یہ مشک بار تحفۂ کتاب مجھے ماضی کی یادوں کی بارات تک لے گیا۔
آج کل زندگی جمود کا شکار ہے، مگر یہ شاعرانہ نثر پردازی، جادوئی قصہ گوئی، بلا کم و کاست واقعہ نگاری، افسانوی رنگ، سلیس محاورہ بندی، سحر انگیز محسوسات، جزیات نگاری، مِزاح نگاری اور بے باکی کا مرقع کتاب مجھے پھر اُسی سفر پر لے گئی، جس مہم جوئی پر چند سال پہلے سر بکف دیوانے نکلے تھے ۔ خاک سار بھی اس مہم جوئی کا حصہ تھا۔ گو شامل شہرِ اقتدار سے ہوا…… مگر آخر تک ساتھ نبھایا۔ کتاب پہلے بھی بارہا پڑھ چکا ہوں۔ اس کی پروف ریڈنگ میں بھی تھوڑا سا ہاتھ تھا، مگر کتابی صورت میں پڑھنے کا وکھرا ہی سواد آیا…… سبحان اللہ!
حنیف زاہد کی دیگر تحاریر پڑھنے کے لیے نیچے دیے گئے لنک پر کلک کیجیے:
https://lafzuna.com/author/hanif/
بنیادی طور پر یہ سفر نامہ رائج اسلوب اور وضع قطع سے یک سر مختلف ہے۔ ڈراما اور سسپنس بھی شاملِ حال ہے۔ بے جا افسانہ و فکشن کا تڑکا، علمیت بگھارنے کے لیے نہیں لگایا گیا۔ مصنف مبالغہ آرائی سے نفور ہے اور گپ بازی سے دور از کار…… جو دیکھا ، محسوس کیا اور جھیلا…… اس کو جوں کا توں صفحۂ قرطاس کی زینت بنا دیا۔ کسی کے جذبات کو ٹھیس پہنچائے بغیر، بغیر کسی لگی لپٹی کے سب بیان کر ڈالا ۔
محترم قارئین اور فطرت پسند دوستو! بنیادی طور پر یہ سفر نامہ ’’بورے والا‘‘ (پنجاب) سے شروع ہوکر اسلام آباد ، ایبٹ آباد، مانسہرہ، وادیِ کاغان، ہنزہ، نگر، اَپر گوجال، خنجراب پاس ، مسگر، چپورسن، شمشال اور نلتر کے یک مشت سفر کا مجموعہ ہے…… جس میں ہمیں ان علاقوں کی بنیادی معلومات بھی ملتی ہیں اور ان کی تاریخ بھی، رہن سہن اور مقامی پکوانوں کا ’’اروما‘‘ بھی۔
ان جنت نظیر علاقوں کی مدحت میں بھی گویا گھر بیٹھے سیر کے لطف لینے کا پورا ساماں وافر میسر ہوتا ہے۔ کافی یا چائے کے مگ کے ساتھ اس کا مطالعہ آپ کو فینٹسی کے عروج پر پہنچا دے گا۔ مَیں مبالغہ آرائی نہیں کر رہا۔ اس کو اپنی لائبریری کا حصہ بنا کر آزما لیں۔
بہر کیف تحریر میں بلا کی شگفتگی اور دریا کی سی روانی ہے۔ بھاری الفاظ اور گراں استعاروں اور تشبیہات سے حتی الامکان گریز کیا گیا ہے، تاکہ قاری بوریت اور تکان کا شکار نہ ہو…… اور تحریر میں کھو کر آگے بڑھتا چلا جائے۔ اس سفر کا باقاعدہ حصہ بن کر بلا کسی رکاوٹ کے سفر نامہ آخر تک پڑھ کر دم لے۔
یہ سفر نامہ، تہذیب و ثقافت کے تنوع کا بیان تو ہے ہی ساتھ ساتھ علاقائی تاریخ ، جغرافیہ اور تاریخی شخصیات و عمارات کا پرتو بھی ہے۔
سفر نامے کی اک خوبی یہ بھی ہوتی ہے کہ وہ آپ کو سہل زندگی کا خوگر ہونے کی بجائے سیماب صفت بنا ڈالے، آسائشیں چھوڑ کر مہم جوئ پر اُکسائے، پیکارِ حیات بنائے، آپ کو مجذوب کر دے، وجدان عطا کرے…… سو یہ سفر نامہ بھی بعینہٖ سفر کرنے کے لیے ورغلاتا ہے اور بندہ پابجولاں ہی سفر پر نکلنے کے لیے اتارو ہوجاتا ہے۔ وہ روز مرہ کی بندشیں توڑ کر آوارگی اپنانے کی سعی میں لگ جاتا ہے۔
علاوہ ازیں مصنف کے از حد ممنون ہیں جو ہم سفروں کو اپنے زورِ قلم سے امر کر دیا ہے۔ انسان نے اک دن صفحۂ زیست سے نابود ہو جانا ہے، مگر تحریر اس کو زندہ و جاوید رکھے گی۔
سفرنامہ نگار نے خاص طور پر ’’لاڈو رانی‘‘ (ہماری مشہورِ زمانہ جیپ) کو آفاقی شہرت دلا ڈالی ہے۔ غذائی دہشت گرد تاتاری بھی پہلے ہی مان نہیں تے اب تو مزید بدنام ہوگئے۔ اُف اللہ……!
عامی و خاکی کو اک شرف یہ بھی حاصل ہوا کہ یہ سفرنامہ دل پذیر ہستیوں ڈاکٹر شاہد اقبال صاحب اور خود مصنف خالد حسین ندیم صاحب اور عزیزم محمد نواز کے دستِ مبارک سے نصیب ہوا۔
دوسرا اعزاز یہ کہ ہم حسنِ یوسف کے خریداروں کی مانند اس عالی سفر نامے کے ابتدائی تین خریداروں کا اعزاز بھی رکھتے ہیں۔ محترم مصنف، عالی عامی کے ان ٹوٹے پھوٹے الفاظ پر مشتمل ’’تبصرے‘‘ کو قبول فرمائے، گر قبول افتد زہے عزو شرف۔
بارِ دیگر شکریہ خالد حسین صاحب…… اللہ تعالا آپ کو صحتِ کاملہ و عاجلہ عطا فرمائے۔ یوں ہی لکھتے رہے اور فطرت پسندوں کے قلوب کو گرماتے رہیے…… اللھم زد فزد ۔
محتریم قارئین! پروینؔ شاکر کے اس خوب صورت شعر کے ساتھ اجازت چاہوں گا کہ
چلنے کا حوصلہ نہیں رکنا محال کر دیا
عشق کے اس سفر نے تو مجھ کو نڈھال کر دیا
……………………………………
لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com یا amjadalisahaab@gmail.com پر اِی میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔