انتخاب: احمد بلال
’’کاؤنٹ لیو ٹالسٹائی‘‘ ایک معزز، دولت مند گھرانے میں 1828ء کو پیدا ہوا۔ ٹالسٹائی کی جنم بھومی کا نام لسانیا پولیانا تھا۔
ٹالسٹائی خاندان روس کا ایک معزز اور دولت مند خاندان تھا، جس کا شمار شاہی خاندان میں ہوتا تھا۔ ’’پشکن‘‘ ٹالسٹائی کا رشتے دار تھا۔ پشکن کو ٹالسٹائی اپنا ’’چوتھا کزن‘‘ کہتا تھا۔ ماں باپ بچپن ہی میں فوت ہو گئے۔ قریبی عزیز و اقارب نے دیکھ بھال کی۔ پہلے ایک جرمن اُستاد اُسے گھر میں پڑھاتا رہا۔ پھر وہ ’’کازان یونیورسٹی‘‘ میں پڑھنے چلا گیا۔ پھر پیٹرز برگ اور پھر ماسکو۔
ٹالسٹائی معمولی نقش و نگار والا آدمی تھا۔ وہ اپنے بارے میں خود لکھتا ہے: ’’مجھے پتا تھا کہ میں قبول صورت نہیں۔ اس بات سے کبھی کبھی مجھے بڑی مایوسی ہوتی تھی اور مَیں سوچتا تھا کہ میرے جیسے چوڑے ناک اور موٹے موٹے ہونٹوں والے آدمی کے لیے اِس دنیا میں خوشی کا کوئی لمحہ نہیں ہوگا۔ اپنی چھوٹی چھوٹی زرد آنکھیں دیکھ کر مَیں خدا سے کہتا تھا کہ کوئی ایسا معجزہ ہو جائے جس سے میں خوب صورت بن جاؤں۔‘‘
ٹالسٹائی کی دعا خدا نے سن لی۔ اُسے جسمانی طور پر تو شاید خوب صورت نہ بنایا، لیکن لوگوں کی آنکھوں میں ایسی چمک بھر دی کہ جب بھی وہ ٹالسٹائی کے چہرے پر پڑتی تھیں، اُس کا چہرہ دنیا کا خوب صورت ترین چہرہ نظر آتا۔
ٹالسٹائی کی شخصیت اور فنی عظمت نے اُس کے چہرے پر ایسا حاشیہ لگایا کہ چہرے کے سارے نقش و نگار ستاروں کی طرح چمکنے لگے۔
ٹالسٹائی نواب تھا۔ بے شمار دولت تھی۔ بے شمار جائیداد تھی۔ اُس نے اپنی ابتدائی زندگی بہت عیش و عشرت میں گزاری۔ جوا، عورتوں سے تعلقات، جنسی روابط…… اُس نے وہ سب کچھ کیا جو اُس نے اپنی ڈائری میں لکھ کر صوفیا کو دیا تھا۔
ٹالسٹائی کی پہلی کتاب جس نے اُس کے نام کو پورے روس میں جانا پہچانا بنا دیا، وہ اس کی کتاب ’’بچپن، لڑکپن، جوانی‘‘ اور بے شمار کہانیاں۔ اور پھر ٹالسٹائی کی شہرت کو پَر لگ گئے…… لیکن وہ دو کتابیں جن سے وہ یورپ مغرب اور پوری دنیا میں مشہور ہوگیا، وہ
٭ ’’جنگ اور امن‘‘
٭ اور ’’اینا کریننا‘‘ تھیں۔
ان دونوں ناولوں کا شمار دنیا کے عظیم ناولوں میں ہوتا ہے۔ یہ دو ناول ہیں جنھیں بنیاد بنا کر ’’ای ایم فارسٹر‘‘ (E.M.Forster) نے اپنی کتاب (Aspects of the Novel) میں کہا تھا: ’’انگریزی زبان کا کوئی ناول نگار ایسا نہیں، جو ٹالسٹائی کا ہم پلہ ہو۔ اس لیے کہ وہ واحد ناول نگار ہے، جس نے آدمی کی زندگی کی بھر پور عکاسی کی ہے۔ گھر یلو زندگی میں بھی اور میدان جنگ میں بھی۔‘‘
دوستو یفسکی اور ٹالسٹائی ہم عصر تھے…… لیکن عجیب بات ہے کہ دونوں کی آپس میں کوئی ملاقات نہ ہوئی۔
ٹالسٹائی کا ناول ’’اینا کریننا‘‘ چھپا، تو دوستویفسکی نے اس پر ایک رسالے میں تبصرہ کیا اور ناول کی تعریف کی، مگر ٹالسٹائی کو شاید یہ تبصرہ پسند نہ آیا۔
جب دوستویفسکی کا ناول ’’جرم و سزا‘‘ چھپا، تو ٹالسٹائی نے ناول پڑھ کر رائے دی کہ یہ کیا ناول ہے، پہلے دو باب پڑھ کر ہی پتا چل جاتا ہے کہ آگے کیا ہونے والا ہے۔
دونوں بڑے لکھنے والوں کا درمیانی فاصلہ مٹانے کے لیے ایک مشترکہ دوست نے دونوں کی ملاقات کرانے کا منصوبہ بنایا۔ جگہ کا انتخاب بھی کیا، لیکن ملاقات نہ ہوسکی۔
ٹالسٹائی کی دوستوفسکی سے ملاقات تو نہ ہوسکی، لیکن جب اُس نے دوستویفسکی کی موت کی خبر سنی تو دھاڑیں مار مار کر رونے لگا اور کہا: ’’میرا دوست مر گیا ہے!‘‘
اور جب اسٹیشن ماسٹر کے گھر 82 سال کی عمر میں خود فوت ہوا، تو اُس کے سرہانے دوستوفسکی کا ناول ’’برادرز کرمازوف‘‘ رکھا ہوا تھا۔
’’دوستویفسکی‘‘، ’’ترگنیف‘‘، ’’گورکی‘‘، ’’ورجینیا وولف‘‘، ’’پروست‘‘ اور ’’جیمز جوائس‘‘…… سب نے ٹالسٹائی کی عظمت کو قبول کیا ہے ۔ اُس کے فن و شخصیت پر مقالے لکھے ہیں، لیکن مجھے چیخوف کی رائے بہت اچھی لگی۔
چیخوف، ٹالسٹائی کے فنی قد کاٹھ کو سلام کرتا اور کہتا ہے: ’’جب کسی ادب میں ٹالسٹائی جیسا بڑا ادیب موجود ہو، تو کسی آدمی کے لیے ادیب بننا بہت آسان ہو جاتا ہے۔ جب کہ اُسے پتا بھی ہو کہ وہ کچھ نہیں کر رہا…… لیکن پھر بھی وہ خوش ہوتا ہے۔ کیوں کہ جو سب ادیب مل کر کرنا چاہتے ہیں، وہ اکیلا ٹالسٹائی ہی کر رہا ہے۔‘‘
(یہ اقتباس دراصل ’’احمد عقیل روبی‘‘ کی کتاب ’’علم و دانش کے معمار‘‘ سے منتخب شدہ ہے، احمد بلال)
……………………………………
لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com یا amjadalisahaab@gmail.com پر اِی میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔