ڈاکٹر معین قریشی (مرحوم)

پیدایش:۔ 15 ستمبر 1942ء
انتقال:۔ 20 ستمبر 2021ء
ڈاکٹر معین قریشی صاحب سے غائبانہ تعارف تو بہت پُرانا تھا لیکن بالمشافہ ملاقات دسمبر 2019ء میں ہوئی۔ اُنھیں اپنا گھر سمجھانے اور ہمیں سمجھنے میں خاصی دیر لگی۔ خیر، پہنچ ہی گئے ۔ گھر پر ’’سکندر ہاؤس‘‘ کی بارعب تختی لگی ہوئی تھی۔ ظاہر ہے سکندر کے گھر آنا ہر کسی کے بس کی بات نہیں تھی۔ مجھے اُن کے ملازم نے لائبریری میں بٹھایا جو بہت صاف ستھری اور منظم لگ رہی تھی۔ "First Impression is Last Impression.” میں بہت متاثر ہوا۔ کچھ دیر بعد ملازم چائے کے ساتھ خاصا کھانے پینے کا سامان رکھ گیا۔ جب میں کھایا پیا ڈکار گیا، تو ڈاکٹر معین قریشی صاحب جلوہ افروز ہوئے۔ سفید شلوار قمیص میں ملبوس باوقار لگ رہے تھے۔ ہاتھ ملانے، گلے لگنے کے بعد ہماری گفت گو شروع ہوئی۔ مَیں نے اُس چھوٹی سی رائٹنگ ٹیبل کی طرف اشارہ کیا جو اکثر پٹواریوں کے ہاں دیکھی تھی، یا پھر رحان مذنب صاحب کو اس پر کاغذ رکھ کر لکھتے دیکھا تھا۔ مسکرائے اور بتایا کہ میرا یہ طریقۂ کار بہت پرانا ہے۔ اُن کی لائبریری میں بہت اہم اور نایاب کتابیں موجود تھیں۔ مَیں نے اپنی کتابیں وہاں دیکھنی چاہئیں، تو وہ کتابوں کا کھاتا دیکھنے لگے اور بتایا کہ میری کچھ کتابیں اُن کے پاس کسی اور کمرے میں موجود ہیں۔ مجھے حوصلہ ہوا۔ اچانک مجھ سے پوچھا: ’’آپ کی کوئی کتاب اس سال 2019ء میں شائع ہوئی ہے؟‘‘ میں نے جواباً ’’مجبور آوازیں‘‘ کا بتایا، تو تاسف سے سر ہلاتے ہوئے بولے: ’’اس سال اگر آپ کا کوئی ناول آیا ہوتا، تو ہم اُسے "UBL PRIZE” دلوا دیتے۔‘‘ مَیں نے مسکراتے ہوئے اُن کی مایوسی کو خوشی میں بدلنا چاہا: ’’ڈاکٹر صاحب! کوئی بات نہیں۔ سعادت حسن منٹو کو کوئی ایوارڈ نہیں ملا، مگر اُس کی شہرت 100 ایوارڈ یافتگان پر بھاری ہے۔‘‘ میرا تیر نشانے پر لگا۔ مسکرائے ہوئے بولے: ’’اصل میں ایوارڈ جیوری میں میرا نام بھی شامل ہے۔ سوچا کہ آپ کو بھی ایوارڈ دلواتاچلوں!‘‘ مجھے اُن کا ’’دلواتا چلوں‘‘ کہنا مزیدار لگا۔ اَب مَیں نے جواب میں جملہ پھینکا: ’’ڈاکٹر صاحب! یہ کیا بات کری آپ نے؟ مجھے آپ سے یہ اُمید نہیں تھی۔‘‘ اب وہ کھلکھلائے: ’’عرفان صاحب! مجھے پتا ہے کہ آپ نے اپنے جملے میں ’’کر ی‘‘ کا استعمال خاص ہم کراچی والوں کے لیے کیا ہے۔ ورنہ آپ لوگ تو ’’کی‘‘ ہی کہتے ہیں۔‘‘
ڈاکٹر عرفان احمد خان کی دیگر تحاریر پڑھنے کے لیے نیچے دیے گئے لنک پر کلک کیجیے:
https://lafzuna.com/author/irfan-khan/
خیر، دوسری باتیں شروع ہوئیں۔ اُنھوں نے مجھے اپنے ایک زیرِ تصنیف مضمون کا کمپیوٹر پرنٹ دکھایا۔ مضمون مشہور مزاحیہ شاعر ضمیر جعفری کے بارے میں تھا۔ مَیں نے پڑھ لیا، تو انھوں نے پوچھا: ’’کیسا لگا؟‘‘ مَیں نے کہا: ’’ایک توصیفی اور صحافتی سا مضمون ہے۔ اسے ہم تحقیقی، تنقیدی یا اَدبی مضمون نہیں کَہ سکتے۔‘‘ وہ تھوڑے سے سنجیدہ ہوئے : ’’تو آپ کے خیال میں اس میں مزید کیا ہونا چاہیے تھا؟‘‘ اس کے بعد جو کچھ مَیں نے اُنھیں بتایا سن کر سناٹے میں آ گئے۔ مَیں نے اُنھیں بتایا کہ ضمیر جعفری پیسے کے بارے میں ازحد لالچی اور بے ضمیر تھے۔ وہ پاکستان بھر میں چار پنشن وصول کرنے کا منفرد ریکارڈ رکھتے تھے۔ پہلی پنشن اُنھوں نے برٹش آرمی سے لی۔ دوسری پاک آرمی سے، تیسری سی ڈی اے اسلام آباد سے، چوتھی پاکستان نیشنل سینٹر اسلام آباد سے اور پانچویں گریڈ 19کی نوکری انھوں نے اکادمی ادبیات اسلام آباد کے رسالے ’’ادبیات‘‘ کے ایڈیٹر کی بھی کی۔ یہ سب ’’بھاگ لگے رہن والا‘‘ معاملہ جی ایچ کیو کی وجہ سے تھا اور کئی حیثیتوں کے ساتھ آج بھی ہے۔‘‘
ڈاکٹر معین قریشی سابقہ سرکاری ملازم تھے۔ سوشل سیکورٹی ڈیپارٹمنٹ سندھ کے سربراہ رہ چکے تھے۔ وہ قلمی تجاوزات کے حق میں نہیں تھے۔ سب سے بنا کر رکھتے تھے۔ انھوں نے اس تاریخی ملاقات میں مجھے بتایا کہ فاطمہ حسن جو اَب شاید ڈاکٹر بھی ہوگئی ہے، اُن کے ہی محکمے میں تھی اور اپنی سازشوں سے اُن کی نوکری بھی خطرے میں ڈالتی رہی۔ پھر اُنھوں نے مجھے اپنی ’’تازہ ترین‘‘ کتاب (جو ادبی مغالطوں کے بارے میں تھی) دکھائی۔ مجھے اچھی لگی، تو اُنھوں نے اُس کے 49 مسترد شدہ (اغلاط کے ساتھ) مسودے دکھائے اور کہا: ’’مَیں اتنی محنت کرتا ہوں اپنی کتاب پر۔ کمپوزر رکھا ہوا ہے مگر پھر بھی یہ سب کچھ کرنا پڑتا ہے۔‘‘ ہماری ملاقات چار گھنٹے جاری رہی۔ پھر اُن سے فون پر رابطہ رہا۔ وہ ’’بائے پوسٹ‘‘ میرے ادارے کی کتابوں پر اپنے تبصرے (روزنامہ نوائے وقت، کراچی) بھی بھجواتے رہے۔ پھر اُن کے بیمار ہونے کا پتا چلا اور ایک دن اُن کی وفات کی خبر آ گئی۔ یوں ہماری اَدبی دوستی اور تعلق کا ایک دور ختم ہوا۔ بہت عاجزانہ انداز میں ملنے والے اعلا ظرف انسان تھے۔ اپنے گِراں قدر کام پر بھی نازاں نہیں تھے۔ زبان و بیاں پر یکساں عبور رکھتے تھے۔ پی ایچ ڈی ڈاکٹر تھے اور سیر و سیاحت کے بڑے شوقین تھے۔ میرے کہنے پر اُنھوں نے سردار پور جھنڈیر لائبریری، میلسی کے لیے 200منتخب کتابوں کا عطیہ بھی دیا۔ یہ بات میرے لیے ہمیشہ باعثِ مسرت رہے گی۔
اللہ اُن کو دوسرے جہان میں بھی خوش و خرم رکھے اور اُن کے درجات بلند کرے!
……………………………………
لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com یا amjadalisahaab@gmail.com پر اِی میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے