گذشتہ دنوں سندھ میں ہونے والے بلدیاتی انتخابات کے نتائج نے سمجھ بوجھ رکھنے والے بڑے بڑے سیاسی مبصرین، صحافیوں اور سیاست دانوں کو چکرا کر رکھ دیا ہے۔ کسی کے وہم و گمان میں بھی نہ تھا کہ پی ٹی آئی ان انتخابات میں اس بری طرح پٹ جائے گی۔ جماعت اسلامی کے بارے میں بھی یہ گمان نہیں کیا جا رہا تھا کہ کراچی میں وہ اس قدر شان دار طریقے سے کم بیک کرے گی، مگر ایسا ہو گیا۔
ایک وقت تھا کہ کراچی پر جماعتِ اسلامی کا غلبہ تھا۔ الیکشن قومی و صوبائی اسمبلیوں کے ہوتے یا بلدیاتی…… جماعتِ اسلامی ’’سنگل لارجسٹ پارٹی‘‘ کے روپ میں سامنے آتی تھی۔ پھر ایک منصوبے کے تحت ایم کیو ایم کو کراچی میں لانچ کیا گیا اور اس قدر اسے مقبولیت دلائی گئی کہ اس کے سامنے باقی سب چراغ بجھ گئے۔ لانے والوں کا کام لا کر مسندِ اقتدار پر بٹھانا اور پہلی ٹرم میں ہر ممکن سہولت بہم پہنچانا ہوتا ہے۔ اس کے بعد ’’سلیکٹڈ‘‘ کا امتحان ہوتا ہے کہ وہ سلیکٹر کی توقعات پر کس حد تک پورا اترتا ہے؟
ایم کیو ایم نے اپنی پالیسی ایسی بنائی کہ کراچی میں ہی نہیں بلکہ حیدر آباد اور سکھر میں بھی خود کو منوا لیا۔ الطاف حسین کو ایک موقع ملا اور اس نے اس سے بھرپور فائدہ اٹھایا۔
ایسا ہی ایک موقع چوہدری برادران کو بھی ملا تھا جب مرکز اور پنجاب میں پرویز مشرف نے ان کی حکومت بنوائی تھی، مگر چوہدری برادران کی سیاست کا انداز ہمیشہ طفیلی رہا ہے۔ اس لیے وہ کوئی بھی بولڈ فیصلہ کرنے سے قاصر رہے۔ انھوں نے خود کو پرویز مشرف کے ہاتھوں میں ربر سٹیمپ بنائے رکھا، جس کا منطقی نتیجہ یہ نکلا کہ ان کے ساتھ جڑنے والا ’’بھان متی کا کنبہ‘‘ پرویز مشرف ہی کا وفادار رہا اور اگلے الیکشن میں چوہدری برادران کی ق لیگ کا صفایا ہوگیا۔
ایسا ہی ایک موقع 2018ء میں عمران خان کو بھی عطا کیا گیا جو ڈلیور نہ کرسکے، مگر چوں کہ 2028ء تک انھیں اقتدار میں رکھنے کا منصوبہ تھا، لہٰذاجب وہ اپنی پالیسیوں اور بے پناہ مہنگائی کے سبب اس قدر غیر مقبول ہوگئے کہ ان کا پارٹی ورکر بھی مایوس ہوگیا، تو انھیں بریک دینے کا فیصلہ کیا گیا، تاکہ عام انتخابات میں انھیں دوبارہ لایا جا سکے۔
اپوزیشن بھی روز روز کی گرفتاریوں اور مقدمات سے تنگ تھی۔ چناں چہ وہ بھی مختصر مدت کے لیے اقتدار میں آنے کو راضی ہوگئی اور یوں 3 سال 7 ماہ 21 دن تک حکومت کرنے کے بعد عمران خان گھر بھیج دیے گئے۔ اس کے بعد حالات نے یک دم پلٹا کھایا اور عمران خان کی مرضی کے سیٹ اَپ کے منصوبے کو اَپ سیٹ کر دیا گیا۔ بے فیض ہونے کے بعد سندھ کے یہ بلدیاتی انتخابات عمران خان کا پہلا ٹیسٹ تھے۔ ایم کیو ایم کے تمام دھڑوں کی صلح اور اسے ان انتخابات سے باہر رکھنے سے یہ بات واضح ہو رہی ہے کہ ایم کیو ایم کے ’’گناہ‘‘ معاف ہوچکے ہیں اور مستقبل کے عام انتخابات میں سندھ سے پی ٹی آئی کو کامیابی ملنا بہت مشکل ہے۔
اگر بات سندھ کے بلدیاتی الیکشن میں ٹرن آؤٹ پر کی جائے، تو یہ بہت مایوس کن تھا۔ دس سے بارہ فی صد ٹرن آؤٹ رہا جس کی وجہ سے الیکٹورل حلقے کے کل رجسٹرڈ ووٹوں کا صرف 5 فی صد ووٹ لینے والے امیدوار بھی کامیاب ہوگئے۔ یہ کیسا لطیفہ ہے کہ جن 95 فی صد لوگوں نے اسے ووٹ نہیں دیا، وہ ان کی بھی نمائندگی کرے گا۔
یہ ہماری سیاست کا بہت بڑا المیہ ہے کہ کل ووٹوں کا 5، 7 فی صد اور کاسٹ کیے گئے ووٹوں کا 30 فیصد لینے والا بھی منتخب ہوجاتا ہے۔ یہ دیکھا گیا ہے کہ عام انتخابات میں 3 امیدوار 50، 50 ہزار سے زائد ووٹ حاصل کر لیتے ہیں اور ان میں سے ایک چند سو ووٹوں کے فرق سے جیت جاتا ہے جب کہ تین چار مزید امیدواران بھی 15، 20 ہزار ووٹ لے جاتے ہیں۔ یوں کاسٹ کیے گئے ووٹوں کا 30 فی صد لینے والا کامیاب ہوجاتا ہے، جب کہ 70 فی صد ووٹروں نے اسے مسترد کیا ہوتا ہے۔ اور جن لوگوں نے ووٹ نہیں ڈالا ہوتا، ایک طرح سے انھوں نے بھی خاموش احتجاج کے ذریعے اسے مسترد ہی کیا ہوتا ہے۔
یہ ہمارے مینڈیٹ کی توہین نہیں تو اور کیا ہے؟ وقت آ گیا ہے کہ انتخابی اصلاحات کی جائیں۔ کل رجسٹرڈ ووٹوں کا کم از کم 50 فی صد لینے والا امیدوار کامیاب قرار دیا جائے، تا کہ اسے عوام کا صحیح اور منتخب نمائندہ کہا جاسکے۔ اگر کوئی امیدوار مطلوبہ تعداد میں ووٹ حاصل نہ کرسکے، تو سب کو ناکامیاب قرار دے کر پہلی دو پوزیشنوں پر آنے والے امیدواروں کے درمیان دوبارہ الیکشن کروایا جائے۔
ایک تجویز یہ بھی قابلِ عمل ہے کہ بیلٹ پیپر پر جہاں تمام امیدواروں کے نام اور انتخابی نشان پرنٹ کیے جاتے ہیں، وہاں پر آخر میں ایک خانہ ’’مسترد‘‘ کا بھی ہونا چاہیے۔ اگر کوئی ووٹر الیکشن میں حصہ لینے والے کسی بھی امیدوار کو ووٹ نہیں دینا چاہتا، تو وہ ’’مسترد‘‘ والے خانے میں مہر لگا کر اپنا حقِ رائے دہی استعمال کرسکے۔ مسترد کے ووٹ سب سے بڑھ جائیں، تو اس حلقے میں تمام امیدواروں کو نااہل قرار دے کر نئے امیدواروں کے ساتھ نیا الیکشن کروایا جائے۔ اس طریقے سے پارٹیوں میں پیرا شوٹرز کی بھی پارٹی کارکنوں کے ذریعے حوصلہ شکنی کی جاسکے گی۔ ورنہ موجودہ سسٹم میں تو بعض حلقوں میں ایسا بھی ہوتا ہے کہ سب امیدوار ہی قریباً ایک جیسے ہوتے ہیں جس کی وجہ سے ووٹرز کو مجبوراً ان سب بُروں میں سے ’’کم بُرے‘‘ کا انتخاب کرنا پڑتا ہے۔
……………………………………
لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com یا amjadalisahaab@gmail.com پر اِی میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔