مجھے ایک ’’ای میل‘‘ موصول ہوئی جس میں لکھنے والے نے ایک خاتون کا رویہ بیان کیا اور مجھ سے پوچھنا چاہا کہ آخر یہ رویہ کیا ہے اور وہ ایسا کیوں کررہی ہیں؟ ویسے کسی کا بھی رویہ ہوبہو معلوم کرنا وہ بھی بِنا اُس انسان سے بات کیے، ممکن نہیں…… البتہ کچھ رویے ہمارے معاشرے میں عام ہوتے ہیں لیکن وہ رویے ’’ٹاکسک‘‘ ہوتے ہیں۔
ای میل میں وہ جناب کچھ یوں فرماتے ہیں:
’’ایک خاتون گذشتہ دس برس سے افسانہ لکھ رہی ہیں۔ سال بھر پہلے ان کی افسانوں کی پہلی کتاب شائع ہوئی۔لوگوں نے تبصرے لکھے، جن میں سے کئی سارے تعریف اور بہت کم تنقیدی تھے۔خاتون جینوین رائٹر ہیں۔ ہوا یہ کہ سرحد پار کے ایک مشہور رسالے میں انھوں نے اپنا افسانہ بھیجا جو کسی وجہ سے شامل نہیں کیا گیا اور کسی سینئر رائٹر کا افسانہ بغیر اس کی اجازت کے شامل کر لیا گیا۔ خاتون اس پر اس قدر سیخ پا ہوئیں کہ انھوں نے سینئر رائٹر پر الزام لگایا کہ اس نے ان کے افسانے سے خیال چوری کر کے افسانہ لکھا ہے۔ حالاں کہ سینئر کا افسانہ خاتون کے افسانے سے کافی پہلے لکھا گیا تھا۔ اب حال یہ ہے کہ انھیں ہر کسی کے افسانے میں اپنے افسانوں کے چوری شدہ آئیڈیاز نظر آنے لگے ہیں۔ خاتون شہر میں نہیں بلکہ ایسے گاوں میں رہتی ہیں، جہاں بجلی بھی پورا دن نہیں ہوتی۔ سخت پردے اور ’’میل شوینزم‘‘ کا ماحول ہے۔ اس ادبی بددیانتی (جو کہ حقیقت میں نہیں ہوئی) کا الزام وہ انباکس میں لگاتی ہیں۔ کسی فورم یا جہاں افسانہ شائع ہوا وہاں نہیں۔ کیا یہ معروف رسالے میں ان کا افسانہ شائع نہ ہونے کا ردِ عمل ہے؟ یا یہ کسی قسم کا ’’ڈس آڈر‘‘ ہے کہ روز بہ روز وہ تلخ سے تلخ تر ہو رہی ہیں اور کہتی ہیں کہ انھیں رد کر دیا گیا ہے۔ حالاں کہ اب بھی ان کے افسانوں کی تعریف پر کچھ نہ کچھ لکھا جا رہا۔ نفسیات کا مطالعہ کافی ہے اور ٹرمز کا حوالہ دیتی رہتی ہیں۔ وقت ملے تو روشنی ڈالیے گا اس پر۔
شکریہ!‘‘
ندا اسحاق کی دیگر تحاریر پڑھنے کے لیے نیچے دیے گئے لنک پر کلک کیجیے:
https://lafzuna.com/author/ishaq/
٭ کیا ہے یہ رویہ؟
یہ ہوتی ہے احساسِ حق داریت جو ہمارے یہاں بہت لوگوں میں پائی جاتی ہے۔ ہمارے گھر، خاندان اور آفس میں موجود کچھ افراد، دوست، طاقت ور طبقہ یہ سوچتے ہیں کہ انھیں کسی کے احساسات یا وقت کا خیال رکھنے کی ضرورت نہیں۔ وہ آپ کے حقوق کو کچلتے ہوئے جائیں، لیکن آپ کو اُن کی حرکتوں پر آواز اٹھانے کا حق نہیں۔ آپ اُن پر تنقید کرنے کا کوئی اختیار نہیں رکھتے۔ ہمارے گھر میں ہمارا کوئی بھائی/ بہن یا والد/ والدہ جو احساسِ حق داریت کا شکار ہوں تو سب کو ان کے مطابق چلنا پڑتا ہے اور وہ صاف صاف کہتے ہیں کہ انھیں کسی کی پروا نہیں۔ اگر آپ کی زندگی میں کوئی ایسا ہے جو آپ کے وقت، جذبات اور احساسات کی قدر نہیں کرتا، تو اس کے ساتھ حدود (Boundaries) مقرر کیجیے۔ انھیں اپنا فائدہ اٹھانے نہیں دیں (لیکن یہ سب یقینا کہنا آسان ہے اور کرنا اتنا ہی مشکل۔) اُنھیں بتائیے کہ اگر اُنھوں نے آپ کے پسند ناپسند، وقت، جذبات کا احساس نہیں کیا، تو آپ سے بھی کوئی توقع نہ رکھی جائے۔
ایسی باتیں لڑتے ہوئے نہیں کہا کریں، بلکہ عمل کرکے دوسروں کو احساس دلائیں…… اور اگر کوئی آپ کے نئے رویے کی وضاحت مانگے، تو سیخ پا ہو کر کہ تم ٹاکسک، نارساسسٹ ہو (وغیرہ وغیرہ) کہنے سے گریز کریں اور گفت گو (Communication) کے ذریعے بتائیں کہ آپ اپنے وقت اور خیالات کے اظہار کا احترام چاہتے ہیں۔
٭ اب آتے ہیں خاتون کے کیس پر۔ یقینا رد ہونا ہم سب کو تکلیف دیتا ہے۔ ہم میں سے کوئی بھی یہ نہیں کہتا کہ اچھا لگا رد ہوکر……!
لیکن عام انسان رد ہونے کے بعد تھوڑا ماتم کرتا ہے، افسردہ ہوتا ہے اور پھر آگے بڑھ جاتا ہے۔
البتہ جو لوگ احساسِ حق داریت میں ہوتے ہیں، انھیں رد ہونا زیادہ تکلیف دیتا ہے۔ کیوں کہ انھیں لگتا ہے کہ ان کا ہر افسانہ یا ہر کام صرف سراہا جائے۔ ایسے میں جب کوئی اُن کے کام پر تنقید کرتا ہے، تو اُن سے برداشت نہیں ہوتا اور ان کے غیر آرام دہ جذبات (Uncomfortable Emotions) سطح پر آجاتے ہیں، جو ان سے سنبھالے نہیں جاتے اور یہی وجہ ہے کہ وہ اس پر بہت تلخ ردِ عمل دیتے ہیں۔ اکثر افواہیں پھیلاتے ہیں یا پھر جھگڑنے لگتے ہیں…… یا پھر الزام تراشیاں کرنے لگتے ہیں یا پھر ’’اِن باکس‘‘ میں جاکر اپنے غیر آرام دہ جذبات کا اظہار کردیتے ہیں۔ کیوں کہ انھیں اسے سکون کے ساتھ بیٹھ کر پراسس کرنا نہیں آتا۔ وہ اس بات کو ماننے کو تیار نہیں ہوتے کہ ان کا کام برا بھی ہوسکتا ہے۔ یہ ٹاکسک (Toxic) رویہ ہے۔
چوں کہ خاتون ایک پس ماندہ علاقے میں رہتی ہیں، جہاں اُنھیں یقینا مختلف ٹروما کا سامنا رہا ہوگا…… تبھی ان کے مزاج میں تلخی اور نرگسیت (Narcissism) کے رجحانات ہیں (نارساسزم کے متعلق میں یقین سے نہیں کَہ سکتی۔ کیوں کہ مَیں خاتون کے متعلق نہیں جانتی اور مَیں محض اس رویے پر روشنی ڈال رہی ہوں۔) اکثر جب بہت زیادہ غلط طریقے سے لاڈ ملے اور ہم دردی کو کم زوری کی نشانی سمجھا جائے، تو نارساسزم جنم لیتا ہے…… یا پھر جب والدین نرگسیت پسند ہوں، یا پھر ٹروما سے گزرنا پڑا ہو، بچپن میں…… تب کچھ بچوں میں نرگسیت پسندی اپنی جگہ بنا لیتی ہے۔ لیکن اس کا یہ مطلب نہیں کہ ہم دوسروں کے ٹاکسک رویوں کو نظر انداز کردیں۔ کیوں کہ وہ ٹروما سے گزرے ہیں۔ آپ دوسروں کے ٹروما کو برداشت کرنے کے لیے ذمے دار نہیں۔
دوسری وجہ یہ بھی ہوسکتی ہے کہ بہت ممکن ہے کہ ان خاتون نے اس تنقید کو اپنی ذات پر لے لیا ہے۔ اُنھیں اس بات کا اندازہ نہیں کہ افسانہ پر ہوئی تنقید، یا رَد کیا جانے والا افسانہ محض ان کا کام ہے جسے رد کیا گیا نہ کہ ان کی ذات…… اُنھیں اپنے کام کو اپنی ذات سے الگ رکھنا چاہیے۔ یوں اگر کوئی بھی کام کو رد کرے گا، تو اُنھیں ایسا محسوس نہیں ہوگا کہ کسی نے ان کی ذات کو رد کیا ہے۔
ہم اکثر اپنی خود توقیری (Self-esteem) اور خود قابل قدری (Self-worth) کو اپنے کام کے ساتھ جوڑ لیتے ہیں اور پھر جب کوئی ہمارے کام کو رَد کرتا ہے، تو ہمیں یوں محسوس ہوتا ہے کہ جیسے اس نے ہمیں نیچا دکھایا ہو اور پھر ہمارا ردِ عمل بہت تلخ ہوتا ہے…… اور ہم بہت برا محسوس کرتے ہیں اپنے متعلق۔
جذباتی ذہانت (Emotional Intelligence) یہی ہوتی ہے کہ جب کوئی آپ کو ناپسند یا رَد کرے، تو آپ اُسے قبول کرکے آگے بڑھ جائیں، نہ کہ دوسروں کے ’’اِن باکس‘‘ میں جاکر یا انھیں فون کرکے، اُن کے گھر جاکر شور مچانا شروع کردیں کہ تم نے ایسا کیوں کیا وغیرہ وغیرہ۔
ان خاتون کو اس بات کو قبول کرنا چاہیے کہ رَد ہونا یا تنقید ہونا زندگی کا ایک حصہ ہے اور دوسروں کو الزام دینا یا مزید تلخی کا مظاہرہ کرنا انھیں اور تکلیف دے گا۔ زندگی ’’ری جیکشن‘‘ اور تنقید سے بھری پڑی ہے۔ آپ کس کس سے لڑیں گے۔
یہاں اس بات کو قبول کرنا کہ ان کا کام رد کیا جاسکتا ہے اور اس کا ان کی خود قابل قدری (Self Worth) سے کوئی تعلق نہیں…… ان کی ذہنی صحت کے لیے بہتر ہوگا۔
……………………………………
لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com یا amjadalisahaab@gmail.com پر اِی میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔