چند دن قبل میں مصروفیات کے باعث دفتر سے لیٹ نکل کر بس اسٹاپ تک جارہا تھا کہ میٹرو اسٹیشن کی سیڑھیوں کے نیچے سے گزرتے ہوئے محسور کن خوشبو نے زنجیر بن کر میرے قدم جہاں تھے، وہیں جکڑ لیے۔ میں نے بے اختیار سر اٹھا کر دیکھا، تو ایک خاصی خوبصورت لڑکی کو پرس ہاتھ میں تھامے سیڑھیوں کی اوٹ میں کھڑا پایا۔ ویسے تو بتانے کی ضرورت نہیں کہ میں حد درجہ وجیہ، سمارٹ اور ذہین ہونے کے باوجود ایک صاف ستھرے کردار کا مالک ہوں، لیکن اس لمحے مجھے نہ جانے کیا ہوا کہ میں نے چند قدم کے فاصلے پر رُک کر گلے کی ہلکی سی کھنکار کے ساتھ اپنی موجودگی کا احساس دلایا. پہلے تو وہ مجھے دیکھ کر مسکرائی لیکن پھر چند قدم دور ہٹ کر کھڑی ہوگئی۔ اب مجھے یقین ہو گیا کہ شام کے گہرے ہوتے سائے میں وہ کس مقصد کے لیے یہاں کھڑی ہے۔ میں نے جیب سے بٹوا نکالا اور پانچ سو درہم کے دو نوٹ نکال کر بٹوے کی پچھلی جیب میں اس مہارت سے منتقل کیے کہ وہ بھی انھیں دیکھ لے۔ میرا یہ داؤ کام کر گیا اور وہ نازک اندام خوبرو حسینہ کسی مست ہرنی کی طرح قدم اٹھاتی میری جانب آگئی۔ میرے دل کی دھڑکن بے اختیار بڑھنے لگی اور عقل پر ایک دھندلی سی اسکرین قبضہ جماتی چلی گئی۔ اگلے ہی لمحے وین کے تیز سماعت خراش ہارن نے جیسے میرے کھوپڑی پر وزنی ہتھوڑا دے مارا اور میں تخیلاتی دنیا سے واپس حقیقی دنیا میں آگیا۔

اب مجھے یقین ہو گیا کہ شام کے گہرے ہوتے سائے میں وہ کس مقصد کے لیے یہاں کھڑی ہے۔ میں نے جیب سے بٹوا نکالا اور پانچ سو درہم کے دو نوٹ نکال کر بٹوے کی پچھلی جیب میں اس مہارت سے منتقل کیے کہ وہ بھی انھیں دیکھ لے

میرے عقب میں ایک مشہور کاسمیٹکس کمپنی کی وین کھڑی تھی۔ وین میں اس خوبرو لڑکی جیسی چند اور لڑکیاں بھی براجمان تھیں۔ میری نومولود ہوس کو جنم دینے والی حسینہ بھی ان کے ساتھ جابیٹھی اور وین اپنی منزل کی جانب روانہ ہوگئی۔ کچھ ہی دور ’’القبائل مرکز‘‘ کے اسٹور کے نیون سائن اور برقی قمقمے جگمگا رہے تھے۔ اب ساری کہانی میری سمجھ میں آگئی۔ وہ خوبصورت لڑکی دھندہ کرنے ضرور نکلی تھی لیکن کالا نہیں۔ اس نے ’’میک اپ‘‘ ضرور کیا تھا لیکن وہ فاحشہ نہیں تھی۔ اس کی چال میں ناز و ادا کی جھلک ضرور تھی، لیکن وہ اوباش نوجوانوں کو رجھانے کے لیے نہیں بلکہ اپنی فنی و پیشہ ورانہ مجبوریوں کے پیش نظر تھی۔ وہ رات کو گھر سے نکلی۔ اس کا یہ مطلب نہ تھا کہ وہ کسی کی آغوش کو گرمانا چاہتی تھی بلکہ اس کا مقصد اپنے گھر کا چولہا گرم کرنا تھا۔

معاشرہ تب بگڑتا ہے جب مجھ جیسے مردوں کی سوچ بگڑتی ہے، جب ہمیں رات کو گھر سے نکلنے والی ہر لڑکی کال گرل ہی نظر آتی ہے، چاہے وہ نائٹ ڈیوٹی پر جانے یا واپس آنے والی کسی کمپنی کی ’’سیلز گرل‘‘ ہی کیوں نہ ہو…… وہ دن ہے اور آج کا دن میں کسی لڑکی کو دیکھ کر رکتا نہیں بلکہ اپنے قدم مزید تیز کر لیا کرتا ہوں۔ مجھے میک اپ کی دبیز تہہ کے نیچے غربت کی اَن مٹ لکیریں پڑھنا جو آگئی ہیں……

کیا آپ بھی ان لکیروں کو پڑھنا سیکھ گئے ہیں؟