روسی زبان کا شمار زبانوں کے انڈو یورپین گروپ میں کیا جاتا ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ روسی اور ہندوستانی زبانوں کی ایامِ قدیمہ میں ایک مشترکہ بنیاد تھی۔ یہ ایک مسلمہ حقیقت ہے اور علما کو اس کے ناقابلِ تردید ثبوت ملے ہیں۔ انھوں نے مختلف قوموں کی قدیم داستانوں کا بغور مطالعہ کر کے ہندوستانی اور روسی زبانوں کی مشترکہ بنیاد کا اعلان کیا تھا۔ مثال کے طور پر قدیم ہندوستانی ’’وید‘‘ کے بارے میں اچھی طرح سے تحقیقات کر کے علما اس نتیجے پر پہنچے کہ انسانی تہذیب و تمدن کی جڑیں دنیا کے گرم جنوبی علاقوں میں نہیں…… بلکہ شمالی خطے میں تلاش کرنا چاہیے۔کیوں کہ بہت پرانے زمانے میں وہاں سہانا موسم تھا اور لوگ آباد تھے۔
افسوس اس زمانے کے مادی نشانات آج تک محفوظ نہیں رہے…… لیکن جو جغرافیائی نام برقرار ہیں…… ان کی بنا پر علما نے روسی اور ہندوستانی زبانوں میں قربت کی تصدیق کی ہے۔
عجیب بات یہ ہے کہ روسی شمالی علاقوں کے درجنوں دریاؤں، جھیلوں اور پہاڑوں کے نام برِصغیر کے دریاؤں، جھیلوں اور پہاڑوں کے ناموں سے ملتے جلتے ہیں اور سنسکرت زبان کے ذریعے ان کی تشریح کی جا سکتی ہے۔
سندھی زبان کی تاریخ:
https://lafzuna.com/history/s-5332/
مثال کے طور پر روس کے شمالی صوبے آرہانگیلسک میں دریائے گنگا اور صوبے مورمانسک میں دریائے اِندِگا بہتا ہے۔ ایسی کئی مثالیں پیش کی جا سکتی ہیں۔
روسی اور برصغیر کی زبانوں کی جڑیں قدیم زمانے میں پیوست ہیں۔علما کا اندازہ ہے کہ ہمارے آبا و اجداد جو روسی زبان سے مشابہ زبان بولتے تھے…… قبل از مسیح دو ہزار سالہ دور میں رہتے تھے۔بعد از اں وہ دو قبایل میں منقسم ہو کر دنیا کے مختلف علاقوں میں آباد ہوئے تھے۔ جدید دور میں 10ویں صدی میں قدیم ’’سلاو زبان‘‘ کی بنا پر ’’سلاو رسم الخط‘‘ وجود میں آیا۔ پہلی روسی واقعہ نگاری اسی رسم الخط میں تحریر تھی۔
جدید روسی زبان 15ویں صدی میں پیدا ہوئی جب ماسکو کے حکم رانوں نے الگ الگ چھوٹی روسی ریاستوں کو ایک ملک میں متحد کیا تھا۔ شروع شروع میں روسی زبان کی کئی مقامی بولیاں تھیں…… جن کی اپنی اپنی خصوصیات اور اپنا اپنا طرزِ بیاں تھا…… لیکن رفتہ رفتہ ان مقامی بولیوں میں فرق مٹ گیا اور انجام کار ماسکو میں رہنے والے لوگوں کی زبان عمومی زبان بن گئی۔
سائنس اور دیگر ملکوں سے تجارت کی ترقی کے ساتھ ساتھ روسی زبان میں دوسری زبانوں کے الفاظ، کہاوتیں اور محاورے سموئے گئے۔
پشتون بنی اسرائیل نہیں ہیں:
https://lafzuna.com/video/s-20096/
جدید ادبی روسی زبان کی بنیاد ڈالنے کا سہرا 19ویں صدی کے شہرہ آفاق شاعر ’’الیکسنادر پوشکین‘‘ کے سر ہے۔ دیگر نام ور روسی ادیبوں اور شعرا نے بھی روسی زبان کی مزید نشو و نما میں بہت اہم کردار ادا کیا۔
علما کی رائے میں دنیا میں تقریباً پانچ ہزار زبانیں بولی جاتی ہیں…… جن میں سے 500 زبانوں کا اچھی طرح مطالعہ کیا گیا ہے، جب کہ قریب 300 زبانوں کا مستحکم رسم الخط ہے۔
دنیا کی زبانوں کے آدھے حصے کو صفحۂ ہستی سے مٹنے کا خطرہ درپیش ہے۔ زبانوں کا وجود تب ختم ہو جاتا ہے، جب 30 فی صد سے زاید بچے اسے نہیں سیکھتے۔
ماہرینِ لسانیات ’’تاباسرن زبان‘‘ کو ایک مشکل ترین زبان سمجھتے ہیں۔ روس میں شامل رپبلک داغستان میں آباد بہت کم لوگ یہ زبان جانتے ہیں…… لیکن چینی زبان سب سے مشکل زبان مانی جاتی ہے۔
جہاں تک روسی زبان کا تعلق ہے، تو غیرملکی لوگ اسے بھی انتہائی مشکل سمجھتے ہیں، اگر سچ کہا جائے، تو روسی لوگوں کو بھی وہ آسان نہیں لگتی۔ اسکول میں کئی طلبہ روسی زبان کے قاعدوں پر دقت سے عبور حاصل کرتے ہیں۔ اگرچہ لوگ اپنی مادری زبان کا مطالعہ زندگی بھر جاری رکھتے ہیں…… پھر بھی بولتے ہوئے یا لکھتے ہوئے غلطیاں ہوتی ہیں اور لوگوں کو اکثر روسی لغتوں سے رجوع کرنا پڑتا ہے۔
روس ایک کثیر القومی ملک ہے…… لیکن روسی زبان کو سرکاری زبان کا رُتبہ حاصل ہے۔ کیوں کہ ملک کی 80 فی صد آبادی اسے اپنی مادری زبان سمجھتی ہے۔
پشتونوں کی روایتی اور ثقافتی پشاوری چپل:
https://lafzuna.com/blog/s-13788/
روسی زبان کا شمار دنیا کی سب سے بڑی اور مشہور ترین زبانوں میں ہوتا ہے۔ آج کل روس اور غیرممالک میں 25 کروڑ افراد روسی بولتے ہیں۔ یوں بولنے والوں کی تعداد کے لحاظ سے روسی زبان دنیا میں پانچویں مقام پر ہے۔ 16 کروڑ افراد روسی زبان کو مادری زبان مانتے ہیں۔ اس اعتبار سے اس کو دنیا میں 7واں مقام حاصل ہے۔
اس کے علاوہ روسی زبان اقوامِ متحدہ میں زیرِ استعمال 6 سرکاری زبانوں میں سے ایک ہے۔
(سوشل میڈیائی گروپ "News from Russia in Urdu” سے انتخاب)
…………………………………….
لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com یا amjadalisahaab@gmail.com پر اِی میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔
