سوئے امریکہ (یو ایس کیپٹول کی یاترا)

اگلی صبح ناشتہ کرنے کے بعد نیچے آئے، تو ’’تابیتا‘‘ ہوٹل لابی میں ہمارا انتظار کر رہی تھی۔ چوں کہ ہمیں پہلے ہی سے بتایا گیا تھا کہ ظہرانے کے بعد ہم یوایس کیپٹول جائیں گے، اس لیے بڑا کیمرہ، پانی کی بوتل اور بڑا بیگ لے جانے کی اجازت نہیں ہوگی۔ میں نے اپنا کیمرہ نہیں ساتھ نہیں لیا۔ وقفے وقفے بعد فیلوز جمع ہوئے، تو ہم ایک بار پھر ’’آئی سی ایف جے‘‘ کی طرف روانہ ہوئے۔ آئی سی ایف جے میں آج کا دن صحافت میں بدلتے رجحانات اور جدید ٹیکنالوجی کے استعمال کے لیے وقف تھا۔ ہمارا پہلا ورکشاپ ملٹی میڈیا اور موبائل جرنلزم کے حوالہ سے تھا، جس کے لیے انسٹرکٹر علی رضوی تھے جو کہ آزاد ڈاکومینٹری (Independent Documentary) بناتے ہیں اور اس میدان میں ماہر ہیں۔ انہوں نے کہا کہ موبائل اور خاص کر سمارٹ فون آنے کے ساتھ صحافت اور ویڈیو گرافی کے میدان میں انقلاب آچکا ہے۔ اس لیے اب ایک ہی شخص یا رپورٹر فیلڈ میں تین بندوں کا کام کرسکتا ہے۔ سمارٹ فون سے نہ صرف وہ تصویر لے سکتا ہے بلکہ ویڈیو اور آڈیو بھی بنا سکتا ہے۔ انہوں نے ہمیں سمارٹ فون کے لیے استعمال ہونے والے اہم آلات یعنی ٹرائی پاڈ، مائک، لائٹ اور اپنی بنائی ہوئی چند ویڈیو ڈاکومینٹریز اور پیکیجز دکھائے۔ اس سیشن میں تمام فیلوز نے دلچسپی لی۔ میں نے بذاتِ خود ڈھیر ساری نئی چیزیں سیکھیں۔ اس کے بعد سوشل میڈیا کا استعمال اور اس کے ذریعے زیاد ہ سے زیادہ سامعین کو متوجہ کرنے کا سیشن تھا، جو پہلے سیشن سے بھی زیادہ دلچسپ اور اہم تھا۔ کیوں کہ آج کل ہر کوئی سوشل میڈیا کا استعمال کرتا ہے، جسے نہ صرف اپنے ذاتی مقصد کے لیے بلکہ پروفیشنل مقصد کے لیے بھی استعمال کیا جاتا ہے۔ یہ سیشن واشنگٹن پوسٹ کی ڈیجیٹل آپریشن ایڈیٹر’’ شفالی کولکرنی‘‘ نے لیا۔ انہوں نے سوشل میڈیا پر زیاد ہ سے زیادہ ٹریفک کو متوجہ کرنے کے کئی نئے ٹپس اور سافٹ وئیر بتائے۔ کھانا کھانے کے بعد ہم بس میں بیٹھ کر واشنگٹن ڈی سی کے مشہورِ زمانہ یو ایس کیپٹول کی طرف نکلے۔ جب ہم بس میں تھے، تو نیو ٹی وی سے تعلق رکھنے والی شائستہ معراج جو سیلفی ویڈیو بنانے کے لیے مشہور تھی، نے سیلفی ویڈیو مع کمنٹری شروع کی، جب کہ باقی فیلوز گپ شپ میں مصروف تھے۔ شائستہ نے سیلفی ویڈیوز کا سلسلہ اسلام آباد ائیرپورٹ سے ہی شروع کیا تھا جو ابوظہبی اورہترو ائرپور ٹ پر بھی جاری رہا۔ جب وہ سیلفی ویڈیو مع کمنٹری شروع کرتی، تو باقی فیلوز کنکھیوں سے ایک دوسرے کو دیکھتے اور مسکراتے۔ جب ہم یو ایس کیپٹل کے قریب پہنچے، تو بس سے اترے۔ تمام فیلوز نے لوری اور تابیتا کی کوئی بات نہ سنتے ہوئے اس سفید رنگ کی عمارت کے سامنے تصویر کشی کا طوفان کھڑا کر دیا۔ کوئی سیلفی لے رہا ہے، تو کوئی دوسرے فیلو کو اپنا موبائل دے کر تصویر بنانے کی درخواست کر رہا ہے، مگر تصویر کشی ہے کہ رُکتی ہی نہیں۔ لوری اور تابیتا نے انہیں متوجہ کرنے کی کوشش کی، مگر کسی نہ ایک نہ سنی۔ چند فیلوز نے تو اپنے ٹی وی چینلز کے لیے ویڈیو پروگرامز اور پی ٹی سیز بنانے کا عمل شروع کیا۔ لوری نے مجھے کہا کہ اندر جانے کے لیے ہمارامخصو ص وقت ہے جو نکل رہا ہے، اس لیے میں نے بھی فیلوز سے کہا کہ چلو چلتے ہیں، یہ عمارت ہم سے کہیں بھاگ نہیں رہی، مگر وہی ہوا جس کا ڈر تھا، ہم سے وقت نکل گیا۔ اس لیے ہم اندر تو گئے، مگر جو ملاقات اور بریفنگ تھی، وہ مس ہوگئی۔

یو ایس کیپٹول کے اندر کا منظر جہاں مختلف پینٹنگز نظر آ رہی ہیں۔ (Photo: Mali Dixon)

یو ایس کیپٹول جسے کیپٹول بلڈنگ بھی کہتے ہیں، سفید رنگ کی عمارت ہے جس کے اوپر گول گنبد ہے۔ یہ عمارت امریکی کانگریس کا سنٹر اور فیڈرل گورنمنٹ کی قانون سازی برانچ کے بیٹھنے کی جگہ ہے جو واشنگٹن ڈی سی کے کیپٹول ہل میں واقع ہے۔ ابتدائی عمارت کی تعمیر 1800ء میں ہوئی جسے بعد میں مختلف مراحل میں وسعت دی گئی۔ یہ عمارت پور ی دنیا میں امریکہ کی پہچان ہے، جسے اکثر لوگ ٹی وی یا تصاویر میں دیکھتے ہیں۔ عمارت کے اندر داخل ہونے کے لیے ٹھیک ٹھاک سیکورٹی سے گزرنا پڑتا ہے، جس میں جدید سکینرز شامل ہیں۔ جب ہم اند ر داخل ہوئے، تو ایک بڑے ہال میں ہمیں انتظار کے لیے کہا گیا اور بعد میں ہمیں سٹیکر نما پا س دیے گئے، جو ہم نے اپنے سینوں پر چپکائے۔ایگزبیشن ہال کی ایک جانب اوپر کو سیڑھیا ں جاتی ہیں، ان کے درمیان سفید رنگ کا پلاسٹر سے بنا مجسمۂ آزادی کا ماڈل لگا ہوا ہے جس کے ساتھ لوگ تصویریں بناتے ہیں۔ ہمیں دو گروپو ں میں تقسیم کرکے گائیڈز دیے گئے جو ہمیں آگے سیڑھیوں کی مدد سے اوپر لے گئے۔ جب ہم وسطی گنبد والے ہال میں داخل ہوئے، تو یہ ایک بڑا گول ہا ل تھا جس کی دیواریں مختلف قسم کے آرٹ اور پینٹنگز سے مزین تھیں۔ یہاں آٹھ بڑی پیٹنگز ہیں جن میں امریکیوں کے بحیثیتِ قوم بننے کے مراحل بیان کیے گئے ہیں۔ہال واقعی دیکھنے لائق ہے، جہاں روزانہ کثیر تعدادمیں لوگ آتے ہیں۔کیپٹول ہل کی عمارت محض مقتدر طبقہ کا دفتر یا اسمبلی ہال نہیں بلکہ ایک پورا علمی مرکز ہے جہاں روزانہ کوئی نہ کوئی نمائش یا مثبت سرگرمی چلتی رہتی ہے۔ یہاں کا عملہ ہنس مکھ اور خوش مزاج ہے جب کہ عام امریکی بھی ملنسار اور بااخلاق دکھائی دیا۔ میں جب اندر تھا، تو سوچ رہا تھا کہ دنیا پر حکمرانی کرنے والے ملک کا دارالخلافہ اور پھر ان کا کانگریس ہاؤس ہر کسی کے لیے کھلا ہے، جہاں لوگ بلامعاوضہ اندر جاتے ہیں اور اس عمارت میں آرٹ، تاریخ اور فنِ تعمیر کے شہ پارے دیکھتے ہیں جب کہ ایک ہمارا ملک ہے جہاں سیکورٹی کا یہ حال ہے کہ وزیر اعظم ہاؤس، سینیٹ اور قومی اسمبلی کی عمارتوں کے اندر داخل ہونا تو دور کی بات ان کے باہر بھی کئی کلومیٹر دور عام پاکستانی نہیں جا سکتا۔

یو ایس کیپٹول عمارت کے اندر مجسمہ کے ساتھ راقم کی لی گئی ایک یادگار سیلفی۔

ہم جب اس گول ہال سے نکلے، تو ہر کوئی اپنی مرضی سے گھوم پھر سکتا تھا۔ اس لیے میں عمارت کے مختلف حصوں سے ہوتا ہوا باہر نکلا، کچھ سیلفیاں لیں اورقریبی یونین سٹیشن گیا جہاں بس سے سیدھا ہوٹل چل دیا۔ (جاری ہے)

………………………………………….

لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com پر ای میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔