہ اُن کا قصور نہیں تھا۔کیوں کہ شیکھر شاعر نے کبھی اس حقیقت کو چھپانے کی کوشش نہ کی کہ یہ ملاقاتیں اس کے لیے مایہ صد بہجت تھیں!
منجاری اس کا نام تھا اور نام کے معنی تھے گل دستہ۔ شیکھر تو کجا، ہر سطحی نظر کے انسان کے لیے بھی اس نام میں ایک جذب، ایک کشش تھی…… لیکن شیکھر نے اُس نام میں اور اضافہ کیا۔ اُسے بسنتی پھولوں کا گل دستہ کَہ کر پکارنے لگا۔ لوگ سنا کرتے اور ٹھنڈی آہ بھر کر رہ جاتے!
اپنے بہاریہ قصاید میں شاعر پھولوں، پودوں، غنچوں اور کلیوں کے گیت گاتا۔ اس کے الفاظ میں ایک درد ہوتا، ایک کیف، ایک تڑپ، لوگ سنتے اور سر دھنتے۔ مہاراج سنتے اور داد دیتے…… اور اس کے جواب میں شاعر کے چہرے پر ایک فاتحانہ مسرت کوند جاتی۔ بادشاہ سلامت اس سے پوچھا کرتے،کیا شہد کی مکھی کا کام صرف یہی ہے کہ بہار کے جشن میں بھنبھناتی پھرے؟ اور شاعر جواب دیتا: نہیں حضور! بل کہ یہ کہ بسنتی پھولوں کی رگوں سے رس چوسا کرے۔
دیگر متعلقہ مضامین:
دربارِ خداوندی میں (مصری ادب)
گوشت (برازیلی ادب)
جنگی قیدی (عراقی افسانہ)
سورج مکھی (برازیلی ادب)
پھر کیا کہنے۔ تمام ہال قہقہوں سے گونج اُٹھتا۔ لوگوں کا خیال تھا کہ شہزادی اجیتا بھی ہنس ہنس پڑتی تھی۔ شاید اِس بات پر کہ اُس کی خادمہ نے کس طرح شاعر کا دیا ہوا نام قبول کرلیا اور ادھر منجاری دل ہی دل میں خوش ہوا کرتی۔ اِس طرح جھوٹ اور سچ دنیا میں ملے جلے رہتے ہیں۔ اور جو کچھ خدا تعمیر کرتا ہے، اُس پر انسان اپنی اور سجاوٹوں کا بھی اضافہ کر دیتا ہے۔
لیکن شیکھر جی ایک شاعر تھا، جو پاک حقیقتوں کے گیت گاتا اور کرشنا اور رادھا، ابدی مسرت اور دُنیوی غم اُس کی نظموں کے موضوعات ہوتے۔ اس کے گیت ہر زبان پر جاری تھے۔ رات کو جب چاند کی سیمیں شعاعیں دنیائے ارضی پر لرزتی لرزتی گزرتیں، صبح کو جب نسیمِ سحری کے جھونکے باغوں میں آوارہ پھرتے، اُس وقت تمام فلک میں میدانوں، نیم وا کھڑکیوں، تیرتی ہوئی کشتیوں، بل کھاتی ہوئی سڑکوں، جھومتے ہوئے درختوں، مہکے ہوئے باغوں، ہر جگہ سے نغمے سنائی دیتے…… جن کی صداہائے باز گشت، رنگیں موسیقیاں بن کر فضا میں پھیل جاتیں۔
اس طرح دن گزرتے گئے۔ شاعر شعر کہا کرتا۔ بادشاہ سنا کرتا، اور داد دیتا۔ منجاری ہر روز دریا پر جاتی…… اور شاعر کے ہاں بھی چلی جاتی۔ عجب چھجے کے پیچھے سائے گھومتے رہتے۔ زریں پازیبوں کی دور سے آواز سنائی دیا کرتی۔
اُن دنوں پچھم کے ایک نئے شاعر نے شہرت کے میدان میں قدم رکھا۔ وہ امرہ پور کی راج دھانی میں راجہ نارائن کے دربار میں حاضر ہوا اور آکر مہاراج کی تعریف میں ایک شعر کہا، جو بادشاہ کو بہت پسند آیا۔ اُس کی ایک معنی خیز نگاہ شیکھرپر پڑی۔ وہ سمجھ گیا۔ ایک اُلجھن میں تھا۔ بے چارہ نہیں جانتا تھا کہ شعر و سخن کی جنگ کیسے لڑی جاتی ہے؟ اس رات وہ لمحہ بھر نہ سویا۔ مشہور و معروف پنڈرک کی مہیب صورت اُس کی آنکھوں کے سامنے تھی۔ وہ اُس کی تلوار کی طرح خم کھائے ہوئے ناک، وہ اُس کا ایک طرف جھکاہوا سر…… پنڈرک کا تصور اُس کے دل و دماغ پر ایک گہرا اثر ڈال رہا تھا۔ دوسرے دن ہال میں اُس نے کانپتے ہوئے قدم رکھا۔ محل تماشائیوں سے کھچا کھچ بھرا ہوا تھا۔ اُس نے اپنے حریف کی طرف مسکرا کر دیکھا۔ پنڈرک نے سر کی ایک ہلکی سی جنبش سے اُس کا جواب دیا اور اُس کے بعد ایک روشن مسکراہٹ اُس کے چہرے پر کوند گئی۔ شیکھر کی نگاہیں ہال کے اوپر چھجے پر گڑی ہوئی تھیں، جس کے چاروں طرف رنگین پردے لٹک رہے تھے۔
اتنے میں بادشاہ کی سواری آگئی۔ وہ سفید لباس پہنے ہوئے تھا۔ آہستہ آہستہ بڑھا اور تخت پر بیٹھ گیا۔ پندڈرک کھڑا ہوا۔ تمام ہال میں سناٹا چھا گیا۔ اُس نے بلند آواز میں اپنا قصیدہ پڑھنا شروع کیا۔ اُس کے پُرشکوہ الفاظ طوفان خیز موجوں کی طرح دیواروں سے ٹکرا رہے تھے، اور سننے والوں کے دل میں اُترتے جا رہے تھے۔ سینوں میں دھنسے جا رہے تھے۔ اُس نے لفظ نارائین کے مختلف معانی شعروں کی لڑی میں اس طرح پروئے کہ سننے والے دنگ رہ گئے۔
اُس کے بعد وہ بیٹھ گیا، لیکن پھر بھی کچھ عرصے تک اُس کے نغموں کی گونج شاہی دربار کے سنگین ستونوں سے ٹکراتی رہی۔ اُس کی مہیب آواز کی صدائے بازگشت سینوں میں بجلیوں کی طرح کوندتی رہی۔ تمام فاضل ادبی نقاد، شاعر کی ہمہ گیر فنی مہارت اور سخنی قابلیت کی داد دیتے دیتے نہ تھکتے تھے۔
بادشاہ نے شیکھر پر ایک نگاہ ڈالی اور اُس نے جواب میں اپنی درد بھری آنکھیں اپنے آقا کے چہرے پر گاڑ دیں۔ پھر دفعتاً اُٹھا۔ اُس وقت وہ اُس ہرن کی طرح نظر آتا تھا جس کے سر پر شکاری کتے چڑھ آئے ہوں، اور وہ راہ گریز پا کر مفاومت کے لیے وہیں پلٹ کر کھڑا ہو گیا ہو۔ اُس کا رنگ زرد تھا۔ اُس کے چہرے پر نسوانی حیا کی ایک جھلک تھی۔ اُس کی نوجوانوں کی سی قامت، چہرے کے لطیف نقش و نگار، حسین خط و خال، اُسے ایک ایسے ساز کی صورت میں پیش کر رہے تھے، جس کی کھینچی ہوئی تنی ہوئی تاروں پر ایک خفیف سا ارتعاش رنگیں موسیقیوں میں تبدیل ہو جائے۔ ہاں اُس کا سر ایک جانب جھکا ہوا تھا۔ اُس کی آواز باریک تھی۔ اِس قدر باریک کہ پہلے دو تین شعر تو کسی کو سنائی ہی نہ دیے، لیکن پھر اُس نے آہستہ سے سر اونچا کیا۔ گردن بلند کی۔ سینہ پھیلایا…… اور یکایک اس کی آواز ایک شعلہ جوالہ کی طرح بلندہوئی۔ اُس نے اپنا قصیدہ شاہی تاریخ کی اُن قدیم روایات اور پرانی حکایت سے شروع کیا، جو عہدِ ماضی کی دھندلی دھندلی یادگاریں تھیں۔ وہاں سے چل کر ارتقا کے تمام مراحل طے کرتے ہوئے، اُس نے اس زمانہ کی عدیم النظیر سخاوت اور شجاعت کے بیان پر اپنے قصیدہ کا اختتام کیا۔ اُس کے آخری الفاظ تھے: میرے مالک! لفظوں میں کوئی مجھ سے بازی لے جائے، تو لے جائے…… لیکن اُس محبت میں مجھ سے کوئی نہیں بڑھ سکتا، جو مجھے تجھ سے ہے۔‘‘
یہ سن کر سننے والوں کی آنکھوں میں آنسو اُتر آئے۔ ہال کی چٹانوں میں سے تراشی ہوئی دیواریں تزلزل میں آگئیں۔ پنڈرک حسد آمیز غصے سے لال پیلا ہو کر اُٹھا۔ اپنے سر کو ایک پُرشکوہ جنبش دی اور کہنے لگا، لفظ آہ! لفظ سے بڑھ کر دنیا میں کون سی چیز ہے۔ ایسا معلوم ہوا گویا تمام سننے والوں کو سانپ سونگھ گیا۔ پھر اُس نے اپنی علمی مہارت کے زور سے اور منطقی استدال کے بل پر ثابت کیا کہ لفظ ہی ہر شے کا آغاز ہے اور وہ لفظ کیا ہے؟ خدا……! اُس نے مختلف آسمانی کتابوں اور الہامی صحیفوں سے اقتباسات پیش کیے اور زمین اور آسمان کی تمام موجودات کو ایک بلند مینار میں کھڑا کیا۔ لفظ جس کی چوٹی پر تھا، اُس نے اپنے اُسی سوال کو دہرایا اور پرزور آواز میں کہا، لفظ سے بڑھ کر دنیا میں کون سی چیز ہے؟
پھر فخریہ انداز میں سیدھا کھڑا ہوگیا۔ چاروں طرف نگاہ دوڑائی۔ دیکھا کہ مقابلہ کے لیے کوئی نہیں اُٹھتا۔ لال پیلا ہو کر بیٹھ گیا۔ پنڈت شاباش پکار اُٹھے۔ بادشاہ حیران شیکھر اس فاضل اجل کے سامنے اپنی ہیچ مدانی محسوس کر رہا تھا۔ جلسہ منتشر ہو گیا۔
دوسرے دن شیکھر نے اپنا گیت شروع کیا۔ اُسی وقت نیستان درندا کی خاموش فضا اپنی تاریخ میں پہلی دفعہ اُن نغموں سے گونج اُٹھی۔ جو ثبت کے سازے پیاپے نکل رہے تھے۔ دہقانی عورتیں حیران تھی کہ یہ موسیقی کہاں سے اُچھل رہی تھی اور وہ گانے والا کون تھا؟ کبھی بادِ جنوب کی سر سراہٹیں اس موسیقی کا پتا دے جاتیں اور کبھی یہ آوارہ موسیقی پہاڑوں کے اُوپر منڈلانے والے بادلوں میں بجلی کی طرح اپنی جھلکیاں دکھا کر گم ہو جاتی۔ کبھی مملکتِ سحر سے رنگ و بو کا پیام لے کر آتی اور کبھی اُفق غرب پر ایک آہ غم کی طرح منڈلاتی رہتی۔
ستارے! ہاں ہاں ستارے مضراب تھے اُس ساز کے، جس کی اُونچی نیچی اُٹھتی بیٹھتی سروں نے آدھی رات رات کی نیندوں کو حسین و جمیل موسیقیوں سے معمور کر دیا ہے۔ چاروں طرف بارش نغمہ ہو رہی تھی۔ سر سبز میداں، تاریک اور مہیب غاریں، آسمان کی نیل گونی، سبزہ زاروں کی نکہت و تازگی، کائناتِ خلقت کی ہر چیز میٹھے سروں کے تند سیلاب میں بہی جا رہی تھی۔ لوگ منھ پھاڑے بیٹھے سن رہے تھے۔ نہ معانی کے ادراک کی اہلیت، نہ اُٹھ کر داد دینے کی ہمت، اُن کی آنکھیں آنسوؤں سے ڈبڈبائی ہوئیں اور اُن کی زندگی مٹنے، فناہونے کی آرزوئیں لیے ہوئی !
(گذشتہ سے پیوستہ)
شیکھر اپنے ماحول کو بھول گیا۔ اپنے ماحول، اپنے حریف، اپنے سامعین سب کو بھول گیا۔ وہ گویا اکیلاگیا، وہ گویا اکیلا کھڑا تھا۔ اپنے خیالات میں گم، اپنے تصورات میں محو…… اور کائنات اُس کے لیے فقط اِک حلقۂ دامِ خیال۔ اس کے دل کے نہاں خانہ میں ایک تصویر تھی…… وہ تصویر جو اُس نے ایک محرک سائے سے بنائی۔ اُس کے کانوں میں دور سے کسی کے قدموں کی آہٹ آرہی تھی۔ وہ آہٹ جو اُس نے ایک نامعلوم جھنکار سے حاصل کی…… اور وہ بیٹھ گیا۔ سامعین لرزہ براندام تھے۔ ایک ہمہ گیر مسرت کے اثر میں آکر وہ شاعر کو داد تک دینا بھول گئے۔ جب ہنگامی جوش ذرا تھما، تو پنڈرک اُٹھا اور اپنے حریف سے للکار کر پوچھا: ’’کرشنا کون ہے اور رادھا کون…… چاہنے والا کون ہے اور محبوب کون ہے؟‘‘
اُس نے پھر اُن الفاظ کے مصور بتائے ماخذ نکالے۔ مختلف معانی کھول کر سامنے رکھے۔ ہر حرف کا تجزیہ کرکے مختلف تعبیریں پیش کیں۔ فلسفہ اور منطق کے اُصولوں کی پیچیدگیوں کو نفسیات اور مابعد الطبعیات کے قوانین کی اُلجھنوں کو حیرت انگیز کامیابی اور ہمہ دانی علمی مہارت کے ساتھ حل کرکے دکھایا۔ ان ناموں کے ہر ایک نقطہ کی تعبیراتِ کثیر بنا کر سننے والوں کو دنگ کر دیا۔ پھر اُن میں سے ہر ایک کو علاحدہ علاحدہ کرکے ہر اِک کی اس طرح توضیح و تشریح کی کہ نکتہ رس سے نکتہ رس فلسفی بھی سر تھام کر بیٹھ جائے۔
بادشاہ حیرانی و سرگردانی کا ایک مجسمہ تھا۔ تمام ماحول تبدیل ہوچکا تھا۔ وہ موسیقی کہیں روپوش تھی۔ دنیا کے تصور میں کوئی رنگینی باقی نہیں رہی تھی…… اور اُن کو اپنی زندگی اس طرح معلوم ہوتی تھی کہ گویا ایک سڑک۔ جس پر پتھر کوٹ کر اور سنگ ریزے بچھا کر سطح ہم وار کی گئی تھی!
بادشاہ غصے سے بھرا ہوا تھا۔ تخت سے اُترا اپنی موتیوں کی مالا اُتار کر پنڈرک کے سر پر رکھ دی۔ ہال نعرہ ہائے تحسین سے گونجنے لگ گیا اور اوپر والے چھجے سے ملبوساتِ فاخرہ کی سرسراہٹ پازیبوں کی لطیف چھٹکار کے ساتھ محسوس ہوا۔ شیکھر اُٹھا اور باہر چل دیا۔
رات تاریک تھی چاند غروب ہوچکا تھا۔ شیکھر نے اپنی پرانی اور نئی نظموں کے مسودات کو فرش پر ایک ڈھیر میں رکھ دیا۔ وہ بیٹھا ورق گردانی کر رہا تھا۔ کہیں کہیں سے دو چار سطریں پڑھ لیتا اور پھر آگے گزر جاتا۔ اُس کے تمام شاہ کار آج اُس کی نظروں میں بے حقیقت، سست بنیاد، باطل فروز لفاظیوں کے ایک گم کردہ پلندے سے زیادہ حیثیت نہیں رکھتے تھے۔ ایک ایک کرکے اس نے کاغذوں کو پھاڑ دیا۔ اور پھٹے ہوئے پرزوں کو پاس ہی جلتی ہوئی آگ کی نذر کرتا گیا۔ تیرے نام پر……! تیرے ہی نام پر……! اے آگ…… اے حسن……! وہ کہتا جا رہا تھا۔ میری ناکام حیات کے اس تمام عرصہ میں وہاں اے آتشِ فروزاں تو میرے سینے میں سلگتی رہی۔ اگر میری زندگی طلائے ناب کا ایک ٹکڑا ہے، تو تجھ میں پڑ اور دہک اُٹھے گی…… لیکن اگر روندی ہوئی گھاس کا ایک خشک تنکا ہے، تو اسے جلد ہی راکھ ہو جانا چاہیے۔
رات گزرتی گئی۔ شیکھر نے کمرے کی تمام کھڑکیاں کھول دیں۔ اپنے بستر پر یاسمیں، گلاب اورنسترن کے پھول بکھیر دیے۔ اور اپنی خواب گاہ کے در و دیوار کو متعددقندیلیوں سے جگمگا دیا۔ پھر کسی قاتل زہر کے ایک گھونٹ میں شہد ملا کر پی لیا…… اور خاموش اپنے بستر پر جا کر لیٹ رہا۔
اتنے میں طلائی پازیبوں کی ترنم چھٹکار باہر دروازہ پر سنائی دی…… اور لطیف خوش بوؤں میں بسے ہوئے ایک خفیف سے جھونکے نے تمام کمرے کو مہکا دیا۔
شیکھر نے آنکھیں کھول دیں۔ چاروں طرف دیکھا اور اپنے سامنے ایک عورت کی شکلِ جمیل پائی۔ اس کی کم زور نگاہوں کو ہر چیز دھندلی دھندلی سی نظر آرہی تھی…… لیکن پھر بھی اُس نے محسوس کیا کہ وہ زندہ تصویر جو اِس لیے محرک سائے سے حاصل کی اور جسے اِس لیے برسوں اپنے دل کے خلوت کدے میں چھپائے رکھا۔ آج اُس کی زندگی کے آخری لمحوں میں اُس کو دم توڑتا ہوا دیکھنے کے لیے آ پہنچی ہے ۔
’’مَیں شہزادی اجیتا ہوں!‘‘ اُس نے کہا۔
شاعر نزع کے کرب سے کراہتا ہوا بستر پر والہانہ اُٹھ بیٹھا۔ ’’بادشاہ نے تجھ سے انصاف نہیں کیا۔ میرے شاعر یہ تم ہی تھے، جس نے بازی جیتی۔ مَیں تمھارے سر پر فتح کا تاج رکھنے کے لیے آئی ہوں۔‘‘ شہزادی نے جھک کر اس کے کان میں کہا۔
اُس نے اپنے گلے سے پھولوں کا سہرا اُتارا ور شاعر کے سر پر لپیٹ دیا۔
شاعر اچانک بستر پر گر پڑا۔ بے چارا د م توڑ رہا تھا۔
(ماخذ: ’’کلیاتِ نثر مجید امجد‘‘، (مرتبہ ’’ڈاکٹرافتخارشفیع‘‘)
……………………………………
لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com یا amjadalisahaab@gmail.com پر اِی میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔