جمعے کے روز جب مَیں یہ سطور تحریر کر رہا ہوں، تو غزہ میں اسرائیلی بربریت جاری ہے۔ ہفتہ قبل فلسطینی مزاحمت کاروں نے اسرائیل کو جو کاری زخم لگایا ہے، وہ مندمل ہونے کا نام نہیں لے رہا۔ بدحواسی میں بہیمانہ حرکتوں پر تلی اسرائیلی ریاست نے غزہ کے اندر ہسپتال کو بھی نشانہ بنایا ہے، جس میں 500 سے زیادہ جو انسان شہید ہوئے ہیں، اُن میں درجنوں شیر خوار بچے بھی شامل ہیں۔
اکرام اللہ عارف کی دیگر تحاریر پڑھنے کے لیے نیچے دیے گئے لنک پر کلک کیجیے:
https://lafzuna.com/author/ikram-ullah-arif/
انسانی اقدار اور جنگی قوانین کو پاؤں تلے روندتے ہوئے اسرائیل نے غزہ میں موجود کئی سو سال پرانے چرچ پر بھی حملہ کیا اور درجن سے زیادہ انسانوں کو پیوندِ خاک کردیا۔ پناہ گزینوں کے لیے قائم کیمپوں اور رہایشی عمارات پر اندھا دھند بمباری تو گویا غاصبوں کی عادت بن چکی ہے۔
قارئین! اس قسم کی تفصیلات سے میڈیا کا میدان بھرا پڑا ہے۔ لہٰذا ہم اس معاملے کو ایک اور زوایہ سے آپ کے سامنے رکھنا چاہتے ہیں۔ فلسطین اور اسرائیل کا معاملہ ہفتوں، مہینوں اور سالوں کا نہیں بلکہ عشروں کا ہے۔ دونوں میں بظاہر طاقت اور قوت کا کوئی موازنہ نہیں۔ ایک طرف ایٹمی قوت اور جدید ٹیکنالوجی سے لیس اسرائیل ہے، جب کہ دوسری طرف روزی روٹی کو محتاج پس ماندہ لوگوں کا ایک چھوٹا سا دو حصوں میں منقسم ملک فلسطین۔
فلسطین کا ایک حصہ جسے غرب اُردن کہا جاتا ہے اور جو عالمی سطح پر تسلیم شدہ فلسطینی ریاست کا مرکز تصور کیا جاتا ہے، وہاں ’’الفتح تنظیم‘‘ کی برائے نام حکومت قائم ہے، جو عملاً اسرائیل کی طفیلی حکومت ہی ہے…… جب کہ دوسرا حصہ جو ’’غزہ‘‘ کہلاتا ہے، وہاں مزاحمتی تنظیم ’’حماس‘‘ کی عمل داری اور حکم رانی ہے، جو اسرائیل کو کسی صورت قبول نہیں۔
تاریخی طور پر اس تنازع پر دفتر کے دفتر سیاہ ہوچکے ہیں۔ سرِ دست جو معاملہ ہے، یہ اس حوالے سے پوری دنیا کے لیے حیران کن ہے کہ حماس نے جس حیران کن انداز میں اسرائیل پر حملہ کیا ہے، وہ خود اسرائیل کے لیے بھی کسی اچھنبے سے کم نہیں۔ ہفتے سے زیادہ وقت گزر گیا، لاکھوں لوگ متاثر ہوگئے، مگر حماس اور دیگر مزاحمتی گروہ اب تک ثابت قدم ہیں۔ وہ کماحقہ نفسیاتی اور حربی جنگ لڑرہے ہیں۔ مزاحمت کاروں کی اس غیر متوقع کارکردگی اور ہمت نے بھی دنیا کو ورطۂ حیرت میں ڈالا ہوا ہے۔
حالیہ جھڑپوں نے پوری دنیا میں نہ صرف عوام اور حکم رانوں کو ایک دوسرے کے سامنے لاکھڑا کیا ہے، بلکہ عالمی میڈیا کو بھی دو حصوں میں تقسیم کردیا ہے۔ امریکہ، برطانیہ، فرانس، جرمنی اور دیگر کئی ممالک کے سرابرہ کھلے عام اسرائیل کے ساتھ کھڑے اور اس کی جارحیت کو جائز مان رہے ہیں۔ امریکہ کے صدر، برطانیہ کے وزیرِ اعظم اور جرمنی کے چانسلر نے حالیہ دنوں اسرائیل کا دورہ بھی کیا ہے، تاکہ دنیا کو بتاسکیں کہ وہ غاصبوں کے ساتھ کھڑے ہیں۔ ان کے بالمقابل مگر یورپی اور امریکی عوام ہیں، جو لاکھوں کی تعداد میں سڑکوں پر نکل پر اپنی حکومتوں سے مطالبہ کررہے ہیں کہ اسرائیلی جارحیت کو روکا جائے۔ خود اسرائیل کے اندر یہودی مظاہرین کو گرفتار کرنے کا سلسہ شروع ہوچکا ہے۔
اُن یہودیوں کا کہنا ہے کہ اسرائیل میں برسرِ اقتدار حکومت یہودی نہیں بلکہ صیہونی ہیں اور صیہونی انسان دشمن ہیں۔
اسرائیل کے علاوہ امریکہ میں بھی یہودی تنظیموں نے اسرائیل مخالف اور فلسطین کی حمایت میں مظاہرے کیے ہیں۔
قارئین! اَب یہ مت پوچھیں کہ مسلمان حکم ران کیا کررہے ہیں؟ وہ حسبِ سابق وہی کررہے ہیں، جو پہلے سے کرتے چلے آرہے رہے ہیں…… یعنی مذمت، مذمت اور بس مذمت۔
جیسا کہ مَیں نے پہلے کہا کہ اس تنازع نے عالمی میڈیا کو دو حصوں میں تقسیم کیا ہے۔ امریکی، فرانسیسی اور برطانوی میڈیا نے بالخصوص اس جنگ میں اسرائیل کو مظلوم اور فلسطینیوں کو ظالم ثابت کرنے کی مہم شروع کررکھی ہے، جس میں 40 اسرائیلی بچوں کی حماس کے ہاتھوں ذبح کرنے کی ’’جعلی خبر‘‘ (Fake News) بھی شامل تھی، جس نے عالمی سطح پر اس ’’ایلیٹ میڈیا‘‘ کی غیر جانب داری کی قلعی اُتار کر رکھ دی ہے۔
عالمی میڈیا میں جاری اس ’’انفارمیشن وار‘‘ کو دیکھا جائے، تو الجزیرہ، روسی میڈیا اور جرمن میڈیا کافی حد تک ’’بیلنس رپورٹنگ‘‘ میں مصروف ہیں۔ یوں کہا جاسکتا ہے کہ یہ معاملہ ابھی برسرِ زمین کم اور میڈیا میں زیادہ لڑا جارہا ہے۔
اس کا انجام کیا ہوگا، کل پرسوں یا مہینے بعد کیا ہوگا؟ یہ کوئی نہیں جانتا…… لیکن یہ بات ہر کوئی جان گیا ہے کہ عالمی اداروں، طاقت ور حکم رانوں اور مخصوص عالمی میڈیا کے مطابق اسرائیل غاصب نہیں، بلکہ مظلوم ہے۔ حالاں کہ حقائق یہ ہیں کہ اسرائیل غاصب ہے، اور غاصب رہے گا۔
’’میڈیائی پراپیگنڈا‘‘ وقتی طور پر تو موثر ہوسکتا ہے، مگر ہمیشہ کے لیے کامیاب نہیں رہ پاسکتا۔
……………………………………
لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com یا amjadalisahaab@gmail.com پر اِی میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔