تحریر: سجیل کاظمی
نشاطِ ثانیہ کی ہیومین ازم کی ڈاکٹرائن نے اور پرنٹنگ پریس نے یورپ کی تاریخ، زندگی اور سماج پر بہت گہرے اثرات مرتب کیے۔ ان چیزوں میں مذہب بھی شامل تھا۔ ’’احتجاجی مسیحیت‘‘ سے پہلے یورپ کے زیادہ تر عیسائی ہی عیسائیت کے فرقے ’’رومن کیتھولک‘‘ سے تعلق رکھتے تھے۔ ’’رومن کیتھولک چرچ‘‘ کی مذہب پر کافی حد تک اجارہ داری تھی۔ بائبل لاطینی میں ہوا کرتی تھی اور ظاہر ہے عام لوگ تو لاطینی زبان نہیں جانتے تھے، تو پادری ہی انھیں بائبل پڑھ کر سنایا کرتے اور بتاتے کہ اس میں یہ لکھا اور یہ اس چیز کا حکم دیتی ہے۔ جو کوئی ترجمہ ہوتا بھی تھا، تو وہ بھی چرچ کی نگرانی میں ہوتا تھا اور چرچ اپنی تعلیمات کے مطابق ہی اُس کا ترجمہ کرواتا تھا اور صرف اپنی مرضی کے لوگوں تک ہی اُس کی رسائی ہوتی تھی۔
٭ وجوہات:۔
اس بات سے فائدہ اٹھاتے ہوئے چرچ کے لوگوں نے جنت کے ٹکٹ بیچنا شروع کر دیے۔ اس بات کو سمجھنے کے لیے آپ کیتھولک عیسائیوں کے ’’موت کے بعد کیا ہوتا ہے‘‘ کے عقیدے کو سمجھنا ہوگا، تو کیتھولک عیسائیوں کا ماننا ہے کہ بری روحیں جہنم میں، اچھی روحیں جنت میں جاتی ہیں…… لیکن وہ روحیں جن کی نیکیاں اتنی زیادہ نہیں ہوتیں کہ وہ فوراً جنت میں داخل ہوں اور نہ گناہ ہی اتنے زیادہ ہوتے ہیں کہ انھیں جہنم میں ڈال دیا جائے، وہ "Purgatory” میں چلی جاتی ہے، تو چرچ کا دعوا تھا کہ پاپائے اعظم کے پاس یہ اختیار ہے کہ وہ ارواح کو "Purgatory” سے آزاد کرکے جنت میں داخل کرسکتے ہیں اور اس کے علاوہ زندہ لوگوں کے گناہ بھی معاف کروا سکتے ہیں۔ اس کے لیے وہ اُن لوگوں سے پیسے مانگتے تھے اور پیسے لینے کے بعد وہ ایک پرچی لکھ کر دے دیا کرتے تھے، جس پر معافی کا لکھا ہوتا تھا۔ ان جنت کے ٹکٹوں سے کمایا ہوا پیسا پادریوں کی عیش و عشرت، چرچ کی طاقت بڑھانے اور نئے کلیساؤں کی تعمیر (جو دراصل انھی پادریوں کے دفاتر تھے) پر خرچ ہوتا تھا۔ اس کے علاوہ چرچ میں کرپشن بھی بہت بڑھ چکی تھی اور وہ ایک مذہبی ادارے سے زیادہ ایک سیاسی ادارہ بن چکا تھا۔
٭ چرچ سے بغاوت:۔
ایسے حالات میں ایک جرمن پادری ’’مارٹن لوتھر‘‘ روم آیا۔ اُس نے روم کا حال دیکھا کہ پادری عالی شان محلات میں رہ رہے ہیں اور عبادت کو ذریعۂ معاش بنایا ہوا ہے۔ بجائے اس کے کہ اس میں روحانیت شامل ہو، وہ اسے صرف ایک نوکری سمجھ کر انجام دے رہے ہیں۔ لوتھر یہ دیکھ کر بہت مایوس ہوا۔ لوتھر کے نظریات کے مطابق اعمال یا پیسے کے ذریعے ہم جنت میں داخل نہیں ہوسکتے، بلکہ جنت میں تو ہمیں صرف ہمارا حضرت مسیح پر ایمان ہی لے جاسکتا ہے۔ مطلب کوئی کبھی اتنی نیکیاں کر ہی نہیں سکتا کہ وہ جنت حاصل کرلے بلکہ وہ صرف خدا پر ایمان رکھنے ہی سے جنت میں جاتا ہے۔
اس کے علاوہ وہ پاپائے اعظم کے بھی نہایت خلاف تھا اور اُسے مخالف مسیح تک کہتا تھا۔ لوتھر کے مطابق پاپائے اعظم کو کوئی اختیار نہیں کہ وہ کسی کہ گناہ معاف کرواسکے۔ ہدایت کا ایک ہی ذریعہ ہے، اور وہ ہے بائبل اور خدا پر ایمان۔ اس کے علاوہ مارٹن لوتھر نے عبادت اور بائبل کو سمجھنے کے لیے پادری کی ضرورت پر بھی تنقید کی اور پادری بننے کی روایت کو انسان کا ایجاد کردہ قرار دیا اور لوتھر کے مطابق ہر کوئی بائبل پڑھ کر خود ’’سچ‘‘ تک پہنچ سکتا ہے۔ اس کے لیے پادری کی کوئی ضرورت نہیں۔ لوتھر نے ایک دن موقع پا کر انتہائی بہادری کا مظاہرہ کرتے ہوئے کیتھولک چرچ کے خلاف 95 دلائل (9 5Thesis) لکھ کر وٹنبرگ کے کاسل چرچ کے دروازے پر لٹکا دیے۔ یہ بات بڑھی، تو ہولی رومن ایمپائر کے بادشاہ چارلس پنجم نے لوتھر کو اپنے محل (Diet Of Worms) اپنے نظریات کا دفاع کرنے بلایا۔ جس کے بعد نتیجتاً چارلس پنجم نے لوتھر کو مجرم قرار دے دیا اور اس کی گرفتاری کا حکم دے دیا۔ ایسے میں لوتھر کو ایک جرمن شہزادے فریڈرک دی وائس نے پناہ دی، جس دوران میں لوتھر نے بائبل کے نئے عہد نامے کا لاطینی سے جرمن میں ترجمہ کیا اور اپنے مذہبی خیالات کو بھی کتابی شکل دی۔ یہ کافی اہم واقعہ تھا کہ عوام خود وہ کتاب کو پڑھ رہے تھے، جس کو وہ زیادہ تر پادریوں کے ذریعے سنتے اور سمجھتے تھے اور اس کی وجہ تھی پرنٹنگ پریس۔
٭ اصلاحِ مذہب کی تحریک کا پھیلاو:۔
آہستہ آہستہ یہ خیالات پھیلتے گئے اور سوئٹزرلینڈ کے ایک پادری (Ulrich Zwingli) نے لوتھر سے ہی متاثر ہوکر احتجاجی مسیحیت کا ایک اور فرقہ بنالیا۔ اُس نے لوتھر کی چرچ پر تنقید کو تو قبول کیا، لیکن کچھ مذہبی معاملات پر اس کا لوتھر سے اختلاف تھا۔ 1541ء میں (John Calvin) نامی فرانسیسی پادری کو جینوا آنے کی اور اپنے مذہبی تصور کو عملی طور پر نافذ کرنے کی دعوت دی گئی۔ جس کے نتیجے میں ایک مذہبی حکومت وجود میں آئی۔ آہستہ آہستہ "John Calvin” کی تعلیمات فرانس، سکاٹ لینڈ اور ہالینڈ تک بھی پہنچیں۔ اسی طرح انگلستان میں بھی کھل کر کیتھولک چرچ کی مخالفت اپنی آخری حد تک تب پہنچی جب بادشاہ (Henry VIII) اپنی بیوی سے طلاق چاہتا تھا، لیکن پاپائے اعظم نے اس کی شادی منسوخ کرنے سے انکار کر دیا۔ اس نے چرچ آف انگلینڈ کے نام سے ایک اپنا چرچ بنالیا۔ جہاں کا بشپ وہ خود چنتا تھا۔ اس کے علاوہ بائبل کا انگریزی ترجمے بھی اسی دور میں بڑے پیمانے پر ہوئے۔ اس طرح مذہب کی آزاد خیال تشریح ہوئی جس نے پھر روشن خیالی کے لیے راہ ہم وار کی۔
٭ کاؤنٹر ریفارمیشن:۔
اِس سب کے جواب میں کیتھولک چرچ بھی زیادہ دیر خاموش نہ رہا اور اُس نے ایک کاونٹر ریفارمیشن کا آغاز کیا۔ اُس تحریک کا مقصد چرچ کی اندر سے اصلاح کرنا، بدعنوانی کو ختم کرنا اور ایک لوگوں کے دل و دماغ جیتنا تھا۔ اس مقصد کو حاصل کرنے کے لیے چرچ نے راہبوں اور راہباؤں کے نئے (Order) قائم کیے، جو غربت، عفت اور فرماں برداری کی زندگی گزارتے تھے، کیوں کہ مارٹن لوتھر کی چرچ پر سب سے بڑی تنقید یہی تھی کہ وہ مسیحیت کی سادہ بنیاد کو بھول کر عیش وعشرت میں لگے ہوئے ہیں۔ یہ (Order)، جیسے جیسوئٹس اور ارسولین، پورے یورپ میں پھیل گئے، انجیل کی تبلیغ اور غریبوں کو تعلیم اور سماجی خدمات فراہم کرتے رہے۔ چرچ نے کونسل آف ٹرینٹ کو بھی بلایا، جو پورے یورپ سے بشپس اور کارڈینلز کا ایک اجتماع تھا، جس میں کیتھولک نظریے پر تبادلۂ خیال اور اس کی تدوین کی گئی۔ کونسل نے مقدسات پر چرچ کے اعتقاد، پوپ کے اختیار اور بائبل کے ساتھ روایت کے کردار کی تصدیق کی۔ کیتھولک چرچ نے پروٹسٹنٹ ازم کے خلاف بھی بھرپور مہم چلائی۔ انھوں نے "Inquisition” قائم کیا، جس کا کام بدعتیوں کی شناخت اور ان کو سزا دینا تھا۔ انھوں نے پروٹسٹنٹ لٹریچر ضبط کر لیا۔ بدعتیوں کو سزائیں دیں اور یہاں تک کہ پروٹسٹنٹ اقوام کے خلاف جنگیں شروع کر دیں۔ ان کوششوں کے باوجود پروٹسٹنٹ تحریک بڑھتی اور پھیلتی رہی۔ تاہم، کاؤنٹر ریفارمیشن، کیتھولک چرچ کو زندہ کرنے اور اس کے اثر و رسوخ اور طاقت کو بحال کرنے میں کامیاب ہوئی۔ اس نے آنے والی صدیوں کے لیے یورپ کے مذہبی اور ثقافتی منظر نامے کو تشکیل دینے میں بھی مدد کی۔
٭ اصلاحِ مذہب کے یورپ پر گہرے اثرات:۔
٭ عیسائیت کا بکھرنا:۔ اصلاح کی وجہ سے کیتھولک چرچ ٹوٹ گیا، جس کے نتیجے میں متعدد فرقوں کی تشکیل ہوئی۔ یہ تقسیم مذہبی برداشت کے قیام کا باعث بنی، جس نے یورپ کے مذہبی منظر نامے کو بدل کر رکھ دیا۔
٭ انفرادیت کا عروج:۔ اصلاح نے ایک وسیلے کے طور پر چرچ پر انحصار کرنے کی بجائے بائبل کی انفرادی تشریح اور افراد اور خدا کے درمیان براہِ راست تعلق کی حوصلہ افزائی کی۔ ذاتی عقیدے اور انفرادیت پر اس زور نے جدید مغربی معاشرے اور ثقافت پر گہرا اثر ڈالا۔
٭ خواندگی اور تعلیم کی ترقی:۔ اصلاح نے بائبل کے مقامی زبانوں میں ترجمے کی حوصلہ افزائی کی، جس نے عام لوگوں کو صحیفوں کو پڑھنے اور سمجھنے کے قابل بنایا۔ تعلیم اور خواندگی پر اس زور نے، خاص طور پر پروٹسٹنٹ ممالک میں، جدید تعلیمی نظام کی ترقی میں اہم کردار ادا کیا۔
٭ سرمایہ داری کی ترقی:۔ پروٹسٹنٹ کام کی اخلاقیات، جس نے محنت اور کفایت شعاری کی قدر پر زور دیا، نے یورپ اور شمالی امریکہ میں سرمایہ داری کی ترقی میں اہم کردار ادا کیا۔ اس اخلاق نے معاشی ترقی اور جدت طرازی کی ثقافت قائم کرنے میں مدد کی جو آج تک برقرار ہے ۔
٭ سیاسی اور سماجی تبدیلی:۔ اصلاح نے کیتھولک چرچ کی روایتی اتھارٹی کو چیلنج کیا اور سیکولرازم اور جمہوریت کی ترقی میں حصہ لیا۔ یہ خیال کہ سیاسی طاقت بالآخر چرچ یا بادشاہت کی بجائے عوام کے پاس ہے، جدید جمہوری معاشروں کی ترقی پر گہرا اثر ڈالا ہے۔
٭ خلاصہ:۔ اب خلاصہ یہ ہے کہ اصلاحِ مذہب ایک اہم واقعہ تھا جس کے یورپی تاریخ اور ثقافت پر دور رس اثرات مرتب ہوئے۔ اس کے اثرات جدید مغربی معاشرے کے بہت سے پہلوؤں پر اب بھی واضح ہیں، جن میں مذہبی تکثیریت، انفرادیت، تعلیم، سرمایہ داری اور جمہوریت شامل ہیں۔
……………………………………
لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com یا amjadalisahaab@gmail.com پر اِی میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔