تحریر: وقار سعید
اچھے اخلاق سردارِ دو جہاں، امام الانبیا، محبوبِ خدا حضرت محمد مصطفی خاتم النبیین صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کا قیمتی ورثہ ہیں۔ اس لیے انھیں اپنانے والے پر خدا کی خصوصی عنایت ہوتی ہے۔
بد قسمتی سے ہمارے عمومی رویے اس سے مختلف ہیں۔ہم اخلاقی طور پر احساسِ برتری کا شکار ہیں اور یہی خصلت ہمارے راستے کی رکاوٹ بن جاتی ہے۔ یہاں تک کہ اپنے ہی لوگوں کے ’’ہیرو ازم‘‘ اور فلاح و بہبود کے لیے کام کرنے کو بھی حوصلہ افزا نظر سے نہیں دیکھتے۔
قارئین! نوبل انعام یافتہ ملالہ یوسف زئی کے والد سے ملاقات کی، تو پتا چلا کہ کیسے قدرت نے ان کو بے پناہ اخلاقی اوصاف سے نوازا ہے۔ عام طور پر سمجھا جاتا ہے کہ حالات مُثبت سمت جانے سے انسانی رویے میں منفی تبدیلی رونما ہوتی ہے…… لیکن ضیاء الدین یوسف زئی کی شخصیت نے اس تاثر کو سراسر غلط ثابت کیا ہے۔ مَیں جتنے بھی شہرت کے حامل لوگوں کو دیکھتا ہوں، تو ضیاء صاحب الگ ہی لگتے ہیں۔ قول و فعل میں برابری ان کی شخصیت کا خاصہ ہے۔
میری موجودگی میں جتنے لوگ ان سے ملنے آتے، تو ہر ایک کو خوش آمدید کہنے اُٹھتے، ہر بندے کو گلے لگاتے اور بڑے ادب اور احترام سے بیٹھنے کا کہتے۔ مہمانوں میں فرق نہ کرتے اور ہر کسی کو کھانے کی دعوت دیتے۔
کافی دیر کے بعد جب ہمیں محسوس ہوا کہ سر تھکے تھکے لگ رہے ہیں، تو پوچھنے پر بتایا گیا کہ مسلسل ملاقاتوں کی وجہ سے رات کو صرف دو گھنٹے سویے ہیں، باقی بس محبتیں بانٹنے میں مصروف رہے۔
ایک سکو ل کے وزٹ کے دوران میں جب اُن کو تصویر کا کہا جاتا، تو بڑی تعداد میں لوگ موجود ہونے کے باوجود ہر بندے کو فرداً فرداً توجہ دینے کی کوشش کرتے۔ سکول کے مالی سے لے کر ہیڈ تک کسی کے لیے بھی ان کی پیشانی پر بل نہیں پڑے۔
یہاں سے گئے لوگ اکثر مغربیت کا بہت جلد شکار ہو جاتے ہیں، ضیا صاحب مسلسل 11 سال باہر رہنے کے باوجود اپنی روایات، اپنی زبان پشتو سے محبت اور اپنوں کی قدر نہیں بھولے۔ یہ انھیں کی بصارت ہے کہ ’’ملالہ فاونڈیشن‘‘ آج دنیا بھر میں 10 ممالک میں بچیوں کی تعلیم پر کام کر رہا ہے۔
اخلاقی ظرف ہی بندے کی سمت کا تعین کرتی ہے۔ اس لیے ہمیں چاہیے کہ نہایت شائستگی سے خلقِ خدا سے پیش آئیں۔
مشہور بالی ووڈ ایکٹر شاہ رُخ خان کے بارے میں مشہور ہے کہ کوئی اس کے ہاں چلا جائے، تو خود ویلکم کرتے ہیں اور رخصت ہوتے وقت دروازے تک نہ صرف چھوڑنے جاتے ہیں بلکہ اُن کے لیے گاڑی کا دروازہ بھی خود کھولا کرتے ہیں۔ شاید یہی وجہ ہے کہ ان کو ’’کنگ خان‘‘ کہا جاتا ہے۔
ضیا صاحب پر تنقید کرنے والوں کو اُن کے ساتھ ایک بیٹھک ضرور کرنی چاہیے، تاکہ انھیں ضیا صاحب کی جد و جہد کا پتا چل سکے۔ ان کی جد و جہد ان لوگوں کے لیے ہے، جو توجہ چاہتے ہیں، جن کو ان کا حق دینے میں معاشرہ ناکام ہو۔
بد قسمتی سے ہم آج بھی دیکھ رہے ہیں کہ لڑکیوں کو اسلام میں دیے گئے حقوق نہیں مل رہے اور جو لوگ نہیں دے رہے، وہ خود کو بڑے بڑے منصف سمجھتے ہیں۔ وہ لڑکیوں کو تعلیم کے اہم زیور سے محروم رکھنے میں بالکل عار محسوس نہیں کرتے۔
طارق جمیل صاحب سے سنا ہے کہ امام الانبیا حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے اپنی بیٹی حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا سے علی رضی اللہ عنہ کا رشتہ آنے پر ان کی مرضی پوچھی۔ حضور نے ایسا ہم کو سکھانے کے لیے کیا، لیکن افسوس بعض والدین بیٹی سے یہ بھی پوچھنا تک مناسب نہیں سمجھتے۔ اور تو اور اپنی بہنوں، بیٹیوں کی زندگی کا فیصلہ دوسروں سے کراتے ہیں اور یہ نہیں سوچتے کہ اس لڑکی کی بھلائی کس فیصلے میں ہے؟ یہاں تک کہ بیٹی کی ماں کی رضا کا خیال بھی بعض لوگ نہیں رکھتے، جو کہ سب سے زیادہ حق دار ہوتی ہے۔
اس کے ساتھ ساتھ لڑکی کی پیدایش پر خوشی کی بجائے غم کا اظہار کرنا، جائیداد میں اُسے اُس کے شرعی حق سے محروم رکھنا، گھر میں اُسے نوکر کی طرح رکھنا اسلام کے سراسر منافی ہے۔ ضیا صاحب کی لڑائیوں میں کچھ لڑائیاں یہ ہیں جن پر غور کرنے کی بجائے اور اپنے آپ میں بہتری لانے کی بجائے ان پر تنقید کی جاتی ہے۔
ہماری مجموعی ناکامی، ملک کے برے حالات اور غلام ذہنیت شاید ہمارے رویوں کا نتیجہ ہے۔ ہم میں سے بہت سے لوگ اس طرف خیال ہی نہیں کرتے کہ حقوق العباد کی پامالی پر ہم سے پوچھا جائے گا۔ ہمیں چاہیے کہ اپنی بہنوں، بیٹیوں کے حقوق کا خیال رکھیں۔ اُن کو تعلیم دیں۔ اُن کا رشتہ طے کرتے وقت کسی طرح اُن کی مرضی پوچھیں اور اُن کو گھر کا ایک اہم فرد سمجھ کر اُن سے پیار سے پیش آئیں۔ ان کی رائے کا احترام کریں۔
اس کے علاوہ خلقِ خدا سے حسنِ سلوک سے پیش آنا اور ہر کسی کو قدر کی نگاہ سے دیکھنا، معاملات میں صبر سے کام لینا اور کسی کو کم تر نہ سمجھنا ہماری ذاتی ترقی کے لیے اہم ہے۔ ہمیں پتا ہونا چاہیے کہ احساسِ برتری محض ایک بیماری ہے، جس میں بندے کو لگ رہا ہوتا ہے کہ وہ بہتر ہے۔ حالاں کہ اسلام، مساوات اور برابری کا پیغام دیتا ہے…… اور ہماری بھلائی بھی اسی میں ہے کہ ہم ہر کسی کو قدر کی نگاہ سے دیکھیں، کیوں کہ یہ زندگی مکافاتِ عمل ہے۔
……………………………………
لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com یا amjadalisahaab@gmail.com پر اِی میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔