لفظ آپ بیتی دو لفظوں ’’آپ‘‘ ا ور ’’بیتی‘‘ کا مرکب ہے۔ آپ کے معنی ہیں ’’خود‘‘ اور بیتی ’’گزرے ہوئے حالات‘‘ کو کہتے ہیں۔
اپنے آپ یا خود پر گزرے ہوئے حالات کو قلم بند کرنے یا تحریر کرنے کو آپ بیتی کہتے ہیں۔
اصطلاح میں اپنے حالاتِ زندگی خود تحریر کرنے یا اپنی سرگذشتِ زندگی خود قلم بند کرنے کا نام آپ بیتی ہے۔
مجید اللہ گل کی دیگر تحاریر پڑھنے کے لیے نیچے دیے گئے لنک پر کلک کیجیے:
https://lafzuna.com/author/majeeduallhgul/
آپ بیتی کی اقسام:
آپ بیتی کی عموماً دو قسمیں ہوتی ہیں۔
٭ شخصی آپ بیتی۔
٭ نصابی آپ بیتی۔
شخصی آپ بیتی:۔ اس سے مراد وہ آپ بیتی ہے جس میں عموماً ادیب، مشاہیر، تاج دار وغیرہ اپنے حالاتِ زندگی قلم بند کرتے ہیں۔
نصابی آپ بیتی:۔ یہ بالعموم نباتات، جمادات اور حیوانات سے تعلق رکھتی ہے۔ مثلاً: پھول، کتاب، کوٹ، درخت، گھوڑے وغیرہ کی آپ بیتی۔اس میں لکھنے والا وہ لبادہ اُوڑھ لیتا ہے یا اپنے تخیل کو پروان چڑھا کر اپنے آپ کو اس سانچے میں ڈھال لیتا ہے کہ قاری کو یہ محسوس بھی نہیں ہوتا کہ یہ اصل میں انسان ہے…… لیکن اُس نے اپنے آپ کو پھول، کتاب، نوٹ وغیرہ بنا کر پیش کیا ہے، بلکہ وہ یہ محسوس کرتا ہے کہ یہ اصل میں ہی پھول، کتاب یا نوٹ وغیرہ ہے۔
نصابی آپ بیتی لکھنے کے اُصول یا ہدایات:
٭ صیغۂ واحد متکلم کا استعمال۔ مثلاً: مَیں، مجھے، میرا، میری، میرے جیسے الفاظ کا استعمال کرنا چاہیے۔
٭ خود کو اُسی سانچے ڈھال کر بات کرنا۔ مثلاً: مَیں ایک پھول، کتاب، کوٹ ہوں وغیرہ۔
٭ نہ بہت زیادہ طویل ہو کہ داستان بن جائے…… اور نہ بہت مختصر کہ سارا لطف اور مزا ہی باقی نہ رہے۔
٭ اندازِ تحریرفطری، دل چسپ اور شگفتہ ہو۔
٭ اپنے تخیل کے زور سے لکھی گئی ہو۔ اس لیے تمام اُمور کا خیال رکھنا چاہیے جیسے: آغاز و انجام، حالات و واقعات وغیرہ کو خاکے کی صورت میں اس ترتیب سے لکھا جائے کہ اس پر حقیقت کا گمان ہو۔
٭ لکھنے والے کا مشاہدہ وسیع اور گہرا ہو۔ متعلقہ چیزکے ہر پہلو پر غور کیا جانا چاہیے۔
٭ متعلقہ چیز کی معلومات ضروری ہیں۔ اگر معلومات کم ہوں، تو لکھنے والا اپنے تخیل کے زور سے اس کمی کو پورا کرسکتا ہے۔ لیکن یہ تخیل اتنا زیادہ نہ ہو کہ حد سے گزر جائے اور آپ بیتی غیر حقیقی بن جائے۔
اب بطورِ مثال ایک آپ بیتی ملاحظہ ہو:
’’ایک پھٹے ہوئے نوٹ کی آپ بیتی۔‘‘
مَیں ایک پھٹا ہوا نوٹ ہوں۔ اگرچہ میری مالیت اب بھی 100 روپے ہے، لیکن کوئی مجھے خوشی سے قبول نہیں کرتا۔ کیوں کہ اب میری شکل و صورت مسخ ہوچکی ہے اور میری پہچان مشکل سے ہوتی ہے۔ پہلے پہل جب مَیں بنا، تو مَیں اس طرح نہیں تھا…… بلکہ بہت زیادہ نیا اور چمک دار تھا۔ ہرکوئی مجھے دیکھ کر اپنے پاس رکھنے کا خواہش مند تھا۔ جب مَیں بنا، تو مجھے اپنے ساتھیوں کے ہم راہ دس ہزارکے ایک بنڈل کی صورت میں ایک بینک لایا گیا۔ چند دن بعد ایک آدمی آیا اور مجھے میرے دوستوں سمیت لے کر گھر آگیا اور مجھے اپنے پاس رکھ لیا۔ لیکن ٹھیک تین دن بعد عید الفطر آئی، تو میری برے دن شروع ہوگئے۔ نمازِ عید پڑھنے کے بعد جیسے ہی وہ آدمی گھر آیا، تو مجھے اپنے بڑے بیٹے کودے دیا۔ وہ اتنا بے صبرا تھا کہ فوراً مجھے خرچ کرنے پر تل گیا۔ وہ مجھے ایک دکان دار کے پاس لے گیا، جو مجھے دیکھ کر بہت خوش ہوا اور مجھے اپنے پاس محفوظ کرلیا۔ مَیں کچھ عرصہ دکان دار کے پاس بالکل محفوظ رہا…… لیکن ساتھ دوسرے چھوٹے بڑی نوٹ بھی تھے۔ اس لیے مجھے اپنے آپ پر رشک آتا تھا۔ اس دوران میں مجھے ایک پرانے تجربہ کار نوٹ نے یہ نصیحت کی کہ اے بیٹے! اتنا غرور نہ کرو۔ کیوں کہ یہ سب کچھ فنا ہونے والا ہے۔ ایک دن تم بھی ہماری طرح ہوجاوگے…… لیکن مَیں نے اُس کی بات سنی اَن سنی کردی۔ میری بد قسمتی دیکھیے کہ اگلے ہی دن دکان دار نے مجھے مجبوراً ایک خاتون کو دے دیا۔ اُس نے مجھے توڑ موڑ کو اپنے بٹوے میں رکھ دیا۔ یوں میری ساری چمک دمک اور جوانی زائل ہونا شروع ہوگئی۔ چند دن بعد اُس نے مجھے دوسرے دکان دار کو دے دیا۔ اس طرح مَیں مختلف ہاتھوں سے گزرتا رہا۔ حادثات پر حادثات رونما ہوتے رہے…… لیکن پھر بھی خوش تھا کہ انسانوں کے کام آتا رہا۔ ایک دن مَیں ایک کنجوس آدمی کے ہاتھ لگا، تو اُس نے مجھے ایک رومال میں لپیٹ کر محفوظ کرلیا…… لیکن اگلے دن میں رومال سمیت کہیں کھوگیا۔ ایک بچے کے ہاتھ لگا۔ اُس نے جیسے ہی رومال کھولا، تو مَیں اتنا پرانا اور بوسیدہ ہوگیا تھا کہ پھٹ گیا۔ وہ مجھے اپنے ابو کے پاس لے گیا، جس نے مجھے بینک لے جاکر میرے بدلے میں ایک اور نیا نوٹ لے لیا۔ اب مَیں بینک میں اس طرح کی افسردہ زندگی بسر کر رہا ہوں۔
اس لیے اے انسان! تم بھی مجھ سے عبرت حاصل کرکے اس جہانِ فانی پر نازاں نہ ہو۔
……………………………………
لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com یا amjadalisahaab@gmail.com پر اِی میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔