ہم تبلیغی جماعت سے مساجد میں دین کو دوسروں تک پہنچانے کی محنت کا ذکر بار بار سنتے چلے آرہے ہیں، جس میں سہ روز، چلّہ، 4 ماہ، ایک سال اور عمر بھر تبلیغی کام میں گزارنے پر زور دیا جاتا ہے، جب کہ یک روزہ، ہفت روزہ اور جوڑ وغیرہ بھی تبلیغی جماعت کے اُصولوں کا حصہ ہیں۔
فضل منان بازدا کی دیگر تحاریر پڑھنے کے لیے نیچے دیے گئے لنک پر کلک کیجیے:
https://lafzuna.com/author/fazal-manan-bazda/
ہمیں دین کے بارے میں واجبی سا علم ہے۔ اس لیے ہم فتوا دے سکتے ہیں اور نہ یہ رائے ہی قائم کرسکتے ہیں کہ اسلام میں تبلیغی جماعت کی چلّہ کشی کا حکم کیا ہے، اس کی شرعی حیثیت فرض کی ہے، واجب کی یا سنت کی ہے؟ یہ کام عالمِ دین کا ہے۔
الیکٹرانک اور سوشل میڈیا پر کئی دنوں سے ملکی سطح پر سیاسی چلّہ کشی کی اطلاعات زیرِ گردش ہیں۔ پہلے چلّہ کشی کا ذکر سابق وفاقی وزیرِ داخلہ شیخ رشید کا ایک نجی ٹی وی چینل کے انٹریو میں ملتا ہے۔ شیخ رشید راولپنڈی کی مساجد میں یک روزہ و سہ روزہ لگاتے رہے ہیں، لیکن ایک دن اچانک شیخ صاحب منظر سے غائب ہوگئے۔ شیخ صاحب کے ورثا نے الزام لگایا کہ شیخ صاحب کو پولیس یا ’’نادیدہ قوتوں‘‘ نے اِغوا کیا ہے…… اور نہیں معلوم کہ اُسے کہاں رکھا گیا ہے۔ ورثا نے عدالت میں درخواست دائر کرتے ہوئے استدعا کی کہ شیخ رشید کو بازیاب کرایا جائے۔ پھر جب راولپنڈی پولیس عدالت کے طلب کرنے پر پیش ہوئی، تو اُس نے عدالت میں بیان دیا کہ شیخ رشید پولیس کی تحویل میں نہیں، بلکہ اُسے اسلام آباد پولیس گرفتار کرکے لے گئی ہے۔
دیگر متعلقہ مضامین
ڈراما نیا مگر سکرپٹ پرانا ہے
خیبر پختونخوا میں پی ٹی آئی کی نئی صف بندی
ایک سماعت پر عدالت نے پولیس کو آخری وارننگ دی کہ 26 اکتوبر تک شیخ رشید کو بازیاب کرایا جائے۔ عدالت کی ہدایات کے مطابق پولیس شیخ صاحب کو بازیاب تو نہ کراسکی، البتہ وہ اچانک خود ایک نجی ٹی وی چینل پر منظرِ عام پر آگئے۔ نجی ٹی وی چینل کے اینکر کو انٹریو دیتے ہوئے شیخ رشید نے کہا کہ مَیں ساری قوم، ماؤں، بہنوں اور بیٹیوں کا بہت مشکور ہوں جن کی دعاؤں سے کم و بیش 40 روزہ چلّے کے بعد مجھے رہائی نصیب ہوئی، مگر مجھے یہ تک معلوم نہیں کہ چلّہ میں نے کہاں کاٹا؟ البتہ اس دوران میں مجھے کوئی تکلیف نہیں پہنچائی گئی۔
شیخ رشید کا کہنا تھا کہ 9 مئی کا دن ملکی تاریخ کا سیاہ ترین دن تھا اور اس کی مذمت کے طور پر یہ دن ہر جمعہ کو منانا چاہیے۔ مَیں اُس دن پیش آنے والے واقعات کی مذمت کرتا ہوں۔
شیخ صاحب نے الزام لگایا کہ اُنھوں نے عمران خان سے درخواست کی تھی کہ فوج کے ساتھ بات چیت میں اُنھیں بھی شامل کیا جائے، لیکن سابق وزیرِ اعظم عمران خان نے انکار کر دیا۔ وہ ایک ضدی سیاست دان ہیں۔
شیخ رشید نے آرمی چیف کی ناراضی کو عمران خان کی غلطی قرار دیا اور کہا کہ اُن کی زندگی کا مشن ہے کہ وہ اُن تمام لوگوں کو جو روپوش ہیں، یا جن سے 9 مئی کی غلطی سرزد ہوئی، یا جو بے گناہ ہیں……کو آزادی دلا سکوں۔
اپنی ’’گم شدگی‘‘ کے بعد منظرِ عام پر آنے والے شیخ رشید کی جانب سے اس مشن کو کئی لوگ اِس کی ’’ٹائمنگ‘‘ اور وجہ کی بنیاد کو دلچسپی سے دیکھ رہے ہیں کہ راولپنڈی کے اس سیاست دان نے اپنے ’’چلّے‘‘ کا بندوبست کرنے والوں سے آزادی کے فوراً بعد اس مشن کا اعلان کیوں کر کیا؟
’’سیاسی تبلیغی جماعت‘‘ نے شیخ رشید سے پہلے ایک سیاسی مرتد جماعت (پاکستان تحریکِ انصاف) کے رہنماؤں اور ورکروں کو راہِ راست پر لانے کے لیے کام جاری رکھا ہوا ہے، جس میں وہ کسی حد تک کامیاب ہوتے ہوئے بھی نظر آرہے ہیں۔
’’سیاسی تبلغی جماعت‘‘ کے اہل کاروں نے سیالکوٹ سے تعلق رکھنے والے تحریکِ انصاف کے رہنما عثمان ڈار کے گھر پہنچ کر اُسے سمجھانے کی کوشش کی۔ مذکورہ جماعت کے اہل کاروں نے اُن کے گھر والوں کو رات کے اندھیرے میں سڑک پر کھڑا کیا اور گھر میں داخل ہو کر وہ ہاتھ کرگئے کہ عثمان ڈار کی آنے والی نسلیں بھی اُسے یاد رکھیں گی، مگر عثمان ڈار پھر بھی روپوش رہے۔
ایک دن الیکٹرانک اور سوشل میڈیا پر یہ خبر گردش کرنے لگی کہ تحریکِ انصاف کے رہنما عثمان ڈار کو گرفتار کرکے چلّہ کٹوانے کے لیے نامعلوم مقام پر منتقل کر دیا گیا ہے۔ تقریباً 4 ماہ مکمل ہونے پر عثمان ڈار نے پریس کانفرنس کرتے ہوئے 9 مئی کے واقعات کی بھرپور مذمت کی اور سیاست سے کنارہ کشی کا اعلان بھی کیا، جب کہ عمران خان کو 9 مئی کا ذمے دار بھی قرار دیتے ہوئے کہا کہ اس واقعے کی پلانگ زمان پارک میں کی گئی تھی۔
’’سیاسی تبلیغیوں‘‘ کی محنت رنگ لائی اور فرح حبیب بھی چلّہ مکمل کرنے کے بعد ’’استحکامِ پاکستان پارٹی‘‘ کو پیاری ہوگئیں اور تحریکِ انصاف کے چیئرمین عمران خان کو 9 مئی کے تمام واقعات کا ذمے دار ٹھہرا گئیں۔
اس طرح تحریکِ انصاف کے ایک اور رہنما صداقت عباسی نے ایک انٹریو میں کہا کہ وہ چلّہ کشی کے لیے بچوں سمیت ’’شمالی علاقہ جات‘‘ گئے ہوئے تھے۔ اُس نے بھی 9 مئی کی مذمت کی۔
نامی گرامی جہاں دیدہ سیاست دانوں میں سابق وزیرِ دفاع پرویز خٹک، محمود خان، خسرو بختیار، سابق گورنر سندھ عمران اسماعیل اور دیگر ڈھیر سارے سیاسی بازی گروں کو جنھیں سیاسی تبلیغیوں کی محنت اور لگن کا علم تھا، وہ آنکھوں کا اشارہ پاکر بغیر چلّہ کاٹے تحریکِ انصاف کو چھوڑ گئے اور 9 مئی کے واقعات کی مذمت میں سب ایک دوسرے سے آ گے آگے رہے۔
تحریکِ انصاف کے جن رہنماؤں نے ’’سیاسی تبلیغی جماعت‘‘ کے کہنے پر عمل درآمد کیا، اُن کے سارے گناہ معاف ہوگئے اور جو رہنما اب تک ڈٹے ہوئے ہیں، اُن کو عدالت میں پیشیاں بھگتنا پڑ رہی ہیں۔ ’’سیاسی تبلیغی جماعت‘‘ نے ایک ایسے سیاسی رہنما کو پاکستان کا وزیرِ اعظم بنانے کا تہیہ کر رکھا ہے، جو پہلے سے ملک و قوم کو کہیں بار چونا لگا چکا ہے۔ ’’سیاسی تبلیغی جماعت‘‘ نے ایسی فضا بنائی ہے کہ الیکشن سے پہلے ہر کوئی یہ جان چکا ہے کہ ملک کا اگلا وزیرِ اعظم کون ہوگا؟
شاید اس بار فارمولا کارگر ثابت ہو!
……………………………………
لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com یا amjadalisahaab@gmail.com پر اِی میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔