فلسفہ کی تاریخ (سترھواں لیکچر)

Doctor Comrade Taimur Rehman

تحریر و ترتیب: میثم عباس علیزئی
(’’فلسفہ کی تاریخ‘‘ دراصل ڈاکٹر کامریڈ تیمور رحمان کے مختلف لیکچروں کا ترجمہ ہے۔ یہ اس سلسلے کا سولھواں لیکچر ہے، مدیر)
٭ ایمپیڈیکلیز (Empedocles):۔ ایمپیڈیکلیز کی پیدایش ہوتی ہے 490 قبلِ مسیح اور وفات ہوتی ہے 430 قبلِ مسیح میں۔ اٹلی کا رہنے والا تھا، وہ بھی شاعری کے انداز میں لکھتا تھا۔
ایمپیڈیکلیز نے بھی اس بات سے شروع کیا کہ اگر ایک ہی قسم کا مادہ ہے، چیز ہے، تو پھر تبدیلی ناممکن ہے، مگر اُس نے اِس کا حل یہ دیا کہ اِس کا مطلب یہ ہے کہ مادہ جو ہے، وہ ایک ہی قسم کی چیز نہیں۔ حقیقت میں وہ چار عناصر ہیں۔
٭ تھیلیس نے پانی کا ذکر کیا تھا۔
٭ اینیگزیمنیز نے ہوا کا ذکر کیا تھا۔
٭ ہیراکلائٹس نے آگ کا ذکر کیا تھا۔
٭ اور ایمپیڈیکلیز نے ایک اور عنصر شامل کیا یعنی "Four Elemental Theory” پیش کی۔
٭ وہ عنصر کیا ہے؟:۔
سب سے پہلے زمین یعنی مٹی ہے، جس سے زندگی جنم لیتی ہے۔ اس کے بعد ہوا، اس کے بعد آگ اور اس کے بعد پانی ہے۔ اس طرح یہ چار عناصر ہیں: مٹی، پانی، ہوا اور آگ…… جن سے تمام مادہ بنا ہوا ہے۔
شاید ایمپیڈیکلیز کو یہ خیال اس طرح آیا کہ جب اُس نے آگ میں لکڑی کو جلتے ہوئے دیکھا، اُس نے یہ اندازہ لگایا کہ جو چیز جل کر بچ جاتی ہے، وہ ہے زمین یعنی راکھ۔ جو چیز جل کر اُڑ جاتی ہے، اُس کو ہم کہتے ہیں ہوا۔ اور جو چیز جلنے کی عمل میں ہوتی ہے، وہ ہے آگ۔ اور آگ میں کریکنگ کی جو آواز آتی ہے، وہ ہے پانی۔
تو ایمپیڈیکلیز نے اس تصور کو پوری کائنات کے تصور کے ساتھ جوڑا اور پوری "Cosmology” بنائی۔
جب یہ عناصر مختلف تناسب سے، مختلف طریقوں سے اکھٹے ہوتے ہیں یا جدا ہوتے ہیں، تو اِس کے نتیجے میں مادہ مختلف شکل اختیار کر لیتا ہے۔
٭ یہ کس طرح اکٹھے ہوتے ہیں اور کس طرح جدا ہوتے ہیں؟:۔ اس حوالے سے ایمپیڈیکلیز نے کہا کہ دو قوتیں کام کرتی ہیں؛ ایک ہے پیار (Love) اور دوسرا ہے (Strife) یعنی جنگ، یہ دو قوتیں اُن چار چیزوں کو مختلف تناسب سے یا تو اکٹھا کرتی ہیں، یا جدا کرتی ہیں…… اور اس طرح مادہ مختلف شکل اختیار کر لیتا ہے۔
ایمپیڈیکلیز کا یہ خیال تھا کہ اول تو یہ کائنات ہمیشہ سے تھی اور ہمیشہ تک رہے گی، مگر کسی ایک زمانے میں ایسا دور آیا کہ یہ چاروں عناصر ایک دائرے کے اندر موجود تھے۔ اُس دائرے کے اندر صرف اور صرف پیار تھا۔ جو اِن چاروں عناصر کو جوڑتا تھا۔ اس دائرے سے باہر سب نفرت (Strife) تھی۔ پھر جو نفرت کی قوت تھی، وہ اس دائرے کے اندر داخل ہوئی۔ جب داخل ہوئی، تو اِس کے نتیجے میں یہ چار عناصر بکھر گئے۔ جب بکھر گئے تو ستارے، دنیا، انسان اور کائنات کی شروعات ہوئی اور اب نفرت اور پیار ایک دوسرے کے ساتھ مِکس ہوکے ان چار عناصر کو مکس کرکے اس کے نتیجے میں مادے کی تمام شکلیں بنیں اور ایک وقت ایسا بھی آئے گا کہ جو نفرت ہے، وہ مرکز میں آجائے گی اور تمام عناصر بھکر جائیں گے۔
پیار کی قوت جو ہے، وہ کائنات کے آخری کونوں میں ہوگی اور نفرت مرکز میں۔ اس کے بعد یہ سائیکل "Repeat”ہوگی کہ پیار جو ہے، وہ دوبارہ مرکز میں آجائے گا اور نفرت باہر جائے گی۔ اس طرح یہ پوری سائیکل (Cycle) اس کائنات کا "Repeat” ہوگی۔
ایمپیڈیکلیز کا یہ خیال تھا کہ دنیا اس قسم کی سائیکل سے گزر چکی ہے اور ہمیشہ یہ کائنات اور دنیا گزرتی رہے گی۔
ایمپیڈیکلیز کا یہ کہنا تھا کہ جب نفرت اور پیار کے نتیجے میں مختلف عناصر آگے پیچھے ہوتے ہیں، اُن کی ترتیب تبدیل ہوتی ہے، تو اس سے پہلے زندگی پیدا ہوتی ہے، مگر زندگی عجیب و غریب طرح سے پیدا ہوتی ہے ۔ یعنی کہ کہیں پر بازو پیدا ہوجاتا ہے، مگر اس کے ساتھ کوئی بدن نہیں ہوتا۔ کہیں پر سر بدن کے بغیر، کہیں پر جسم کا ایک قسم کا حصہ اور کہیں پر جسم کی دوسری قسم کا حصہ۔ پھر مزید یہ کہ یہ جسم کے حصے بے ترتیبی سے عجیب و غریب ترتیب میں ایک دوسرے کے ساتھ جڑ جاتے ہیں۔ کہیں پر بازو ٹانگ کے ساتھ جڑا ہوا ہے، کہیں پر انسان کا چہرہ گھوڑے کے جسم کے ساتھ جڑا ہوا ہے۔
ایمپیڈیکلیز یہ کہتا تھا کہ ڈھیر ساری ان میں سے جو شکلیں ہیں، وہ تباہ و برباد ہو جاتی ہیں۔ کیوں کہ وہ "Survive” نہیں کرسکتیں۔ اور جو "Survive” کر جاتی ہیں، وہی آج کے موجود جانور ہیں۔
مزید یہ کہ ایمپیڈیکلیز نے پہلے وہ تھیری پیش کی کہ انسان دیکھتا کیسے ہے؟ ایمپیڈیکلیز کا یہ خیال تھا کہ کسی بھی چیز کو دیکھنے کے لیے آنکھوں سے شعاعیں نکلتی ہیں اور جب وہ شعاعیں کسی چیز کو چھوتی ہے، تو جس چیز کو چھوتی ہیں، وہ ہماری آنکھ میں پہلے سے موجود ہے۔ مثال کے طور پر اگر مَیں مٹی کو دیکھ رہا ہوں، تو جو زمین کا عنصر ہے، وہ میری آنکھوں میں موجود ہے۔ یعنی اگر مَیں آگ کو دیکھتا ہوں، تو آگ کا عنصر میری آنکھوں میں موجود ہے۔ اس طرح پانی اور ہوا کا عنصر بھی…… تو جس عنصر کو مَیں باہر دیکھتا ہوں، وہ میری آنکھوں میں بھی موجود ہے۔ اور وہاں آنکھ سے شعاعیں نکلتی ہیں اور وہ عنصر سے جُڑ (Connect) جاتی ہیں، تو اس چیز کو مَیں دیکھتا ہوں۔
یہ تھیری درست نہیں، مگر یہ پہلی تھیری تھی کہ جو یہ سمجھانے کی کوشش کر رہی تھی کہ انسان دیکھتا کیسے ہے؟ اس پر ڈھیر سارے لوگوں نے یقین بھی رکھا۔
آخر میں یہ کہ ایمپیڈیکلیز کا یہ خیال تھا، بالکل فیثا غورث (Pythagoras) کی طرح کہ انسان جب مر جاتا ہے، تو اُس کی روح کسی اور جسم میں منتقل ہو جاتی ہے۔
ایمپیڈیکلیز کا جو نقطۂ نظر تھا، اُس کا بہت اثر ہوا۔ خاص طور پر سائنس کی دنیا میں، یہ نقطۂ نظر کہ دنیا کا جو مادہ ہے، وہ چار عناصر سے بنا ہوا ہے، یہ 2000 سال تک سائنس کی بنیاد بنا۔ یعنی جب تک "Periodic Table” دریافت نہیں ہوا، بنیادی طور پر تمام سائنس دان یہ سمجھتے تھے کہ دنیا کے اندر مادہ چار عناصر سے بنا ہوا ہے۔
ایمپیڈیکلیز کی وفات اس طرح ہوئی کہ اس نے اپنے آپ کو ایک "Volcano” میں پھینک دیا۔ اس نے ایسا کیوں کیا؟ اس لیے کہ وہ یہ ثابت کرنا چاہتا تھا کہ وہ خود ایک قسم کا دیوتا ہے۔
ایمپیڈیکلیز کی تھیری کے ساتھ ایک اور بڑی دلچسپ تھیری ہے۔ میڈیکل سائنس میں اُس کا بڑا کردار ہے، اور وہ ہے "Hippocrates” کی تھیری۔ "Hippocratic Oath” جب ڈاکٹر لیتے ہیں، تو وہ اسی فرد پر بنیاد رکھتا ہے۔
٭ ہیپوکریٹس (Hippocrates):۔ ہیپوکریٹس کی پیدایش ہوتی ہے 460 قبلِ مسیح میں اور وفات ہو جاتی ہے 370 قبلِ مسیح میں۔
ہیپوکریٹس نے یہ تھیری بنائی کہ بالکل جس طرح دنیا میں چار مختلف عناصر ہیں، اُسی طرح انسان کے اندر چار مختلف "Humours liquids” ہیں۔ یعنی سب سے پہلے "Blood”، اُس کے بعد "Black Bile”، اُس کے بعد "Yellow Bile” اور اُس کے بعد "Phlegm”۔ جب اُن میں جو بھی متوازن (Balance) ہوتا ہے، تو ہماری شخصیت (Personality) بھی متوازن ہوجاتی ہے اور ہم صحت مند بھی ہوجاتے ہیں۔ جب ان میں کوئی ایک چیز غیر متوازن (Imbalance) ہو جائے، تو ہماری شخصیت بھی تبدیل ہو جاتی ہے۔ مثال کے طور پر اگر آپ کے جسم میں خون زیادہ ہوگا، تو آپ خوش مزاج ہوں گے۔ اگر "Black Bile” زیادہ ہے، تو آپ بہت "Depress” ہوں گے۔ اگر آپ کے اندر "Yellow Bile” زیادہ ہیں، تو آپ غصے والے بن جائیں گے اور اگر آپ "Phlegm” زیادہ ہوگا، تو آپ ڈھیلے بن جائیں گے۔
ہیپوکریٹس کا یہ خیال تھا کہ اگر ہم ان چار چیزوں کو کسی نہ کسی طرح بیلنس (Balance) میں لے آئیں، تو پھر ہم بیماریوں کو حل کر سکیں گے۔
اولین 16 لیکچر بالترتیب نیچے دیے گئے لنکس پر ملاحظہ کیے جاسکتے ہیں:
1)  https://lafzuna.com/history/s-33204/
2)  https://lafzuna.com/history/s-33215/
3)  https://lafzuna.com/history/s-33231/
4)  https://lafzuna.com/history/s-33254/
5)  https://lafzuna.com/history/s-33273/
6)  https://lafzuna.com/history/s-33289/
7)  https://lafzuna.com/history/s-33302/
8)  https://lafzuna.com/history/s-33342/
9)  https://lafzuna.com/history/s-33356/
10) https://lafzuna.com/history/s-33370/
11) https://lafzuna.com/history/s-33390/
12) https://lafzuna.com/history/s-33423/
13) https://lafzuna.com/history/s-33460/
14) https://lafzuna.com/history/s-33497/
15) https://lafzuna.com/history/s-33524/
16) https://lafzuna.com/history/s-33549/
……………………………………
لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com یا amjadalisahaab@gmail.com پر اِی میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے