پنجاب میں الیکشن ناگزیر کیوں؟

چیف جسٹس آف پاکستان جناب عمر عطا بندیال پنجاب اسمبلی کے الیکشن کروانے کے لیے جس قدر پُرجوش اور پُرعزم ہیں، حکومتی اتحاد بھی اُسی عزم اور ثابت قدمی سے اُن کی ہر کوشش کو ناکام بناتا چلا آ رہا ہے۔
رفیع صحرائی کی دیگر تحاریر پڑھنے کے لیے نیچے دیے گئے لنک پر کلک کیجیے:
https://lafzuna.com/author/rafi/
عمران خان کی شدید خواہش ہے کہ 14 مئی کو پنجاب میں الیکشن ہو جائیں۔ اس سلسلے میں انھوں نے حکومت کو دھمکی بھی دے ڈالی کہ اگر مئی میں الیکشن نہ ہوئے، تو وہ عوام کو سڑکوں پر لے آئیں گے، مگر حکومت نے اُن کی اِس دھمکی کو اتنی اہمیت بھی نہیں دی کہ اِس کا جواب ہی دے دیتی۔ گذشتہ سال 25 مئی کو حکومت کو اندازہ ہو گیا تھا کہ عمران خان کا سارا طوفانی زور سوشل میڈیا تک ہی محدود ہے۔ ان کے کہنے پر بہت بڑا ہجوم باہر نہیں نکلے گا۔ عمران خان کی 25 مئی کو اسلام آباد پر یلغار کو جس طرح رانا ثنا ء اللہ نے ہینڈل کیا تھا، عمران خان کو اس کی بالکل بھی توقع نہ ہوگی۔ وہ تو چیف جسٹس آف پاکستان اُن کی مدد کو آگئے، ورنہ عمران خان اسلام آباد کے قریب بھی نہ پہنچ پاتے۔ ایک ہفتے بعد دوبارہ آنے کا کَہ کر عمران خان ایسے بھاگے کہ پشاور پہنچ کر ہی دم لیا۔ انھیں اچھی طرح اندازہ ہوگیا تھا کہ بنی گالہ والے گھر میں رہیں گے، تو رانا ثناء اللہ انھیں کسی بھی وقت گرفتار کرلیں گے۔ چناں چہ زمان پارک لاہور میں انھوں نے مستقل ٹھکانا بنالیا۔
پھر عمران خان دوسرا حملہ کرنے کے لیے اپنے مختصر لشکر کے ساتھ اسلام آباد کی طرف روانہ ہوئے۔ تب پنجاب میں ان کی اپنی حکومت تھی اور جناب پرویز الٰہی وزیرِ اعلا تھے۔ پنجاب حکومت کی سرکاری سرپرستی اور مدد حاصل ہونے کے باوجود عمران خان اپنے قافلے میں لوگوں کی متاثرکُن تعداد شامل نہ کرسکے۔ ان کا لشکر وزیر آباد تک ہی پہنچ پایا۔ پستول بردار ایک ہی نوجوان نے اُن کی لشکر کشی کو ناکام بنا دیا۔
عمران خان کو سمجھ لینا چاہیے کہ 2014ء بہت پیچھے رہ گیا ہے۔ تب امپائر ان کے ساتھ تھے، اب وہ نیوٹرل ہیں۔ عمران خان سلطان محمودِ غزنوی تو ہیں نہیں، جو اپنے بل بوتے پر فتح حاصل ہونے تک بار بار لشکرکشی کریں گے۔ انھوں نے الیکشن لینے کے لیے آخری حربے کے طور پنجاب اور خیبر پختونخوا صوبائی اسمبلیاں توڑ کر سیاسی و آئینی بحران پیدا کر دیا۔ ان کے ’’مشیروں‘‘ نے انھیں یقین دلایا تھا کہ حکومت سروائیو نہ کر پائے گی۔ پرویز الٰہی کے منع کرنے کے باوجود انھوں نے دونوں اسمبلیوں کو ذبح کر دیا۔ یہ ایک طرح سے ناشکری کی انتہا تھی۔ پنجاب عمران خان کے ہاتھ سے نکل کر حمزہ شہباز کے پاس جا چکا تھا، مگر بقولِ شخصے، کورٹ نے آئین کو ری رائٹ کرکے پرویز الٰہی کی حکومت بحال کی تھی۔ عمران خان نے اسی اسمبلی پر کلھاڑا چلا دیا۔
کرکٹ میں ہمیشہ ایسا ہوتا ہے کہ میزبان ملک اپنی طاقت اور مخالف ٹیم کی کم زوریوں کو مدِنظر رکھ کر وکٹیں بنواتا ہے۔ عمران خان نے بھی یہی فارمولا استعمال کیا کہ مہنگائی کی وجہ سے غیرمقبول حکومت کو الیکشن میں دھکیل کر آسانی سے شکست دی جا سکتی ہے، مگر وہ اس حقیقت کو فراموش کر بیٹھے کہ میزبان وہ خود نہیں۔ وہ یہ بھی بھول بیٹھے کہ امپائر نیوٹرل ہوچکے ہیں اور فیض کا سایہ بھی سر سے اُٹھ چکا ہے۔
سیاست یا اقتدار کے کھیل میں کوئی بھی بے لوث ہو کر دوسرے کی مدد نہیں کرتا۔ یہاں صرف مفادات دیکھے جاتے ہیں۔ عمران اس لیے فیض یاب تھے کہ فیض کو اگلا آرمی چیف بننا تھا۔ مبینہ طور پر 2035ء تک اقتدار میں رہنے کے لیے مکمل منصوبہ بندی کرلی گئی تھی۔ اگر یہ منصوبہ بندی لیک نہ ہوتی، تو نواز شریف کبھی عمران حکومت کا تختہ اُلٹنے کی اجازت نہ دیتے، مگر بات صرف اتنی سی نہیں۔ فیصلہ سازوں سے نواز شریف نے اپنی نااہلی ختم کرنے کی گارنٹی بھی لی ہے اور مہنگائی جیسے مشکل فیصلوں کے عوض الیکشن کے لیے وقت بھی آگے بڑھوانے کی یقین دہانی حاصل کی ہے۔ ایسے میں چیف جسٹس آف پاکستان پورے قد کے ساتھ الیکشن کروانے کی مہم سر کرنے کے لیے سرگرم ہیں۔ وہ اس کے لیے ہر حربہ استعمال کر رہے ہیں۔ کیس کی سماعت کرنے والا بنچ 9 ججوں سے 7 پر پہنچا۔ 7 سے 5 اور پھر 3 ججوں تک آگیا، مگر سماعت چلتی رہی…… اور فیصلہ بھی حسبِ توقع آگیا۔ 7 میں سے 4 ججوں نے واضح طور پر مخالفت کی، مگر اُن کو کوئی اہمیت نہیں دی گئی۔ جناب جسٹس اطہر من اللہ نے تو اسمبلی کی تحلیل پر بھی سوالات اُٹھا دیے، لیکن چیف جسٹس صاحب نے اس اہم بات کو نظر انداز کر دیا۔ انھوں نے الیکشن کمیشن کے علاوہ ایگزیکٹو کے اختیارات بھی استعمال کرتے ہوئے الیکشن شیڈول کا اعلان کر دیا۔ یہ ان کا کام نہیں تھا، مگر انھوں نے کیا۔ الیکشن کے اخراجات کے لیے انھوں نے آؤٹ آف وے جا کر پہلے وزارتِ خزانہ اور ناکامی کے بعد قائم مقام گورنر سٹیٹ بنک کو حکم دے دیا کہ الیکشن کمیشن کو فنڈز منتقل کر دیے جائیں۔ وہ جانتے ہیں کہ کوئی بھی سپلیمنٹری گرانٹ قومی اسمبلی کی منظوری کے بغیر جاری نہیں کی جاسکتی، مگر جناب چیف جسٹس نے گورنر سٹیٹ بنک کو حکم دیا کہ منظوری بعد میں لے لینا۔ پہلے رقم منتقل کر دیں۔ جناب چیف جسٹس کے پے در پے احکامات سے ہر کوئی حیرت زدہ ہے۔
گورنر سٹیٹ بنک نے انھیں واضح کر دیا ہے کہ رقم منتقل کرنے کا انھیں اختیار حاصل نہیں۔
اُدھر آئی ایس آئی کے چیف سمیت سیکورٹی اداروں کے سربراہان سے چیف جسٹس صاحب نے اپنے چیمبر میں ڈھائی تین گھنٹے تک سیکورٹی کے معاملات پر بریفنگ لی ہے، مگر حیرت انگیز طور پر الیکشن کروانے کے ذمے دار جناب چیف الیکشن کمشنر کو اس میٹنگ میں شامل نہیں کیا گیا۔ چیف جسٹس کو اداروں کی طرف سے بتا دیا گیا ہے کہ پنجاب میں سیکورٹی کے لیے 4 لاکھ 65 ہزار اہل کاروں کی ضرورت ہے۔ پنجاب کی نگران حکومت صرف 80 ہزار اہل کار دے سکتی ہے۔ باقی 3 لاکھ 85 ہزار کی نفری کا گیپ پورا نہیں ہو سکتا۔ امن و امان کی خراب صورتِ حال کے پیشِ نظر فوج یا رینجرز ڈیوٹی دینے سے قاصر ہیں۔ مناسب ہے کہ ایک ہی بار عام انتخابات کے موقع پر ان کی خدمات لی جائیں۔ اُدھر الیکشن کمیشن نے بھی سپریم کورٹ میں رپورٹ جمع کروا دی ہے جس میں کہا گیا ہے کہ فنڈز کی عدم دست یابی سے الیکشن پراسس التوا کا شکار ہے۔ مزید برآں 8 اکتوبر سے پہلے اگر الیکشن کا انعقاد کیا جاتا ہے، تو ملک میں انارکی پھیلنے کا شدید خدشہ ہے۔ الیکشن کے نتیجے میں اگر حالات خراب ہوتے ہیں، تو اس کی ذمے داری اُٹھانے کو الیکشن کمیشن تیار نہیں۔ الیکشن کمیشن کی یہ ٹون واضح کرتی ہے کہ اسے 8 اکتوبر سے پہلے الیکشن کا انعقاد منظور نہیں۔
قومی اسمبلی کی 55 فی صد سیٹیں پنجاب میں ہیں۔ آئین میں واضح طور پر لکھا ہے کہ انتخابات نگران حکومت کروائے گی۔ اگر پنجاب میں قبل از وقت الیکشن کروا دیے جاتے ہیں، تو آیندہ ہونے والے قومی اسمبلی کے الیکشن میں نگران حکومت والی شرط کیسے پوری ہو گی؟ ایک مسئلہ اور بھی ہے۔ اگر کسی سیٹ پر ضمنی الیکشن کروائے جائیں، تو اس سیٹ پر ممبر اسمبلی کا انتخاب پانچ سال کے لیے نہیں بلکہ اسمبلی کی باقی ماندہ مدت کے لیے ہوتا ہے۔ قانونی و آئینی ماہرین نے یہ نکتہ پیش کیا ہے کہ پنجاب میں قبل از وقت انتخاب ہوتے ہیں، تو ان کی حیثیت ضمنی انتخابات کی ہو گی۔ جب باقی تین صوبوں اور قومی اسمبلی کے الیکشن ہوں گے، تو پنجاب میں بھی انتخابات کروانے ہوں گے۔
یہاں یہ بات بھی دلچسپی سے خالی نہیں کہ جناب چیف جسٹس صرف پنجاب اسمبلی کے انتخابات کروانے میں ہی دلچسپی رکھتے ہیں۔ خیبر پختونخوا اسمبلی، پنجاب اسمبلی کے ایک ہفتہ بعد تحلیل ہوئی تھی۔ وہاں بھی 90 دن کے اندر الیکشن کروانا آئینی تقاضا ہے، مگر چیف جسٹس صاحب نے وہاں الیکشن کروانے میں دلچسپی لینا مناسب نہیں سمجھا، نہ انھوں نے وہاں آئین کی خلاف ورزی کا نوٹس لیا ہے۔
جناب عمران خان نے حکومت میں آتے ہی بلدیاتی ادارے تحلیل کر دیے تھے اور شکست کے خوف سے پونے چار سال تک بلدیاتی الیکشن نہیں کروائے تھے۔ بلدیاتی اداروں کے الیکشن بھی 90 روز کے اندر ہونا آئینی تقاضے کے تحت ضروری تھے۔ جناب چیف جسٹس نے آئین کی اس خلاف ورزی کا کوئی نوٹس نہیں لیا۔ بلدیاتی اداروں کے سربراہان تین سال کی جد و جہد کے بعد سپریم کورٹ سے بحال ہوئے، تو پی ٹی آئی حکومت نے انھیں نہ صرف اختیارات دینے سے انکار کیا بلکہ ان عوامی نمائندوں کو ان کے دفاتر میں بھی نہیں گھسنے دیا گیا۔ چیف جسٹس صاحب یہ سب دیکھتے رہے اور نظر انداز کرتے رہے۔ اگر بلدیاتی اداروں کی جد و جہد سے انھیں اختیارات ملے بھی، تو چند ہفتوں کے لیے۔ اس کے بعد ادارے تحلیل ہوئے، تو پھر پی ٹی آئی حکومت نے پنجاب میں بلدیاتی الیکشن کروانا غیر ضروری سمجھا۔ چیف جسٹس صاحب یہ سب دیکھ کر بھی خاموش رہے۔
اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ چیف جسٹس صرف پنجاب میں ہی الیکشن کیوں کروانا چاہتے ہیں؟ یہ ایک ایسا سوال ہے جس کا جواب سب جاننا چاہتے ہیں۔
اُدھر وزارتِ دفاع نے سپریم کورٹ میں درخواست جمع کرواتے ہوئے استدعا کی ہے کہ ملک میں سیکورٹی تھریٹس کی وجہ سے دہشت گردوں اور شرپسندوں کی جانب سے حملوں کا خدشہ ہے لہٰذا 14 مئی کو الیکشن کروانے کا فیصلہ واپس لیا جائے۔
……………………………………
لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com یا amjadalisahaab@gmail.com پر اِی میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے