ایک قیامت اور سہی!

Shabir Buneri

مَیں نے ایک بار اِس ملک کے ایک منجھے ہوئے سیاست دان سے پوچھا کہ ہمارے ملک میں انصاف، امن اور خوش حالی کب آئے گی؟ اُنھوں نے دوسرے ہی لمحے زوردار قہقہہ لگایا اور کہا: ’’قیامت کے دن……!‘‘
شبیر بونیری کی دیگر تحاریر پڑھنے کے لیے نیچے دیے گئے لنک پر کلک کیجیے:
https://lafzuna.com/author/shabeer-buneri/
مَیں نے سوچا شاید مذاق کر رہے ہیں، مگر آپ یقین کیجیے، وہ دیر تک قہقہے لگاتے رہے اور مَیں خود کو کوستا رہا۔
’’ٹین ڈاؤننگ سٹریٹ‘‘ میں برطانیہ کے وزیرِ اعظم کا آفس ہے۔ کہیں پڑھا تھا کہ وہ آفس کا وقت ختم ہونے کے بعد سیڑھیاں چڑھ کر اوپر رہایشی فلیٹ تک جاتا ہے۔ کیوں کہ سرکاری لفٹ بند ہوتا ہے اور سرکاری وقت کے بعد لفٹ استعمال کرنے کی اجازت نہیں ہوتی۔
’’اولوف پالمے‘‘ سویڈن کے وزیرِاعظم تھے۔ کہیں پڑھا تھا کہ ایک بار بھٹو صاحب اُن سے ملاقات کے لیے گئے، تو اتنے لوگ ساتھ لے کر گئے کہ سرکاری پارکنگ پوری کی پوری بھر دی۔ اولوف پالمے نے دور اپنی گاڑی کہیں پارک کی اور دس منٹ دوڑ لگا کر یہ سوچ کر پہنچ گئے کہ کہیں ہمارے وزیرِ اعظم کا وقت ضائع نہ ہو ۔
ابھی ماضیِ قریب ہی میں ایک نام ور انقلابی اپنی تقریروں میں ببانگِ دہل کہا کرتے تھے کہ کینیڈا کا وزیرِ اعظم سائیکل پر دفتر جاتا ہے، مگر خود جب اقتدار کے غلام گردشوں میں پھنس گئے، تو ہیلی کاپٹر کو اپنی بہترین سواری ڈیکلیئر فرما گئے۔
وائے ناکامی، ان سات عشروں میں ایک بھی ایسا منتظم نہیں آیا، جو اولوف پالمے کی طرح پروٹوکول کلچر کے خلاف بحیثیتِ حکم ران کھڑا ہوکر مثال قائم کرتا۔
25 کروڑ کی آبادی کا انتظام مشکل ہے۔ ایسا سن سن کر کان پک گئے۔ ویران گلیوں میں مزدور کی سماعت خراش چیخیں سنتا ہوں، تو کھوپڑی میں طوفان بپا ہوجاتا ہے۔ بازاروں میں نکل کر دیکھ لیں، تو پسینے میں شرابور عوام کے مایوس چہرے، بکھرے بال اور تھکے جسم کسی قیامت کی آمد کا اعلان کرتے دکھائی دیتے ہیں۔ سات عشرے کیا کم ہوتے ہیں ایک بہترین راستے کے تعین کے لیے…… ہم نے مگر صرف سیاست دانوں کے دعوے، زندہ باد کے نعرے اور اندھی تقلید کے ماحول میں پیدا ہونے والے نوجوانوں کا پاگل پن دیکھا ہے۔
ابھی کل پرسوں ٹی وی پر خبر سنی کہ پٹرول کی فی لیٹر قیمت میں 26 روپے کا اضافہ کردیا گیا۔ میری الجھن کی شدت تو بہت زیادہ ہے، مگر ایک سوال نے کافی پریشان کیا ہوا ہے کہ کیا رات کے 12 بجتے ہی جو قیامت ہر دس دن بعد عام آدمی پر ٹوٹتی ہے، اُس کا تھوڑا سا اثر ان لوگوں پر بھی ہوتا ہے، جو ہماری تقدیر بدلنے کے دعوے کئی سالوں سے کر رہے ہیں۔ عام آدمی تو چیخ اُٹھا ہے، مگر راستے سارے بند ہیں۔ موت کی خواہش کرنے سے منع کردیا گیا ہے، مگر یہ بھی انسانی تاریخ کا ایک اہم موڑ ہے کہ جس میں جیسے تیسے ہم جی رہے ہیں اور زندہ انسانوں کو موت کی خواہش کرتے دیکھ رہے ہیں ۔
سفید پوش طبقے تک بات آگئی ہے۔ پیٹ کی پوجا کتنی مشکل ہوتی جارہی ہے…… پچھلے دنوں بھرے بازار میں ایک ضعیف مزدور سے پوچھا کہ زندگی کیسے گزر رہی ہے؟ اُس کی آنکھوں میں آنسو تھے، چہرے پر غصہ تھا اور زبان پر یہ تاریخی فقرہ تھا کہ حالات اگر ایسے رہے، تو ہم ڈاکا ڈالنے سے منھ نہیں موڑیں گے۔
کیا اس لیے یہ ملک وجود میں آیا تھا کہ یہاں عام لوگوں کا خون چوسا جائے ۔ بھوک کو امتحان سے تشبیہ دینے والوں نے دو منٹ کی بھوک نہیں سہی۔ سوال تو بنتا ہے ناں کہ کیا سیاست دانوں کے گھروں میں بھوک اور محرومی ہوتی ہے؟ اگر نہیں، تو پھر ان کے لیے وہی لوگ زندہ باد کا نعرہ کیوں لگاتے ہیں جن کے بچے فاقہ کش ہیں؟ سیاست دانوں کی اقتدار کے لیے رسہ کشی پچھلے کئی سالوں سے جاری ہے، اور جب ان سے عوام کی حالت کے بارے میں پوچھا جاتا ہے، تو ان کا جواب ہوتا ہے کہ ہمارے ملک کی اکانومی ’’ڈرپ اکانومی‘‘ ہے، یعنی یہ مریض کی طرح ڈرپ پر چل رہی ہے۔
انتظامی اُمور جب اہل لوگوں کے پاس ہوتے ہیں، تو جنگوں میں بھی معیشت مضبوط ہوتی ہے۔ پاکستان تحریکِ انصاف کی حکومت آئی، تو ’’تبدیلی‘‘ اور ’’ریاستِ مدینہ‘‘ کے دعوے داروں نے ہر وہ کام کیا، جس کے خلاف عام لوگوں اور نوجوانوں کو اُکسایا گیا تھا۔ اس کے بعد رجیم چینج ہوئی اور پی ڈی ایم کی حکومت آئی، تو باقی ’’خدمت‘‘ اُنھوں نے کی۔ حکومت ختم ہونے کے بعد جب بھی پی ڈی ایم کے لیڈروں سے معاشی بحران کے بارے میں سوال کیا گیا، تو اُنھوں نے ذمے دار عمران خان کو ٹھہرایا ۔
یہ مگر پھر بھی حیرت کی بات نہیں۔ حیرت کی بات یہ ہے کہ ہر دور میں تالیاں بجانے والوں کی تعداد بڑھتی رہی اور اب وہی تالیاں بجانے والے پریشان ہیں۔ خالقِ کائنات کا واضح حکم ہے کہ بے شک وہ کسی قوم کی حالت اُس وقت تک نہیں بدلتا، جب تک قوم خود اپنی حالت بدلنے کی کوشش نہ کرے۔
ہم ایوانوں میں اُن لوگوں کو بھیجتے ہیں، جن سے بعد میں سوال پوچھنے کی ہمت تک نہیں رکھتے۔ کرپشن، ذخیرہ اندوزی، چوری اور استحصال کو ہمارے معاشرے میں عزت کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے۔ کب بدلیں گے ہم، یہ تو نہیں معلوم…… مگر بھوک، محرومی، بے روزگاری اور اندھی تقلید اگر اسی طرح جاری رہی، تو ہم یوں ہی ذلیل ہوتے رہیں گے۔ قیامتیں تھمنے کا نام نہیں لے رہیں اور ایک ہم ہیں کہ کسی ’’ایمپورٹیڈ نجات دہندہ‘‘ کے منتظر ہیں۔
……………………………………
لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com یا amjadalisahaab@gmail.com پر اِی میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے