موبائل فون کا ہماری زندگی پر منفی اثر

چند سال پہلے تک جب موبائل فون نہیں تھا، تو زندگی میں سکون ہی سکون تھا۔ تب لوگوں کے پاس وقت بھی ہوتا تھا اور رشتوں میں خلوص و مروت کی چاشنی بھی تھی۔ اپنے عزیزوں، دوستوں اور پیاروں کی خوشی اور غمی میں شمولیت لازمی بھی تھی اور اس کے لیے وقت بھی نکل آتا تھا۔ تب رشتوں میں مصنوعی پن تھا اور نہ جذبات کے اظہار میں رنگ بازی کی آمیزش ہوتی تھی۔ پھر موبائل فون آگیا۔ یہ گویا ایک جادوئی ’’گیجٹ‘‘ (Gadget) تھا۔ لوگ موبائل فون کی ایجاد سے بھی اسی طرح حیرت زدہ تھے، جس طرح ریڈیو کی ایجاد سے ہوئے تھے۔ شروع میں موبائل پر صرف کال کرنے اور سننے کی سہولت میسر تھی، مگر اس سہولت نے بھی بہت آسانی پیدا کر دی تھی۔
رفیع صحرائی کی دیگر تحاریر پڑھنے کے لیے نیچے دیے گئے لنک پر کلک کیجیے:
https://lafzuna.com/author/rafi/
وقت گزرتا گیا اور موبائل فون میں بھی جدت آتی گئی۔ اب یہ عالم ہوگیا ہے کہ ایک اکیلے موبائل نے اپنے اندر درجنوں ایجادات کو سمولیا ہے اور عفریت بن کر بہت سی سہولتوں کو کھا لیا ہے۔ موبائل نے کیلکولیٹر کو ہضم کرلیا۔ کیمرے کی اہمیت کو زیرو کر دیا۔ ٹارچ کو نگل لیا اور ڈاک کے ذریعے رابطے کی اہمیت کو سرے سے ختم ہی کر دیا۔
عید کے موقع پر دوستوں اور رشتہ داروں کو عید کارڈ بھیجے جاتے تھے، جنھیں وصول کرنے والا سالوں تک یادگار کے طور پر اپنے پاس محفوظ رکھتا اور بھیجنے والے کا لمس محسوس کرتا رہتا تھا، مگر اب ڈاک کی بجائے واٹس ایپ، ٹوئٹر،ایمو، انسٹا گرام اور میسنجر پر عید کارڈ روانہ کیے جاتے ہیں۔ ویڈیو کیمرے کی اہمیت نہ ہونے کے برابر رہ گئی ہے۔ اب موبائل پر ویڈیو بنائیں اور اگلے ہی لمحے جسے چاہیں، اُس کو بھیج دیں۔ جو واقعہ، فنکشن یا اہم ایونٹ چاہیں براہِ راست دیکھ لیں اور ساتھ ساتھ اسے ریکارڈ بھی کرلیں۔ موبائل نے ریڈیو اور ٹیلی وِژن کی شہ رگ پر بھی وار کیا ہے۔ آپ موبائل پر ریڈیو اور ٹیلی وِژن پروگرامز جب چاہیں دیکھ اور سن سکتے ہیں۔ یہ ٹیپ ریکارڈر اور وی سی آر کو باقاعدہ ہضم کرنے کے بعد ڈکار بھی مار چکا ہے۔
پہلے یہ ہوتا تھا کہ کسی کی بیماری کی خبر بذریعہ خط دی جاتی اور جب خط وصول کرنے والا عیادت کو پہنچتا، تو مریض کو فوت ہوئے چند روز ہوچکے ہوتے تھے، مگر اب ایک فون کال پر تمام حالات سے آگاہی ہو جاتی ہے۔ فون پر ہی عیادت کا فریضہ بھی سرانجام پا جاتا ہے۔
موبائل فون موسم کے حالات بتاتا ہے۔ آپ اس کے ذریعے دنیا میں ہر وقت، ہر جگہ رابطے میں رہتے ہیں۔ ایک اکیلے موبائل نے انسان کو بے شمار سہولتیں دے دی ہیں۔ اس کے استعمال سے وہ اپنا بہت سا وقت بچالیتا ہے۔ ہونا تو یہ چاہیے کہ انسان کے پاس موبائل فون کے استعمال کی وجہ سے بہت سا وقت واقعتا بچ جائے، مگر اس کے برعکس اب لوگوں کے پاس وقت کی قلت ہوگئی ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ موبائل فون کے فنکشنز اور سہولیات نے ہمیں غیر ضروری طور پر مصروف کر دیا ہے۔ جس کے نتیجے میں ہم نہ صرف خود تنہا ہوتے جا رہے ہیں، بلکہ اپنے آس پاس اور قریب کے رشتوں سے بھی محروم ہو رہے ہیں۔
ایک پرائمری اسکول ٹیچر نے کلاس کے بچوں کو کلاس ورک دیا کہ تمام بچے ایک مضمون لکھیں: ’’وہ خدا سے کیا چاہتے ہیں؟‘‘ سب بچوں نے مضمون لکھا۔ وہ ٹیچر تمام بچوں کے مضامین اپنے گھر پر چیک کرنے لگی۔ اس دوران میں ایک مضمون نے اس کو آب دیدہ کر دیا۔ اُس کا شوہر اُس کے قریب ہی بیٹھا تھا۔ اُس کے آنسو دیکھ کر اس نے پوچھا: ’’کیا ہوا؟‘‘
ٹیچر بولی ’’یہ مضمون پڑھیے یہ ایک بچے نے لکھا ہے!‘‘
شوہر نے مضمون پڑھنا شروع کیا: ’’اے خدا آج میں آپ سے بہت خاص مانگتا ہوں۔ اے خدا مجھے موبائل فون بنا دے۔ مَیں موبائل بننا چاہتا ہوں۔ ایسے ہی جینا چاہتا ہوں جیسے میرے گھر میں موجود موبائل فون جی رہا ہے۔ مَیں موبائل کی جگہ لے کر بہت خاص بننا چاہتا ہوں۔ مَیں اپنے ماں باپ، بھائی بہنوں کے پاس رہنا چاہتا ہوں۔ مَیں تمام گھر والوں کی توجہ کا مرکز بننا چاہتا ہوں۔ موبائل فون بن جانے کی صورت میں نہ ہی کوئی مجھے ڈانٹ ڈپٹ، مار پیٹ کرے گا اور نہ کوئی مجھے خود سے الگ کرے گا۔ مَیں ایسی ہی خاص احتیاط کے ساتھ استعمال کیا جاؤں گا جیسے میرے گھر والے موبائل کو استعمال کرتے ہیں۔ جب فون خراب ہوجاتا ہے، تو اس کی طرح وہ میری ذرا سی خرابی سے بہت پریشان ہوں جائیں گے۔ مَیں اپنے ابو کی ویسی توجہ کا مرکز بن جاؤں گا، جیسی توجہ وہ موبائل کو دیتے ہیں کہ آفس سے آتے جاتے، گھر پر ہر جگہ اس کی طرف متوجہ رہتے ہیں۔ چاہے ابو کتنے ہھی تھکے ہوئے ہوں، وہ صرف مجھ کو ہی توجہ دیں گے۔مَیں چاہتا ہوں کہ میری امی بھی میری طرف ایسے ہی متوجہ رہیں، جیسے وہ موبائل کی طرف متوجہ رہتی ہیں۔ چاہے وہ کتنی ہی پریشان اور غصے میں ہوں گی، مجھے نظر انداز کرنے کی بجائے وہ میری طرف متوجہ رہیں گی۔ مجھے دیکھ کر مسکرائیں گی، ہنسیں گی۔ میرے بھائی بہن جو مجھ سے لڑتے اور جھگڑتے رہتے ہیں۔ میرے موبائل بن جانے کے بعد میرے اردگرد رہیں گے۔ میرے لیے امی ابو کی منتیں کریں گے اور اس طرح سب کے سب میری طرف متوجہ رہیں گے۔ آخر میں سب سے بڑھ کر یہ کہ سب گھر والے جو میری وجہ سے پریشان رہتے ہیں اور غصہ کرتے ہیں، میرے موبائل بن جانے کے بعد مَیں ان سب کو ایسے ہی خوش و خرم رکھ سکوں گا، جیسے وہ موبائل کو پکڑ کر خوش و خرم رہتے ہیں۔
اے خدا! مَیں نے تجھ سے زیادہ نہیں مانگا بس یہ مانگا ہے کہ مجھے موبائل بنا دے۔ مجھے اس کی جگہ دے دے۔‘‘
ٹیچر کے شوہر نے افسوس ناک انداز سے بیگم کو دیکھتے ہوئے کہا: ’’اے خدایا! کتنا مایوس بچہ ہے۔ بے چارے کے ساتھ کتنا برا ہوتا ہے اس کے گھر میں، اس کے والدین اور بہن بھائیوں کی طرف سے۔‘‘
ٹیچر نے نظریں اُٹھا کر اپنے شوہر کی طرف دیکھا اور کہا: ’’یہ مضمون ہمارے اپنے بچے کا لکھا ہوا ہے۔‘‘
یہ کہانی تو یہاں ختم ہوگئی لیکن یہ صرف کہانی نہیں تھی۔ یہ ہم سب کا معاملہ ہے۔ ہم اپنے والدین، بہن بھائیوں اور بچوں سے بہت دور ہوتے جا رہے ہیں۔ موبائل اور کمپیوٹر پر ہمارا زیادہ وقت گزرتا ہے۔ کیا یہ بہتر نہیں کہ ہم ایک منٹ کے لیے رُک جائیں اور اپنی روٹین کو دیکھیں کہ ہم کس کس کو مناسب وقت نہیں دے پا رہے اور اپنی روٹین کو درست کریں۔ مشینوں سے نکل کر انسانوں میں وقت گزاریں۔ ہمیں خود اپنا محاسبہ کرنا ہو گا کہ ہم نے اپنے کون کون سے رشتے موبائل فون کی بھینٹ چڑھا دیے ہیں۔
ذرا سوچئے! اس سے پہلے کہ بہت دیر ہوجائے۔
……………………………………
لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com یا amjadalisahaab@gmail.com پر اِی میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے