کیا تبدیلی کا کوئی وجود دکھائی دیتا ہے؟

خان صاحب کا سب سے بڑا کمال یہ ہے کہ وہ خواب بہت خوب صورت دکھاتے ہیں۔ جذبات اور احساسات دونوں کو ٹچ کر جاتے ہیں۔ دورِ جوانی جب وہ کرکٹ کے میدانوں میں چیتے والی ٹی شرٹ پہنتے تھے، اُس کی کہانیاں سنا کر داد وصول کرتے ہیں۔ ہم نے ہر وقت خان صاحب کو سنا اور سن کر کبھی یہ سوچا تک نہیں کہ ان کے ساتھ اختلاف بھی ہوسکتا ہے۔ خان صاحب نے جب بھی ’’میرے پاکستانیو!‘‘ سے گفت گو کا آغاز کیا، عوام نے دل سے ہر بات سنی اور آخر میں لبیک بھی کہا۔
خان صاحب نے جب سیاست کا آغاز کیا، تو کسی کو یہ خبر تک نہیں تھی کہ ایک دن وہ ہر دل عزیز لیڈر بن جائیں گے۔ لوگوں کی اس شدید محبت کے پیچھے دو بڑی وجوہات ہیں:
٭ پہلی وجہ:۔ خان صاحب نے ملک کی دو بڑی سیاسی پارٹیوں کے سربراہان کو مسلسل تنقید کا نشانہ بنایا۔ خان نے پوری قوم کو سمجھایا کہ یہ لوگ ’’چور‘‘ ہیں، ’’نااہل‘‘ ہیں اور سب سے بڑی بات ’’پاکستان کے خیر خواہ‘‘ نہیں۔ 90ء کی دہائی میں سیاسی بے چینی کے بعد مشرف کا مارشل لا آیا اور پھر اس کے بعد سیاست دان اور جمہوریت دونوں منظرِ عام سے غائب رہے۔ عوام روایتی سیاست سے نالاں تھے، اس لیے عمران خان ایک بہترین چوائس بن گئے۔
٭ دوسری وجہ:۔ عمران خان کبھی اقتدار میں نہیں آئے تھے اور یہی سوچ کر ایک بڑے اجتماع نے ووٹ، نوٹ اور سپورٹ دیا کہ چلو، ایک موقع ان کو بھی دینا چاہیے۔ سیاسی میدان میں خان کو عروج پر پہنچانے کے لیے سوشل میڈیا اور الیکٹرانک میڈیا پر زبردست مہم چلائی گئی اور یوں خان صاحب وزیراعظم بن گئے۔ میری طرح پاکستان کے بے شمار لوگوں نے خان صاحب کا سہ سالہ دور دیکھا۔ بہت سارے ایسے ہیں جو اَب بھی یہی راگ اَلاپ رہے ہیں کہ خان کے بغیر پاکستان کو صحیح سَمت گام زن کرنے کی کسی میں اہلیت نہیں۔
لیکن باشعور طبقہ متفکربھی ہے اور کسی حد تک مایوس بھی۔ اس طبقے نے اپنی امیدیں خان سے وابستہ کی تھیں اور ان کا خیال تھا کہ پاکستان کی کایا اب پلٹے گی، مگر نتیجہ ’’وہی ڈھاک کے تین پات‘‘ کے مصداق نکلا۔ یہ باشعور طبقہ مانتا ہے کہ خان کے سیاسی مخالفین سب چور بھی تھے اور نااہل بھی۔ یہ طبقہ یہ بھی ماننے کو تیار ہے کہ خان کے علاوہ وہ تمام لوگ بے ایمان ہیں جو ان کی مخالفت کرتے ہیں۔ یہ طبقہ یہ بھی تسلیم کرتا ہے کہ برسوں سے جن دو پارٹیوں نے ملک پرحکومت کی، اس ملک اور عوام کو بے تحاشہ نقصان پہنچایا۔ یہ سب کچھ تسلیم کرنے کے بعد یہ باشعورطبقہ پی ٹی آئی کے ورکرز کی خاطر یہ بھی اکثر مان لیتا ہے کہ امریکہ بھی ہر وقت خان کے خلاف سازشوں میں مصروف رہا اور آخرِکار ’’رجیم چینج‘‘ پر کھیل کا پانسا پلٹ دیا، لیکن کچھ سوالات اس باشعور طبقے کے ایسے ہیں جن کا جواب ہر کوئی چاہتا ہے مگر بدقسمتی سے خان صاحب خود دلیل کے ساتھ بات کرتے ہیں…… نہ اس پارٹی کے دوسرے راہنما جواب دینے کے موڈ میں ہیں۔
کرپشن کے خلاف جنم لینے والی پارٹی کو جب اقتدار سونپ دیا گیا، تو مختلف کیس ان کے اپنے راہنماؤں کے گلے پڑے اور اداروں کے اندر کرپشن، اقربا پروری اور فیورٹزم کی آڑ میں عام لوگوں کو تقسیم در تقسیم کردیا گیا۔ یہ اعتراض خان صاحب پر مسلسل اس لیے ہورہا ہے کہ یہ خان ہی تھے، جنھوں نے برسوں سے اپنے علاوہ تمام لوگوں پر کرپشن کے الزامات لگائے۔ اصولی طور پر ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ اقتدار ملنے کے بعد کرپٹ لوگوں کو سزائیں ہوتیں، مگر نظام کے اندر جہاں جہاں کرپشن کے گڑھ ہیں، وہاں نئے ایس اُو پیز بھی نہیں بنے۔ اگر کرپشن کے خلاف دو دن کام بھی نہیں کرنا تھا، تو کیا ضرورت تھی سیاست میں نفرتیں پھیلانے کی ؟
جس پارٹی نے حکم رانوں، وزیروں اور افسرشاہی کے بے ترتیب پروٹوکولوں اور خرچوں کے خلاف مسلسل یورپ کی مثالیں دی تھیں، وہ جب خود اقتدار میں آئی، تو مرکزی کابینہ میں وزرا کی تعداد اور بھی بڑھ گئی۔ اس پارٹی کے خرچے اور پروٹوکول ویسے ہی تھے جن کے خلاف یہ خود نکلی تھی۔اگر ایسا ہی کرنا تھا، تو پورے دس سال دووسروں کو کوسنے کا کیا فائدہ؟
ہمارے ملک میں تقریباً 12 کروڑ نوجوان ہیں اور یہ بھی یاد رہے کہ ہر سال دس لاکھ نوجوان ڈگری ہاتھ میں لے کر جاب کی خاطر مارکیٹ میں آتے ہیں، لیکن جابز ہوتی ہیں اور نہ مواقع۔یہ خان ہی تھے جنھوں نے ایک کروڑ ملازمتوں کا وعدہ کیا تھا، لیکن حقیقت تو یہ ہے کہ ہوم ورک نہ ہونے کی وجہ سے ان کے دور میں کئی لوگ جاری ملازمتوں سے ہاتھ دھو بیٹھے۔
ایسے تمام نوجوان جو برسوں سے میرٹ کی بالادستی پر یقین رکھتے تھے، ان کو امید کی کرن نظر آنے لگی تھی اور جب بار بار نواز شریف اور زرداری کو چور چور کَہ کر خان صاحب نے مخاطب کرنا شروع کیا، تو پھر امید اور بڑھ گئی، لیکن سرکاری ملازمتوں کے لیے درخواستیں دینے کے بعد ان نوجوانوں کو احساس ہوا کہ فرق کہیں پر بھی نہیں آیا ۔ سب کچھ پرانا ہے۔
خان صاحب کے اہم ترین لوگ اقتدار سے پہلے جذبات میں آکر کہتے تھے کہ 200 ارب ڈالر آئی ایم ایف کے منھ پر ماریں گے، تو تالیوں کی گونج میں اندھی تقلید کے گھوڑوں پر سوار بچوں، نوجوانوں اور بوڑھوں سب کی آنکھوں سے آنسوؤں کی لڑیاں جاری ہوتیں، لیکن یہ ایک اٹل حقیقت ہے کہ خان کے دور میں پاکستان پر قرضوں کا بوجھ اور بھی بڑھ گیا۔
بونیر سے میرا تعلق ہے، یہاں پچھلے کئی سالوں سے میں ہسپتالوں کی حالت خود بھی دیکھ رہا ہوں اور سوشل میڈیا پر لوگوں کو بھی دکھا رہا ہوں۔ اضلاع کے اندر ہسپتالوں کی حالت پی ٹی آئی کے دور میں انتہائی خراب رہی۔ صحت کارڈ کا فائدہ بہت کم لوگوں نے اُٹھایا اور میرا ذاتی خیال یہ ہے کہ صحت کارڈ کے پیسے اگر سرکاری ہسپتالوں کی حالت بہتر بنانے میں لگ جاتے، تو شائد اب یہ حالت نہ ہوتی ۔
مسلسل یہی سوچ رہا ہوں کہ تبدیلی کہاں پر آئی ہے؟ خان صاحب نے کبھی ٹیم سلیکشن پر توجہ نہیں دی اور اب بھی واضح طور پر خمیازہ پوری پارٹی بھگت رہی ہے لیکن کوئی نہیں جو غلطی کا اعتراف کرکے آیندہ کا لایحۂ عمل طے کرے۔
……………………………………
لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com یا amjadalisahaab@gmail.com پر اِی میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے