کچھ ڈاکٹر عرفان احمد خان کے بارے میں

Doctor Irfan Ahmad Khan

تحقیق و تحریر: ڈاکٹر ہارون رشید تبسّم
6 ستمبر ناول نگار، خاکہ نویس، مترجم، نقاد، محقق، مِزاح نویس، طنز نگار پروفیسر ڈاکٹر عرفان احمد خان کا یومِ ولادت ہے۔
اَدب کے اُفق پر اپنی انفرادیت رکھنے والے عرفان احمد خان 6 ستمبر 1960ء کو لاہور، پاکستان میں پیدا ہوئے۔ اُن کی وطن سے محبت اور سیمابی سرگرمیوں کے مطابق اُن کی تاریخِ پیدایش یومِ دفاع سے آن ملی ہے۔ اُن کی سال گرہ اِسی دن گہرے جوش و جذبے سے منائی جاتی ہے۔ اُن کے والد کا نام امان اللہ خان اور والدہ کا نام حفیظہ صباحت یاسمین ہے۔ اُنھوں نے یونیورسٹی آف ایجوکیشن لاہور سے ’’پاکستانی اُردو ناولٹ 1948ء سے 2016ء تک‘‘ کے موضوع پر پی ایچ ڈی کی ہے۔اُنھوں نے کئی تعلیمی اداروں میں درس و تدریس کے جوہر دکھائے ہیں۔ آج کل پنجاب یونی ورسٹی نیو کیمپس میں طالب علموں کو اُردو لٹریچر سے روشناس کر رہے ہیں۔ علاوہ ازیں عرفان احمد خان نے بینک آف پنجاب میں بھی جمع، تفریق، ضرب، تقسیم کا تجربہ حاصل کیا ہے۔ پیکجز لاہور میں گزرے 6 سال اُن کی محنت ِ شاقہ کے آئینہ دار ہیں، جس پر وہ شاہوں کے زیرِ سایہ ایک ناولٹ لکھ رہے ہیں۔ وہ اپنے آنے والے کل کو آج سے بہتر بنانے کے لیے ہمہ وقت مصروف عمل ہیں۔ کیوں کہ وہ ترقی پسند ہیں۔ اُن کی آٹو بائیوگرافی حکایت ڈائجسٹ میں ’’رہے نام اللہ کا‘‘ کے زیرِ عنوان شائع ہورہی ہے۔
ڈاکٹر صاحب ایک عرصے سے قلم و قرطاس کے رشتہ سے وابستہ ہیں۔ پہلا ناول ’’غازہ خور‘‘ (1995ء) میں منصہ ادب پر آیا۔ اُن کا ناول ’’آدھی روٹی کافی ہے‘‘ (1997ء) میں اَدب کا حصہ بنا۔ اِسی طرح ایک اور ناول ’’گزارا ایسے ہوتا ہے‘‘ (1998ء)میں زیورِ طباعت سے آراستہ ہوا۔ اِسی سال ’’آشنا‘‘ ناول بھی عوام الناس میں آشنائی حاصل کرگیا۔ اِسی سال اُنھوں نے خشونت سنگھ کے مشہور ناول ’’دلی‘‘ کا ترجمہ کیا۔ 1999ء میں کشمیر کے بارے میں اُن کا ناول ’ ’ ابھی بلا ٹلی نہیں‘‘ مقبول ہوا۔ اُن کی تحقیقی اور تنقیدی کتاب ’’شہاب نامہ‘‘ 1999ء میں ظہور پذیر ہوئی۔ ڈاکٹر عرفان احمد خان نے شہاب نامہ کے حوالے سے فکرِ عمیق کا مظاہرہ کیا۔ 2001ء میں مزاحیہ سیریز کی پہلی کتاب ’’اُردو کی آخری مکمل کتاب (حصہ 1)‘‘، شائع کی۔ اُن کی سبک رفتاری جاری رہی اور اُنھوں نے 2002ء میں ڈاکٹر وحید قریشی کی مشہور کتاب ’’شبلی کی حیاتِ معاشقہ‘‘ مناسب ترامیم اور فارسی اشعار کے ترجمے کے ساتھ شائع کی۔ 2005ء میں اُن کے اَدبی سرمایہ میں گِراں قدر اضافہ ہوا۔ ’’ٹرین ٹو پاکستان‘‘ (خشونت سنگھ کے انگلش ناول کا اُردو ترجمہ)، ’’خشونت سنگھ کے لطیفے‘‘ (انگلش سے اُردو ترجمہ )، ’’اُردو کی آخری مکمل کتاب (دوسرا حصہ) مقبولیت کے جھنڈے گاڑنے لگا۔ اِسی سال اُن کا ناول ’’مدہوش‘‘ بھی شائع ہوا۔
ڈاکٹر عرفان احمد خان نے 2007ء میں ڈاکٹر ذاکر نائیک کے خطبات اور مناظرے انگلش سے اُردو میں ترجمہ کیے۔ 2010ء میں نان فکشن کتاب ’’پاکستان پہ کیا گزری؟‘‘ نے نیک خیالات عام کیے۔ حضرت داتا گنج بخش علی ہجویری ؒ کی مشہور کتاب ’’کشف المحجوب‘‘ کا خلاصہ ’’انتخابِ کشف المحجوب‘‘ مرتب کیا، جس سے ہزاروں طالب علموں نے استفادہ کیا اور 5ہزار کتب صرف 4 گھنٹوں میں عرس داتا صاحب پر فروخت ہوئیں۔ 8 سال کی محنتِ شاقہ کے بعد 2015ء میں اُن کے تحریر کردہ خاکوں اور مضامین پر مشتمل کتاب ’’فیس بُک‘‘ نے تہلکہ مچا دیا۔ تصنیف و تالیف کا یہ سلسلہ ابھی کسی مقام پر رُکا نہیں۔ وہ مسلسل تحریری سفر پر گام زن ہیں۔
اخبارات، رسائل و جرائد میں شائع ہونے والی تحریروں میں بجلیاں کوندتی نظر آتی ہیں۔ ڈاکٹر عرفان احمد لفظوں کے تیز و تند بہاو سے کئی پیکر تراشنے کا تجربہ رکھتے ہیں۔ ڈاکٹر عرفان کی عرفانیت محسوس کرنے کے لیے قاری کا عرفان کام آسکتا ہے۔ وہ مسکراہٹوں کے پھول بکھیرنے کا تجربہ بھی رکھتے ہیں، لیکن ٹرین کی پٹڑی کا کانٹا بدلتے ہی اُن کے الفاظ آہنی شکنجے کھولنے کا ہنر بھی آجاتا ہے۔اپنی کتاب ’’فیس بک‘‘ کے بارے میں وہ یوں رقم طراز ہیں: بہت کچھ لکھا مگر کچھ نیا اور انوکھا لکھنے کی خواہش دل سے نہیں گئی۔ "FICTION” مگر اس باربھی لکھا۔ "NON-FICTION” بھی لکھا. FACTION یہ لفظ پہلی بار گیان سنگھ شاطر نے اپنی کتاب: ’’گیان سنگھ شاطر کی آپ بیتی کے لیے استعمال کیا) لکھنے کا تجربہ کیا یعنی حقائق سے قریب تر رہتے ہوئے ادبی اسلوب میں لکھنے کا تجربہ۔ مَیں نے ڈاکٹر مرزا حامد بیگ کا پورٹریٹ ’’مرزا ریڈاینڈ وائٹ‘‘ کے عنوان سے آج سے کئی سال قبل ( 2007ء)میں لکھا تھا، مگر یہ ارادہ قطعاً نہیں تھا کہ باقاعدہ خاکہ نگاری کے میدان میں کود پڑوں گا۔ ویسے بھی خاکہ نگاری کی تاریخ ابھی سو سال پرانی بھی نہیں ہوئی۔ خاکہ نگاری میں عصمت چغتائی کے ’’دوزخی‘‘، منٹو کے ’’میرا صاحب‘‘، ’’اشوک کمار‘‘، ’’پری چہرہ نسیم‘‘ اور احمد بشیر کی ’’چھپن چھُری‘‘ سے بہت متاثر ہوں، جس کا آئیڈیل مذکورہ شخصیات ہوں، وہ کم تر درجے کی چیز لکھنے کا تصور ہی نہیں کر سکتا۔‘‘
ڈاکٹر عرفان کے خاکوں اور مضامین میں طنز و مِزاح کی چاشنی بدرجۂ اتم موجود ہے۔ وہ کسی بھی موضوع پر سیر حاصل لکھنے کا تجربہ رکھتے ہیں اور گفت گو کا حوصلہ اُن کا بڑا کمال ہے۔ اُن کی شخصیت کی گپ شپ دوسروں کو زیر کرلیتی ہے۔ دوستوں کے اَدبی حصار میں اُن کے سامنے مشکل ہوجاتا ہے۔ مزاح کے حوالے سے اُن کی گفت گو اور تحریر میں پھول کی پتی کا جگر بھی ہے اورسنگلاخ چٹانوں سے ٹکرانے کا انداز بھی ۔
ڈاکٹر عرفان پھول، محبت، شبنم، تازگی، آنکھ اور سوچ کے گہرے سمندر میں غوطہ زن رہتے ہیں۔ مزاح لکھنا دو دھاری تلوارہے لیکن ڈاکٹرعرفان کسی کی پروا کیے بغیر اس تلوار پر صرف چلتے ہی نہیں بل کہ بھاگتے ہیں اور اپنے پاؤں کی حفاظت بھی کرلیتے ہیں۔ ایوارڈز سے عرفان احمد کو کوئی دلچسپی نہیں، ماضی میں اُنھوں نے بہت سارے ایوارڈز کو لینے سے انکار کردیا ہے اور مرتے دم تک ایسا ہی رہنا ہے۔
نوٹ: ڈاکٹر عرفان احمد خان باقاعدہ طور پر لفظونہ ڈاٹ کام کے لیے لکھتے رہتے ہیں۔ ان کی نگارشات پڑھنے کے لیے نیچے دیے گئے لنک پر کلک کیجیے:
https://lafzuna.com/author/irfan-khan/
……………………………………
لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com یا amjadalisahaab@gmail.com پر اِی میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے