تفہیم کا لفظ فہم سے نکلا ہے جس کے لفظی معنی ہیں ’’آگاہی‘‘، ’’علم میں آنا‘‘ وغیرہ۔ عبارت کو سمجھ کر دیے گئے سوالات کے جو ابات تحریر کر نے کا نا م ’’تفہیم نگاری ‘‘ہے۔
اصطلاح میں کسی عبارت یا مضمون کے متن یا نفسِ مضمون کو سمجھنا ’’تفہیم ‘‘ کہلاتا ہے۔
تفہیم کے اُصول اور طریقۂ کار:
٭ سب سے پہلے متعلقہ عبارت کو دو تین مر تبہ غور سے پڑھنا چاہیے۔
٭ عبارت کو پوری توجہ سے پڑھ لینے کے بعد نیچے مو جو د سوالات کو غور سے پڑھ کر سمجھنے کی کو شش کر نی چاہیے۔
٭ ہر سوال کا مناسب جواب لکھنے سے قبل متعلقہ عبارت میں نشان دہی کرنی چاہیے۔
٭ جو سوال ہو، اس کا وہی جواب لکھنا چاہیے۔ بے جا طوالت سے گریز کر نا چاہیے۔
٭ من و عن الفاظ دہرانے کے بجائے مفہوم کو مدنظر رکھنا چاہیے۔
٭ آخر میں متعلقہ عبارت کا عنوان سوچ سمجھ کر لکھنا چاہیے۔
٭ عبار ت کا عنوان لکھتے وقت عبارت کی مناسبت سے عنوان لکھنا چاہیے جو عبارت کی درست عکا سی کر سکے۔
تفہیم نگاری کو سمجھنے کے لیے اب ایک نمونہ ملاحظہ ہو:
’’عبارت کو غور سے پڑھ کر نیچے دیے گئے سوالات کے جوابات لکھیں اور عبارت کا مناسب عنوان بھی تحریر کریں:
’’بھیک مانگنے کی جس قدر بُرائی اسلام میں بیان کی گئی ہے، شاید یہ کسی دوسرے مذہب میں کی گئی ہو۔ بے شمار روایتوں سے معلوم ہوتا ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم مجبوری کی حالت کے بغیر سوال کے ذریعے کچھ وصول کرنے کو حرام سمجھتے تھے۔ جو شخص ایک وقت کی خوراک ہونے پر سوال کرے، آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم اس کی نسبت فرماتے کہ وہ اپنے لیے بہت زیادہ دوزخ کی آگ طلب کرتا ہے۔ ایک روایت ہے: ’’اگر تم لوگ جانو کہ سوال کرنے کے نتائج کیا ہیں، تو کوئی شخص سوال کرنے کے لیے دوسرے شخص کی طرف رُخ نہ کرے۔‘‘
سوالات:
٭ بے شمار روایتوں سے کیا معلوم ہوتا ہے؟
٭ حضور صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کس چیز کو حرام سمجھتے تھے؟
٭ ایک وقت کی خوراک رکھنے کے باوجود سوال کرنے والے کے بارے میں حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے کیا فرمایا؟
٭ حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے سوال کرنے کے نتائج کے بارے میں کیا فرمایا؟
……………………………………
لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com یا amjadalisahaab@gmail.com پر اِی میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔